ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ فرمائشی غزل ہی تو ہے
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
جی ہا ں عوام کو جمہوری ثمرات تبروکتاََ ہی منتقل کردیئے جاتے تو؟ |
|
آج ایک بات جو ہر پاکستانی شدت سے محسوس
کررہاہے وہ یہ ہے کہ اگر ہمارے تمام سابقہ یعنی کہ ہرقسم کے( سِول و آمر
اور بالخصوص موجودہ )حکمرانو و سیاستدانواور عوامی خدمت کے لئے مختص کئے
گئے اداروں کے سربراہان نے عوام کو صحیح اور حقیقی معنوں میں جمہوری ثمرات
تبروکتاََ ہی صحیح کچھ منتقل کردیئے ہوتے تو یقیناآج مُلک میں جمہوریت
حکمران طبقے اور سیاسی بازی گروں کے حد تک محدود نہ ہوتی بلکہ عوام الناس
بھی اِس سے مستفید ہورہے ہوتے اور مُلک میں حقیقی جمہوریت اُسی طرح پروان
چڑھ رہی ہوتی جیسی کہ جمہوریت کی اصل روح ہے مگراِس سارے پس منظر میں بڑے
افسوس کی ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ ایسا ہرگزہرگز نہیں کیا گیامیر ے دیس میں
جو جو جب جب اورجیسے بھی اقتدار کی مسند پر آیاہے اُس نے جمہوریت اور
جمہوری چِڑیا کو اپنی ہی مُٹھی میں قید رکھا اور گنگنا تی چہچہاتی نغمہ
گاتی جمہوری چڑیا کا عوام کو دور ہی سے دیدار کرایا اور عوام کو للچایا
لپکایااورعوام کو اِس کے سبز و سُنہرے با غات دِکھا دِکھا کر
ماراومروایامگرپھر بھی عوام کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور مسائل اور بحرانوں
کے کچھ نہ آیاکیوں کہ اِن ساروں نے ہمیشہ جمہور، جمہوریت اور جمہوری چڑیاکو
اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے خاطرہی استعمال کیا آج بھی میرے وطن پاکستان
کی 69سالہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ ہاں اِس عرصے کے دوران جمہوری ثمرات
حکمرانوں اور سیاستدانوں تک( تو آپس میں) ایک دوسرے کی جھولی میں ضرور پڑتے
رہے ہیں مگرعوام الناس اِن ثمرات سے ہمیشہ ہی یکسر محروم رہے ہیں ۔
معاف کیجئے گا ! آج حکمرانوں سیاستدانوں اور بعض اداروں کے سربراہان کے گھر
کی نوکرانی اور لونڈی بنی جمہوریت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ یہ ہمیشہ سے
رہی ہے اِن دِنوں جس جمہوریت کے چرچے عوام الناس میں حکمران سیاستدان اور
بہت سے اداروں کے سرگرداں ذمہ داران عام کرتے پھررہے ہیں یقین جا نیئے کہ
آج بھی اِن جمہوری پجاریوں کی جانب سے عوام تک اُس طرح سے جمہور، جمہوریت
اور جمہوری روایات نہیں پہنچنے پا ئی ہیں جس کے میرے دیس پاکستان کے لگ بھگ
بیس کروڑشہری برسوں سے منتظر ہیں۔
اَب کوئی یہ سوال حکمرانو، سیاستدانو اور اداروں کے سربراہا ن سے پوچھے کہ
اُنہوں نے دیدہ و دانستہ عوام النا س تک جمہوری ثمرات کیوں نہیں
پہنچائے؟؟اَب تک عوام الناس کو اِس سے کیوں محروم رکھاگیا ہے؟؟اور آخرکب تک
سیاسی بازی گروں کی عوام کی دہلیز تک جمہوریت پہنچانے کی ڈرامہ بازی جاری
رہے گی؟؟ تو یقینا ان سوالا ت پر لامحالہ یہ سارے جمہوری چور اور سیاسی
بازی گربغلیں جھانکتے نظرآئیں گے اور اِدھر اُدھر کنی کٹاکر نکل بھاگنے کا
راستہ ضرور تلاش کریں گے مگر اِس پر بھی ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اِن
سارے جمہوری چوروں اورسیاسی بازی گروں سے یہ سوالات کون کرے گا؟؟یعنی کہ آج
مفتِ کا دودھ پیتی اور سو سوچوہے کھاتی بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟
کیونکہ آج عوام تو بیچاری اتنی معصوم اوربے بس و لاچار ومجبور ہے کہ یہ
توکل منھی جمہوری ثمرات اور جمہوری پھل کا مزا چھکے بغیر ہی اَب تک طرح طرح
کے اپنے بنیادی مسائل اور بحرانوں کاشکار ہے مگر اِس حال میں بھی اِسے
اَبھی یقین ہے کہ جب کبھی بھی قسمت کی دیوی اِس پر مہربان ہوئی اور اﷲ نے
اِس کے بھی دن پھیرے اور اِسے جمہوری ثمرات میسر آئے تو اِس کے سارے مسائل
اور ظاہر و باطن ساری پریشانیوں دُکھ درد کا مداوا ضرورپلک چھپکتے ہی ہوجا
ئے گا یوں آج بھی میرے بیس کروڑ پاکستانی بھائی اِس اُمید اور حسرت کے ساتھ
روز جیتے ہیں اور حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قوم کی خدمت پر معمور انتظامی
امورکی انجام دہی کرنے والے اداروں کے سر براہان کی چکنی چپڑی مخمل کے خول
میں لپٹی باتوں میں آکر ہر لمحہ مرتے ہیں مگر اپنے اچھے اور جمہوری دن آنے
اور اپنی جھولی میں بھی جمہوری ثمرات پڑنے کی اُمید کا دامن اپنے ہاتھ سے
نہیں جا نے دیتے ہیں راقم الحرف کی بھی دُعا ہے کہ اﷲ کرے کہ مجھ سمیت آپ
اور میرے دیس کے لگ بھگ بیس کروڑ پاکستانیوں کے اچھے دن بھی آجا ئیں اور
اِنہیں بھی وہ ہی جمہوری ثمرات نصیب ہوجائیں جن پر اَب تک ہمارے حکمران ،
سیاستدان اور اداروں کے سربراہان شیش ناگ بننے بیٹھے ہیں اور جمہوری لٹھ لے
کر خود اِس پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔
بہرحال ، یہ حکمرانوں کی جمہوریت ہی تو ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت کو جس طرح
سے جب اور جیسے چاہاہے اپنے لئے استعمال کیا ہے اور مزید یہ کہ یہ اِسے جب
تک چاہیں گے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے خاطر استعمال کرتے رہیں
گے بیشک آج کی جمہوریت عوام الناس کے لئے بہت بڑاسوالیہ نشان ہے آج تک جس
کا جواب عوام کو نہیں مل پا یا ہے،اَب یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں اور
اداروں کے سربراہا ن تک محدود رہنے والی جمہوریت کا ہی تو نتیجہ ہے کہ
انٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں واہ شگاف انداز سے یہ واویلا
کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں کرپشن میں کمی کے معاملے میں پاکستان پہلے
نمبرپر آگیاہے جبکہ چین کے بعد اِس کا دوسرانمبر ہے یعنی کہ پاکستان میں
کرپشن کم ہوگئی ہے یوں بیچارہ پاکستان جوزندگی کے کسی اور شعبے میں تو نہیں
البتہ کبھی کرپشن کے میدان میں سب کو پیچھاچھوڑتاجارہاتھاآج یہ یکدم سے
9درجے بہتری کے ساتھ 116ویں نمبر پر آگیاہے تاہم خبر ہے کہ پاکستان میں
واضح طورپر کرپشن میں کمی آئی ہے جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہائی
تیزی سے جملہ بازی کرنے میں اپنی پہنچان رکھنے اور منطقی جواب دینے کے ماہر
رہنماسینیٹرسعید غنی کا حلق پھاڑ کر اور گریبان چاک کرتے ہوئے یہ کہنا ہے
کہ’’ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ موجودہ حکمرانوں اور اداروں کی
فرمائشی غزل ہے جس کا سر ہے نہ پیر‘‘اَب یہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی
جمہوریت ہی تو ہے کہ ایک طرف تو ایک جمہوری دھارے میں بہہ کر اپنی مرضی کی
رپورٹ تیار کروارہاہے تو دوسری جانب دوسرا اِسی رپورٹ کو مسترد کررہاہے اِن
دونوں کی اِس قسم کی بہت سی دیگر(جیسے پانا لیکس معاملے کی نہ سمجھنے میں
آنے والی )سیاسی لڑائیوں میں توبیچارے عوام ہی تو پس رہے ہیں ناں، اِن کا
تو کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے مگر اپنا اپنا سیاسی قداُونچاکرنے کی سب کو
لگی پڑی ہے۔ ختم شُد)
|
|