داڑھی کی شرعی حیثیت

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ:
۱:داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن وحدیث کے دلائل سے واضح فرمائیں۔
۲:ہم نے علما سے سنا ہے کہ داڑھی ایک بالشت سے کم رکھنا گناہ کبیرہ ہے‘ داڑھی ایک بالشت رکھنا ضروری ہے‘ لیکن ایک طبقہ (گروہ) کہتا ہے کہ داڑھی ایک بالشت رکھنا ضروری امر نہیں‘ بلکہ جتنی دل چاہے رکھ لی جائے یا اتنی رکھ لی جائے کہ دیکھنے والے کو معلوم ہو کہ اس نے داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ اس اختلاف کو مضبوط اور واضح دلائل سے ضبط فرمائیں۔
۳: یہ بات بھی واضح فرمائیں کہ جو شخص داڑھی کے بارے میں مذکورہ بالا عقیدہ یا نظریہ رکھے اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اگر نماز جائز نہیں تو جو نمازیں ایسے امام کے پیچھے پڑھی گئیں ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ ان کا اعادہ ضروری ہے یا نہیں؟۔
حضرات مفتیان کرام سے مزدبانہ گذارش ہے کہ اس مسئلہ کو قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح کریں‘ اللہ پاک آپ حضرات کے علم وعمل میں برکت دے۔
محمد اطہر ارشد علوی گلی نمبر ۷ فیض کالونی ٹوبہ ٹیک سنگھ

الجواب حامداً ومصلیاً
واضح رہے کہ مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہٰذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور کبیرہ گناہ ہونے امت کا اجماع ہے۔
حدیث شریف میں حضرت عائشہ  آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتی ہیں:
”عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة الخ“۔(مسلم ج:۱‘ص:۱۲۹)
یعنی دس چیزیں فطرت میں سے ہیں:۱: مونچھوں کا کتروانا۔۲: داڑھی بڑھانا۔ ۳: مسواک کرنا۔ ۴: ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا۔ ۵: ناخن تراشنا۔ ۶: بدن کے جوڑوں کو دھونا۔ ۷:بغل کے بال اکھاڑنا۔ ۸: زیر ناف بال صاف کرنا۔ ۹:پانی سے استنجاء کرنا‘ راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی‘ فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ اس حدیث میں جو کہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایا گیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتا ہے جو کہ تمام انبیاء اور رسل کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔ (فتاویٰ رحیمیہ جدید‘ ج:۱۰‘ ص:۱۰۶)

صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ“۔ (مجمع البحار‘ ج:۴‘ ص:۱۵۵)
یعنی دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے۔

امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
”قالوا: ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم“ ۔(نووی شرح مسلم‘ ج:۱‘ ص:۱۲۸)
یعنی فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے۔
اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہوگیا کہ داڑھی بڑھانے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا اور یہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت رہی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے:
”عن ابن عمر  قال: قال النبی ا خالفوا المشرکین اوفروا اللحی واحفوا الشوارب‘ وفی روایة: انہکوا الشوارب واعفوا اللحی متفق علیہ“۔ (مشکوٰة‘ ص:۳۸۰)
یعنی مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں پست کرو (چھوٹی کرو) اور داڑھی کو معاف رکھو (یعنی اسے نہ کاٹو)
ایک اور حدیث میں ”وارخوا اللحی“ کے الفاظ مذکور ہیں۔ یعنی داڑھی لمبی کرو۔

ان احادیث مبارکہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم صیغہٴ امر کے ساتھ داڑھی رکھنے کا حکم فرما رہے ہیں اور امر حقیقت میں وجوب کے لئے ہوتا ہے‘ نیز داڑھی منڈانے میں کفار‘ اناث (عورتیں) اور مخنثوں کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے‘ جس کا ناجائز اور حرام ہونا احادیث سے ثابت ہے‘ چنانچہ ابوداود شریف میں ہے:
۱:”عن ابن عباس  عن النبی ا انہ ”لعن المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء“۔ (ابوداود: ج:۲‘ص:۲۱۲)
ترجمہ:”نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں میں سے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور مردوں میں سے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں‘ لعنت فرمائی ہے“۔
۲:”عن ابن عمررضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ ا ”من تشبہ بقوم فہو منہم“۔ (ابوداود‘ ج:۲‘ص:۲۰۳)
ترجمہ:”حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:” جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا“۔
۳:”عن ابی ہریرة  قال: لعن رسول اللہ ا الرجل یلبس لبسة المرأة‘ والمرأة تلبس لبسہ الرجل“۔ (ابوداؤد‘ ج:۲‘ ص: ۲۱۲)
ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے‘ اسی طرح اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے“۔
”عن ابن عباس  قال: لعن رسول اللہ ا المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء وقال اخرجوہم من بیوتکم“۔ (مشکوٰة:۳۸۰)
ترجمہ:”حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لعنت کرتے ہیں ان مردوں پر (جوداڑھی منڈاکر یا زنانہ لباس پہن کر) عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو“۔

داڑھی کا ایک مٹھی سے پہلے کٹانا یہ بھی یہود ونصاریٰ اور ایرانی‘ پارسیوں کے ساتھ مشابہت ہے‘ چنانچہ علمأ متاخرین میں عمدة الفقہاء حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری  بذل المجہود میں تحریر فرماتے ہیں:
”وقص اللحیة من سنن الاعاجم وہو الیوم شعار کثیر من المشرکین والافرنج والہنود ومن لاخلاق لہم فی الدین ممن یتبعونہم ویحبون ان یتزیوا بزیہم“۔ (بذل المجہود‘ ج:۱‘ ص:۳۳)
ترجمہ:”داڑھی کتروانا عجمیوں کا طریقہ ہے‘ موجودہ زمانہ میں اکثر وبیشتر مشرک‘ فرنگی اور ہندؤں کا اوران لوگوں کا شعار بن گیا ہے جن کو دین سے کوئی سروکار نہیں اور انگریزوں کے قدم بقدم چلنے اور ان کی سی شکل ووضع اختیار کرنے کو پسند کرنے لگے ہیں“۔
آگے تحریر فرماتے ہیں:
”ثم قال: وکذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ فعلم ان ما یفعلہ بعض من لاخلاق لہ فی الدین من المسلمین فی الہند والاتراک حرام“۔
امام محمد فرماتے ہیں: اور کتروانے ہی کی طرح مرد کو داڑھی کٹانا بھی حرام ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہندی مسلمان جن کو دین کا کوئی لحاظ نہیں اور نیز ترک جو ایسے کرنے لگے ہیں وہ حرام ہے۔
(بحوالہ جمال مسلم ص:۳۷‘۳۸)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”حلق کردن لحیہ حرام است وروش افرنج وہنود است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است واورا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین است یا بہ جہت آنکہ ثبوت آں بہ سنت است“۔ (اشعة اللمعات ج:۱‘ ص:۲۱۲)
یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے اور اہل مغرب اور ہندوؤں کا طریقہ ہے‘ داڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے اور اس کو سنت اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ یہ دین میں طریقہ مسلوکہ ہے یا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ سنت سے ثابت ہے‘ چنانچہ نماز عید کو (اسی معنیٰ کے اعتبار سے) سنت کہا جاتا ہے‘ حالانکہ وہ واجب ہے“۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
”واما الاخذ منہا وہی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد “۔(کتاب الصوم مطلب فی الاخذ من اللحیة ج:۲‘ ص:۱۵۵)
حکیم الامت حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی مذکورہ عبارت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ صاحب درمختار کا یہ قول:
”لم یبحہہ احد“ نص فی الاجماع“۔(البوادر والنوادر ج:۲‘ ص:۴۴۳)
یعنی داڑھی منڈانے اور کٹوانے کی حرمت پر اجماع کی تصریح ہے۔
اور تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
”وقال العلائی فی کتاب الصوم قبیل فصل العوارض ان الاخذ من اللحیة دون القبضة کما یفعلہ المغاربة ومخنثة الرجال لم یبحہ احد واخذ کلہا فعل یہود الہندومجوس الاعاجم فحیث اد من علی فعل ہذا المحرم یفسق وان لم یکن ممن یستبیحونہ ولایعدونہ فارقا للعدالة والمروة“۔ (ج:۱‘ص:۳۵۱)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے: کہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کو کسی نے مباح قرار نہیں دیا۔
اسی طرح فیض الباری شرح بخاری میں ہے:
”واما قطع دون ذلک فحرام اجماعا بین الائمة رحمہم اللہ“۔ (ج:۴‘ ص:۳۸۰)
یعنی تمام ائمہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ داڑھی اس طرح کاٹنا کہ ایک قبضہ سے کم رہ جائے حرام ہے۔
اور حدیث شریف میں ہے:
”عن رویفع بن ثابت قال: قال لی رسول اللہ ا یارویفع! لعل الحیوٰة ستطول بک بعد فاخبر الناس ان من عقد لحیتہ او تقلد وترا او استنجی برجیع دابة او عظم فان محمدا منہ برئ“۔ (مشکوٰة‘ ص:۴۳)
ترجمہ:”حضرت رویفع بن ثابت  سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ: میرے بعد قریب ہے کہ تیری زندگی دراز ہو‘ لوگوں کو خبر دینا کہ جو شخص اپنی داڑھی میں گرہ لگائے یا داڑھی چڑھائے یا تانت کا قلادہ ڈالے یا گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرے تو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس سے بری ہیں“۔
حضرت مولانا عبد الرحیم لاجپوری صاحب اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ:
”جب داڑھی لٹکانے کے بجائے چڑھانے پر یہ وعید ہے تو منڈانے اور شرعی مقدار (قبضہ) سے کم کرنے پر کیا وعید ہوگی“۔(فتاویٰ رحیمیہ ج:۱۰‘ ص:۱۰۷)
الاختیار شرح المختار میں ہے:
”اعفاء اللحی قال: محمد  : عن ابی حنفیة ترکہا حتی تکث وتکثر والتقصیر فیہا سنة‘ وہو ان یقبض رجل لحیتہ فما زاد علی قبضہ قطعہ‘ لان اللحیة زینة وکثرتہا من کمال الزینة وطولہا الفاحش خلاف السنة“۔
ترجمہ:”اعفاء اللحی یعنی داڑھی بڑھانا امام محمد  کی روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا داڑھی کو چھوڑے رکھنا چاہئے‘ یہاں تک کہ گھنی ہوجائے اور بڑھ جائے اور داڑھی میں قصر سنت ہے اور قصر یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی سے پکڑے جو مٹھی سے بڑھ جائے اس کو کاٹ دیں۔ داڑھی سنت ہے اور اس کا بھر پورا ہونا (گھنی ہونا) کمال زینت ہے اور داڑھی کی غیر معمولی درازی خلاف سنت ہے“۔ (الاختیار شرح المختار ج:۴‘ ص:۲۳۵)
حضرت امام غزالی  تحریر فرماتے ہیں:
”وقد اختلفوا فیما طال منہا فقیل: ان یقبض الرجل علی لحیتہ واخذ ما فضل عن القبضة فلا باس‘ فقد فعلہ ابن عمر وجماعة من التابعین‘ واستحسنہ الشعبی وابن سیرین‘ وکرہہ الحسن وقتادة وقالا: ترکہا عافیة احب لقولہ ا اعفوا اللحی“۔ (احیاء العلوم‘ ج:۱‘ ص:۱۴۸)
ترجمہ:”لوگوں نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ اگر داڑھی لمبی ہوجائے تو کیا کرنا چاہئے؟ بعض کا قول ہے کہ مقدار مشت چھوڑ کر باقی کاٹ ڈالے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لئے کہ حضرت ابن عمر  اور بہت سے تابعین نے ایسا کیا ہے اور امام شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے‘ حسن اور قتادہ نے اس کو مکروہ فرمایا ہے اور کہا ہے کہ: اس کو لٹکی رہنے دینا مستحب ہے‘ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اعفوا اللحی“ داڑھی بڑھاؤ“۔ (بحوالہ مذاق العارفین ترجمہ احیاء العلوم‘ ص:۱۵۹‘۱۶۰)
اور نصاب الاحتساب میں ہے:
”قال علیہ السلام: احفوا لشوارب واعفوا اللحی ای قصوا الشوارب واترکوا اللحی کما ہی ولاتقطعوہا ولاتحلقوہا ولاتنقصوہا من القدر المسنون وہو القبضة“۔(بحوالہ داڑھی کا وجوب حضرت شیخ زکریا ص:۸۱)
ترجمہ:”حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ یعنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھی کو اپنی حالت پر بڑھاؤ اور جب تک وہ ایک قبضہ بھر نہ ہوجاوے اس کو نہ کٹاؤ‘ نہ منڈواؤ‘ نہ گھٹاؤ اور صحیح مقدار ایک مٹھی ہے“۔

بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی واجب ہے اور داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کتروانا حرام ہے اور اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ جیسا کہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کی کتاب الآثار میں ہے:
”محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر  انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ“۔
ترجمہ:”امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ سے وہ حضرت ہیثم  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر  داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے‘ امام محمد فرماتے ہیں کہ: ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم نے بھی یہی فرمایا ہے“۔
فقہ مالکی کے مشہور فقیہہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں:
”ان ترک الاخذ من اللحیة من الفطرة‘ وامر فی الارسال بان تعفی ای تترک ولاحرج علی من طالت لحیتہ بان یأخذ منہا اذا زادت علی القبضة“۔
ترجمہ:”داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے‘ لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہوجائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں“۔
مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
”المختار ترکہا علی حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ“
ترجمہ:”مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے“۔
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”کشاف القناع شرح متن الاقناع“ ج:۱‘ ص:۶۰ میں ہے:
”واعفاء اللحیة ) بان لایاخذ منہا شیأ مالم یستہجن طولہا ویحرم حلقہا ولایکرہ اخذ ما زاد علی القبضة“
”اور حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت داڑھی کو چھوڑدینا ہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہوکر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے‘ البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں“۔ (بحوالہ داڑھی کا وجوب ص:۷۵تا۷۶ حضرت شیخ محمد زکریا)

بہرحال مذکورہ تمام احادیث اور فقہاء کرام کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت یعنی قبضہ سے کم کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور حرام ہے اور اتنی داڑھی رکھنا کہ لوگوں کی نگاہیں اس پر اٹھیں یعنی صرف یہ معلوم ہو کہ داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ یہ بات قرآن وسنت اور فقہاء کرام کے اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے اور اسلام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں جو لوگ اس قبیح فعل کے مرتکب ہیں یا دوسروں کے لئے اس فعل قبیح کا سبب بنے ہیں‘ سب پر ضروری ہے کہ داڑھی ایک مٹھی رکھیں اور اب تک جو گناہ ہوا ہے اس سے صدق دل سے توبہ واستغفار کریں۔ورنہ آئندہ جو بھی ان کی وجہ سے داڑھی ایک مشت سے پہلے کتروائے گا تو ان کا وبال بھی ان ہی پر ہوگا۔حدیث شریف میں ہے:”من سن فی الاسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل ولاینقص من اجورہم شیئ‘ ومن سن فی الاسلام سنة سیئة فعل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من اوزار ہم شیئ“۔ (صحیح مسلم‘ ج:۲‘ ص:۳۴۱)
ترجمہ:”جس نے اسلام میں کسی نیکی کی بنیاد ڈالی اور اس نیکی پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا تو بعد میں عمل کرنے والوں کی نیکیوں کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو ثواب ملے گا‘ لیکن اس سے عمل کرنے والوں کی نیکیوں میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور جس نے اسلام میں کسی بدی کی بنیاد ڈالی اور اس بدی پر بعد میں عمل ہوتا رہا تو آئندہ عمل کرنے والوں کے گناہ کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو گناہ ملتا رہے گا اور اس کے سبب برائی کرنے والوں کے گناہ میں سے کچھ کمی واقع نہ ہوگی“۔
۳: جو امام داڑھی منڈاتے ہیں یا ایک مٹھی سے پہلے کتراتے ہیں تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہیں اور فاسق کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں‘ بلکہ نمازیوں پر ضروری ہے کہ متقی پر ہیزگار عالم دین کو امام بنائیں جو شریعت اور سنت کا پابند ہو‘ البتہ ایسے امام کی اقتداء میں جو نمازیں ادا کی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں‘ وہ نمازیں ہوگئیں باقی ثواب پورا نہیں ملے گا‘ جیسا کہ ”البوادر النوادر“ میں کہ درمختار میں واجبات صلوٰة میں یہ قاعدہ لکھا ہے::
”کل صلوٰة ادیت مع کراہة التحریم تجب اعادتہا“
اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کے لئے یہ توجیہ کی ہے:
”الا ان یدعی تخصیصہا بان مرادہم بالواجب والسنة التی تعاد بترکہ ماکان من ماہیة الصلوٰة وجزائہا“۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ دسمبر۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 10
Mohammad Mubeen
About the Author: Mohammad Mubeen Read More Articles by Mohammad Mubeen: 24 Articles with 83387 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.