غریب کی آہ

میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا بد بو کا زور دار جھو نکا آکر میری ناک اور پھیپھڑوں کو جلا تا چلا گیا بد بو کیا بو ل براز گوشت کے جلنے سڑنے اور انتہائی بد بو دار تعفن نے ہوا کو خراش دار بنا دیا تھا اب مجھے سمجھ آئی کہ میرے ساتھ آنے والے نے اپنے منہ پر ماسک کیوں چڑھا یا تھا آنیوالے نے مجھے بھی ماسک پیش کیا تھا کہ مریض کے پرانے زخم اب بد بو دار نا سوروں میں تبدیل ہو چکے ہیں مریض کی خو فناک خارش نے اُس کا جسم ادھیڑ کر رکھ دیا ہے خا رش کی شدت اتنی زیا دہ ہو تی ہے کہ ہمیں مریض کے ہا تھ باندھنے پڑتے ہیں اور روزانہ مریض کے نا خن کا ٹنے پڑتے ہیں ہم مریض کے پاس کو ئی چھری کانٹا یا چمچہ نہیں رہنے دیتے کیونکہ شدید خا رش کے حملے کی صورت میں مریض کانٹوں چمچوں سے اپنے جسم کو ادھیڑ ادھیڑ کر لہو لہان کر لیتا ہے اور پھر خارش کے ساتھ ساتھ زخموں کی تکلیف سے دھاڑیں مار کر روتا ہے مریض اتنی شدت سے روتا ہے کہ اہل محلہ اکٹھے ہو جا تے ہیں مریض کی زور دار بھیانک آوازیں اور دھا ڑٰں سن کر گلی سے گزرنے والے لوگ سمجھتے ہیں کے اندر کسی زندہ انسان کو ذبح کیا جا رہا ہے جیسے بکرے کو کاٹا جا رہا ہے ‘مریض کی خا رش اور پرانے نا سور اب لا علاج ہو چکے ہیں دنیا جہاں کی دوائیاں اور مرہم فیل ہو چکے ہیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی ڈاکٹروں حکیموں لیبارٹریوں ہسپتالوں کے دھکے کھا نے اور نا کام و نا مراد ہو نے کے بعد بہت ساری دولت لٹانے کے بعد اب تھک ہا ر کر ما یوس ہو کر مریض کو اِس الگ کمرے میں شفٹ کر دیا گیا ہے دن میں تو کو ئی نہ کو ئی مریض کے پاس ہو تا ہے رات کو اِسے زنجیروں سے اِس لیے با ند ھ دیتے ہیں تا کہ یہ خا رش کر کے اپنے زخموں کو اور نہ خراب کر دے ۔محترم قارئین لا ہور کے علا قے میں ایک پرانے ساٹھ سال سے زیا دہ عمر کا ایک ادھیڑ عمر بو ڑھا گندگی اور غلا ظت کا ڈھیر بنا بیٹھا تھا بو ڑھے شخص کے تقریبا تمام اعضا کمزور اور اندرونی نظام کا م کر نا چھوڑ چکے تھے خوفناک تیز خارش نے جسم کی رگ رگ کو زخموں سے چور کر دیا تھا وہ سر سے پا ؤں تک لہولہان اور زخموں سے چور تھا خوفناک بیما ری اور بڑھا پے نے اُس سے سب کچھ چھین کر اِسے نشانِ عبرت بنا رکھ دیاتھا گھر کی حالت سے لگ رہا تھا کہ یہاں کے مکین مالی طور پر آسودہ ہیں گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اگر گھر کے مکین دولت مند ہیں تو اِس لا چار بے بس زخموں سے چور با بے کا علاج کیوں نہیں کر رہے میں مریض کی خو فناک بلکہ بھیانک قابل رحم حالت کے لیے بلکل بھی تیا ر نہ تھا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک بو ڑھا مریض ہے جو اپنی بیما ری اور زخموں کی وجہ سے چل کر میرے پا س نہیں آسکتا اِس لیے میں اِس مریض کے بیٹے کے ساتھ یہاں آیا تھا اِس کا بیٹا پچھلے کئی دنوں سے میرے پا س آرہا تھا میں نے شدید مصروفیت کی وجہ سے بیٹے کو کئی دن انکا ر کیا لیکن بیٹے کے بار بار آنے اور مریض کی حالت بتا نے پر میں یہاں آگیا تھا لیکن یہاں آکر مریض کی حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا تھا بزرگ کی خو فناک حالت زار دیکھ کر میرے اعصاب منتشر ہو چکے تھے آخر آہستہ آہستہ میرے اعصاب جب بحال ہو ئے تو میں نے بیٹے کی طرف دیکھا جو منہ پر ماسک چڑھا ئے کھڑا تھا تو اُس نے مریض کے پاس پڑی ہو ئی کرسی پر اشارہ کیا کہ میں اُس کر سی پر بیٹھ جاؤں مریض کے جسم پر جابجا خون اور نا سور اور بو ر براز کے بد بو دار بھبوکے اڑ رہے تھے بد بو کی شدت مجھے کرسی پر بیٹھنے سے روک رہی تھی لیکن پھر فوری خو ف خدا اور خدمت خلق کا جذبہ میرے اوپر غالب آیا اور میں مریض کے پاس پڑی کر سی پر بیٹھ گیا مریض گہری ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا ساتھ ساتھ زخموں کی شدت اور تکلیف سے سسکیاں بھی لے رہا تھا میری طرف دیکھ کر اچانک اُس نے میرے سامنے ہا تھ جوڑ دیئے اور چھت کی طرف اشارہ کرکے کہامجھے اﷲ تعالی سے معافی دلا دیں میں بہت بڑا ظالم جابر گنا ہ گار انسان ہوں میری ساری زندگی دوسروں پر ظلم کر تے گزری ہے پھر درد کی شدت سے اُس کی آواز آہوں سسکیوں اور دھا ڑوں میں تبدیل ہو گئی درد پچھتا وہ اور زخموں کی شدت سے اب اُس سے بو لا نہیں نہیں جا رہا تھا اب وہ مسلسل رو رہا تھا اور بار بار معافی ما نگ رہا تھا کہ مجھے خدا سے معافی دلا دیں اب وہ اشاروں میں با تیں کر رہا تھا اور پھر اُس نے ایک کا غذ میری طرف بڑھا یا کہ اِس کو آپ پڑھ لیں آپ کو میرے گنا ہوں اور جرموں کا پتہ چل جا ئے گا مریض نے گنا ہوں کا اقرار کیا تھا اُس کے بقول میں طا قتور سرکا ری عہدے پر تھاساری زندگی بہت ٹھاٹ غرور اور نخرے سے نو کری کی میر ی سختی اور دہشت دور دور تک پھیلی ہو تی تھی میں نے جہاں بھی نو کری کی اُس دفتر کے درودیوار بھی میری ہیبت سے کانپتے تھے میں دوسروں کو تکلیف درد اور سزا دے کر خو ش ہو تا تھا میں خو ش لباس تھا مہنگے لبا س گھڑیاں عینکیں پینٹ کو ٹ میری پہچان تھی مہنگے پرفیومز میری کمزوری تھے میں جہاں سے گزر جاتا وہ جگہ مہک جا تی لوگ میری خوش لباسی اور عطر پسندی کی مثالیں دیا کر تے تھے میں نے بے شما ر لوگوں پر ظلم کئے جھوٹی سزائیں دیں جو میری شان میں گستاخی کر تا میں اُس کو کیڑے مکوڑے کی طرح پاؤں تلے مسل کے رکھ دیتا میرے سے کو ئی بھی پنگا لینے کی غلطی نہ کر تا بلکہ میرے با رے میں مشہو ر تھا کہ میں دوستوں کو بھو ل جاتا ہوں دشمنوں کو نہیں ویسے تو میری پچھلی زندگی لوگوں پر ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری ہو ئی ہے لیکن ایک گناہ ایسا ہے کہ جس میں بھی نہیں بھو ل سکتا اور یقینا میری بیما ری اُسی گنا ہ کا نتیجہ ہے میرا ایک ڈرائیور تھا وہ کسی گا ؤں سے مزدوری کے لیے شہر آیا ہوا تھا وہ سرکا ری ملازم تھا میں جب اُس کے محکمے میں گیا تو وہ میرا ڈرائیور بن گیا ایک دن وہ میری بیوی کی ذاتی گا ڑی لے کر مارکیٹ گیا تو گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا جس میں اُس بیچارے کا بلکل بھی قصور نہ تھا گا ڑی برباد ہو گئی میرے اندر غصے اور سزا کی آگ دہک اٹھی اُس نے بہت منتیں کیں ہا تھ جو ڑے کہ میرا قصور نہیں لیکن میں نہ ما نا اُس نے گھر بار زیورات بیچ کر پیسے دیے لیکن پیسے پھر بھی پو رے نہ ہو ئے تو میں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اُس پر جھوٹا مقدمہ بنوا کر اُسے جیل میں ڈالوا دیا اُس کے جیل جا نے کے بعد اُس کے بو ڑھے ماں با پ کئی با ر معافی مانگنے میرے پاس آئے لیکن میں نے انہیں بھی دھکے مار کر بھگا دیا وہ بیچارے کئی بار آکر میرے قدموں میں لپٹے معا فیاں مانگیں لیکن میری انتقام کی آگ سرد نہ ہو ئی جب وہ بار بار آتے تو آخر میں نے اُن کو بھی جیل کی دھمکی دی تو بیچارے چلے گئے لیکن جا تے جا تے ماں بد دعا دے گئی کہ تم نے میرے بیٹے پر نا جائز ظلم کیا ہے ایک دن جب اقتدار اور طاقت کا سورج تم پر نہیں ہو گا تو تم ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرو گے تمہا ری دولت طاقت عہدہ اختیار تعلقات کچھ بھی کام نہ آئے گا میری یہ بد دعا ہے کہ اﷲ تم سے وہ سب چھین لے جس کے بل بو تے پر تم غریبوں مسکینوں پر ظلم کر تے ہو بوڑھے ماں با پ بد دعا دے کر چلے گئے وقت کا پہیہ چلتا رہا مجھے ریٹا ئرڈ ہو نے سے پہلے الرجی اور خارش نے پکڑ لیا میں دولت پا نی کی طرح بہا ئی آرام نہ آیا ریٹائرڈ ہو گیا میری بیما ری بڑھتی گئی جب میں علا ج سے ما یوس ہو ا تو غریب کی بد دعا یا د آئی تو دوڑ کر اُن کے گا ؤں معا فی مانگنے گیا تو لوگوں نے بتا یا جیسے ہی اُن کا بیٹا جیل سے آیا وہ تمہا رے خو ف سے کسی نا معلوم جگہ پر چلے گئے اُس کے بعد میں اُن سے معافی مانگنے در بدر گیا لیکن نہ مجھے وہ ملے اور نہ ہی خدا کو مجھ پر تر س آیا یہ میری بیما ری نہیں بلکہ اُن غریبوں کی بد دعا ہے آہ ہے جو عرش سے ٹکرائی اور میرے لیے رحمت کے سارے دروازے بند ہو گئے ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736069 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.