امکانِ آخرت کےعقلی دلائل کے
سلسلے میں آئیےایک اور قرآنی دلیل کا مطالعہ کرتے ہیں۔
•چوتھی دلیل
قرآن حکیم اس معاملے میں ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ تمہاری پیدائش زیادہ مشکل
ہے یا زمین و آسمانوں اور ان تمام چیزوں کی جو اللہ نے پیدا کر رکھی ہیں؟
سورة النازعات ( 79 )
أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاء بَنَاهَا {27} رَفَعَ سَمْكَهَا
فَسَوَّاهَا {28} وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا {29}
کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اُس کو بنایا،
اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی پھر اس کا توازن قائم کیا، اور اس کی رات
ڈھانکی اور اس کا دن نکالا۔
سورة الصافات ( 37 )
فَاسْتَفْتِهِمْ أَهُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَم مَّنْ خَلَقْنَا إِنَّا
خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ {11}
اب ان سے پوچھو، ان کی پیدائش زیادہ مشکل ہے یا ان چیزوں کی جو ہم نے پیدا
کر رکھی ہیں؟ ان کو تو ہم نے لیس دار گارے سے پیدا کیا ہے۔
پھر خود ہی قرآن حکیم میں اس کا جواب دے دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کا
پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی نسبت زیادہ بڑا کام ہے مگر اکثر لوگ
جانتے نہیں ہیں۔
سورة غافر ( 40)
لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ
وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ {57}
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقیناً
زیادہ بڑا کام ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
یہ کیسے بڑا کام ہے؟آج کے سائنسی دور میں یہ بات سمجھنا ہمارے لیے بہت آسان
ہے۔ آئیے بات کو سمجھنے کے لیے دیگر سیاروں، سورج اور ستاروں کے مقابلے میں
زمین کو دیکھتے ہیں۔آغاز زمین سے ہی کیجیے۔
فرمان خداوندی ہے:
سورة النبأ ( 78 )
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهَادًا {6}} وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا {7}
وَخَلَقْنَاكُمْ أَزْوَاجًا {8} وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا {9}
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ لِبَاسًا {10} وَجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا {11}
وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا {12} وَجَعَلْنَا سِرَاجًا
وَهَّاجًا {13} وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَاء ثَجَّاجًا {14}
لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا {15} وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا {16}
کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش (بچھونا) بنایا، اور پہاڑوں کو
میخوں کی طرح گاڑ دیا، اور تمہیں (مردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں
پیدا کیا، اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا، اور رات کو پردہ پوش اور دن
کو معاش کا وقت بنایا، اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان قائم کئے، اور ایک
نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا۔ اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی تاکہ
اس کے ذریعے سے غلہ اور سبزی اور گھنے باغ اگائیں؟
زمین کے اندر کیا کچھ ہے ہم اس پر بات نہیں کرتے بلکہ اپنا سفر اوپر کی
جانب شروع کرتے ہیں۔ ہمارا اور لاکھوں مخلوقات کا گھر زمین سورج کے گرد
گھومنے والے سیاروں میں پانچواں بڑا سیارہ ہے اسے blue planet بھی کہا جاتا
ہے۔ سطح زمین سے تقریباً 965 کلومیٹر اوپر تک فضا ہے جس کی سب سے نچلی
تہہ(troposphere) 8سے 16 کلومیٹر میں آبی بخارات، موسموں کی تبدیلی اور
بارشوں کے برسنے کا نظام چلتا ہے جو زمین پر زندگی کے ممکن ہونے کا باعث
ہے۔ دوسری تہہ stratosphere)) اوپر 50 کلومیٹر تک جاتی ہے اور اس کے بعد
تیسری تہہ 50(mesosphere)سے80 کلومیٹر میں اوزون گیس کی تہہ سورج اور دیگر
ستاروں کی نقصان دہ الٹراوائلٹ شعاؤں کو روکتی ہے یہ تہہ اور اس سے اوپر کی
تہیں ایک فلٹر کی مانند ہمیں نقصان دہ شعاؤں سے بچاتی ہیں۔ اور اس کے علاوہ
زمین کے (2890 کلومیٹر )ثقیل اندرونی حصے mantle کی وجہ سے پیدا ہونے والا
زمین کا مقناطیسی میدان ہے جو ہمیں نقصان دہ سولر ریڈی ایشن اور شمسی ہواؤں
سے بچاتا ہے۔ یہی فضاatmosphereہمیں شہابیوں کی بارش سے بھی بچاتی ہے۔ اور
یوں اس بچھونے پر اللہ کے بنائے ایک محفوظ چھت کے نیچے ہم زندگی گزارتے
ہیں۔اس بارے میں یہ ویڈیو ضرور دیکھیے۔
https://www.youtube.com/watch?v=jRIsDer17Zo
اور اللہ کا یہ فرمان بھی ملاحظہ ہو:
سورة الأنبياء ( 21 )
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ
حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ {30} وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن
تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ
يَهْتَدُونَ {31} وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ
آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ {32} وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ
وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ {33}
کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننےسے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے
کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور
پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو)نہیں مانتے؟ اور
ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں
کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ اور ہم نے
آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ کائنات کی نشانیوں کی طرف
توجّہ ہی نہیں کرتے۔ اور وُہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دِن بنائے اور سُورج
اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں۔
سائنسدانوں کے مطابق بنانے والے نے اس زمین کو ایسا بنایا ہے کہ کم از کم
پانچ سو ملین سال تک مزید اس پر زندگی ممکن ہے۔زمین پر 71٪پانی ہے اور باقی
خشکی۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
https://en.wikipedia.org/wiki/Earth
اب ذرا یہ دیکھیے کہ ہم اس کائنات میں کتنے ہی چھوٹے ہیں۔سورج زمین سے کتنا
بڑا ہے، دیگر ستارے سورج سے کتنے بڑے ہیں اور کائنات کے فاصلے کتنے ہی
زیادہ ہیں۔اس ویڈیو میں آپ زمین، سورج اور ہماری کہکشاں میں موجود دیگر
ستاروں کے ڈایا میٹرز کا ایک موازنہ دیکھیے:
https://www.youtube.com/watch?v=1IKjgmIDeBU
اورہم کتنے چھوٹے ہیں یہ جاننے کے لیےیہ ویڈیوز تو ضرور ہی دیکھیے:
https://www.youtube.com/watch?v=HEheh1BH34Q&feature=related
https://www.youtube.com/watch?v=hOUvEOMhvW0&feature=related
زمین کا ڈایامیٹر تقریباً 12742 کلومیٹرہے۔اس کے مقابلے میں سورج کا
ڈایامیٹر 1392000کلومیٹر ہے یعنی زمین سے 109گنا زیادہ۔ اور سورج کی کمیت
زمین کی کمیت سے 330000گنا زیادہ ہے۔سورج زمین سے تقریباً 149.6 ملین
کلومیٹرز کے فاصلے پرہے اور سورج کی روشنی 8منٹ 19 سیکنڈ میں زمین تک
پہنچتی ہے۔ سورج ہی کی توانائی کے باعث زمین پر ہر قسم کی زندگی ممکن
ہے۔سورج کے مرکزی حصے میں ہر ایک سیکنڈ میں 430سے 600 ملین ٹن ہائیڈروجن
جلتی ہے۔ جس سے ہر لمحے لاکھوں ایٹم بموں کی توانائی خارج ہوتی ہے۔سورج کے
بعد قریب ترین ستارہ Proxima Centauri4.2نوری سال (نوری سال یعنی وہ ایک
سال جس میں روشنی اپنا فاصلہ طے کرتی ہے)کے فاصلے پر ہے۔یاد رہے کہ ایک
نوری سال 6کھرب میل کے فاصلے کے برابر ہے۔ تفصیلات دیکھیے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Sun
اب ذرا اپنی کہکشاں پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے جس کے اندر ہمارا نظام شمسی
واقع ہے۔
https://www.youtube.com/user/ask4zeb#p/u/11/KzXS382jvUE
ہماری کہکشاں Milky Way کیgalactic disk کا ڈایا میٹر ایک لاکھ نوری سال
ہے۔ ہمارا نظام شمسی ہماری کہکشاں ملکی وے کے ایک بازو Orion Arm کے
اندرونی کنارے پر واقع ہے اور سورج ہماری کہکشاں کے مرکز کے گرد 24 تا26
ہزار نوری سال کے فاصلے پر چکر لگاتا ہے اور اس اپنی کہکشاں کے مرکز کے گرد
اپنا ایک کلاک وائز چکر لگانے کے لیے 225تا250 ملین سال چاہئیں۔ہماری
کہکشاں کے قریب ترین کہکشاں Andromeda Galaxy ہم سے 2,500,000نوری سال کے
فاصلے پر ہے اور اس میں اندازاً ایک ٹرلین ستارے ہیں۔ ہماری کہکشاں کائنات
میں موجود اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔تفصیلات دیکھیے:
https://en.wikipedia.org/wiki/Milky_way
ہماری ایک ہماری کہکشاں میں دو سو بلین سے چار سو بلین تک ستارے ہیں اور
نجانے کتنے ہی ستارے ایک ایک نظام شمسی ہیں اور ان کے گرد کتنے ہی سیارے
گردش کر رہے ہیں یاد رہے کہ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے اور ہماری زمین
اور سورج سے کتنے بڑے ستارے صرف ہماری کہکشاں میں موجود ہیں اس کے لیے ایک
نظر یہ ویڈیو بھی دیکھ لیجیے:
https://www.youtube.com/watch?v=7NYRVsKAkFM&feature=related
کائنات میں نجانےکتنی ہی کہکشائیں ہیں اس کےمشاہدےکے لیے جب ہبل ڈیپ فیلڈ
ٹیلیسکوپ سے آسمان کے کسی ایسے حصےکا مشاہدہ کیا گیا جس کے بارے میں خیال
تھا کہ وہاں کچھ بھی نہیں تو وہاں دسیوں ہزار کہکشائیں موجود تھیں جن کا
قطر 47 بلین نوری سال تھا۔یہ ویڈیو ملاحظہ فرمائیے:
https://www.youtube.com/watch?v=fgg2tpUVbXQ
اس موقع پر اللہ کی کبریائی اور طاقت کو چشم تصور میں لانے کے لیےاس آیت کا
مطالعہ مناسب ہوگا:
سورة الذاريات (51 )
وَالسَّمَاء بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ ۔۔۔{47}
اور آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ۔
اور یہ ہم نے کائنات کا آخری سرا نہیں تلاش کر لیا یہ تو انسان کی معلوم
کائنات ہے۔ اب تو متوازی طبقات عوالم کے نظریات بھی پیش کیے جا رہے ہیں جس
کے مطابق ایک universeنہیں بلکہlayers of universes parallel ہیں جن میں سے
ہر عالم میں اربوں کہکشائیں ہیں، ہر کہکشاں میں اربوں کھربوں ستارے ہیں،
اور ستاروں کے گرد چکر لگاتے سیارے اور سیاروں کے گرد گھومتے فطری سیٹلائٹ
یعنی چاند۔ 2007 میں سائنسدانوں نے زمین نماایک سیارہ Gliese 581d دریافت
کیا جہاں پانی کا وجود ممکن بتایا گیا۔ مگر وہ ہم سے 20.3 نوری سال
(192ٹرلین کلومیٹرز)کے فاصلے پر ہے۔ کون پہنچ سکتا ہے اس تک؟ اور نجانے
کتنا ہی کچھ رب کریم نے پیدا فرمایا ہے کسے معلوم؟ قرآن تو سات آسمانوں کا
تذکرہ کرتا ہے۔ ہم کہاں تک پہنچ سکے ہیں ؟کہاں ہیں دوسرا، تیسرا، چوتھا،
پانچواں، چھٹا اور ساتواں آسمان۔ہم کیا جانیں ؟ اور یہ تو محض آسمان دنیا
کا حال بیان ہو رہا ہے:
سورة الملك ( 67 )
وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ ۔۔۔{5}
اور ہم نے آسمانِ دنیا کو عظیم الشان چراغوں سے آراستہ کیا۔
تو کیا یہ سب اتفاقی حوادث ہیں یا تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ کسی
طاقتور کا باندھا ہوا حساب ہے؟زمین سے لے کر اربوں کھربوں نوری سال کے
فاصلے تک کسی دراڑ اور رخنے کے بغیر كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ کے ایک
ہی قانون میں جکڑا یہ نظام کس بات کی گواہی اور شھادت دے رہا ہے؟ یہی ناں
کہ اس کے پیدا کرنے والی کوئی بڑی ہی زبردست طاقت رکھنے والی ایک ہی علیم و
خبیر ہستی ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہو سکتا کیونکہ جو اس کا شریک ہو اس کا
اقتدار اور اس کی طاقت کی پہنچ بھی ان ستاروں اور کہکشاؤں تک ہونی چاہیے۔
یہاں رکیے اور شرک کی حقیقت پر بھی غور کیجیے۔ ہم کتنے نادان ہیں کہ اللہ
کی پیدا کردہ مخلوق کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں حالانکہ خالق اور مخلوق میں
کوئی نسبت ہی نہیں " لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ "کائنات میں اس کے مشابہ تو
کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ وہ اکیلا خالق ہے اور باقی سب مخلوق۔اور اگر غور
فرمائیے تو ایسی عظیم الشان ہستی کی ذات، صفات، اختیارات، بادشاہت، ارادوں
اور حقوق بندگی میں کوئی بھی دوسرا شریک ہوبھی کیسے سکتا ہے؟ جس کو رب نے
اپنی لامحدود کائنات کے کسی ایک گوشے میں پیدا کیا اور وہ اس سے باہر نکلنے
کی قدرت بھی نہیں رکھتا وہ خدا یا خدا کا شریک کیونکر ہوگیا؟ جو کسی کے
پیدا کرنے سے پیدا ہو، کسی کے رزق پر پلے، کسی کی لکھی تقدیر میں جکڑا ہوا
ہو، اپنے نفع نقصان پر بھی قادر نہ ہو، جو خود محتاج ہو،جو نہ زندہ کر
سکےنہ مار سکے، جس کی اپنی زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہو وہ خود خدا
کیسے ہوسکتاہے یا خدائی میں شریک کیسے ہو سکتا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ:
سورة الزمر ( 39 )
وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ
يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ
وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ {67}
ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اُس
کی قدرت کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ )قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں
ہوگی اور آسمان اس کے دست راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے وہ
اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
بس یہ دیکھیے کہ ہمارا کیا مقام ہے؟ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم کہاں رہتے ہیں؟
ہم خدا کی کائنات کے ایک چھوٹے سے ذرے یعنی سورج کے نیچے رہنے والے کیا خدا
اور اس کے منصوبوں کو اپنے پیمانوں سے ناپ سکتے ہیں۔کیا خود اپنی رہنمائی
کر سکتے ہیں؟ یقینا ہم زندگی کے ہر قدم پر ہدایت کے لیے خدائی رہنمائی کے
محتاج ہیں۔ ہمارا نظام شمسی اس کائنات میں ایک نقطے سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا جیسے ریت کے کسی صحرا میں ایک ذرہ، پھر ہماری زمین کیا حیثیت رکھتی
ہے اور اس زمین پر حضرتِ انسان؟ اس زمین کے کسی حصے پر کسی ملک یا قوم کا
چند برسوں کے لیے طاقتور ہو جانا اللہ کی طاقت کے مقابلے میں کیا معنی
رکھتاہے؟ یہاں کسی انسان کا اکڑنا ، تکبر کرنا اور خدا سے بغاوت کرنا خدا
کا کیا بگاڑ سکتا ہے؟ خدا کی قسم ایک چیونٹی بھی کسی انسان کو چیلنج کرے تو
کم از کم مار دیے جانے سے پہلے ہو سکتا ہے ایک بار کاٹ ہی لے لیکن کسی
انسان کا یا کسی ملک و قوم کا خدا سے بغاوت کرنا اس چیونٹی کے انسان کو
چیلنج کرنے سے زیادہ بھونڈا مذاق ہے۔ اور ایسے عظیم الشان نظام کے پیدا
کرنے والے اور اس کے چلانے والے کے بارے میں چند فٹ کے انسان کا یہ کہنا کہ
مجھے میری قبر سے نہ اٹھا سکے گا۔۔۔کیسی توہین ہے یہ اللہ کی عطا کردہ
سماعت، بصارت ، عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کی؟ سوچئے:
سورة الأحقاف ( 46 )
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى
بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {33}
اور کیا ان لوگوں یہ سجھائی نہیں دیتا کہ جس خدا نے یہ زمین اور آسمان پیدا
کیے ہیں اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا، وہ ضرور اس پر قادر ہے کہ مردوں
کو زندہ کراٹھائے؟ کیوں نہیں، یقیناً وہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔
•پانچویں دلیل
امکان آخرت کی ایک اور زوردار دلیل زمین وآسمانوں کی تخلیق ہی کے حوالے سے
قرآن حکیم نے یہ دی ہےکہ:
سورة يس ( 36 )
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ
يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ {81} إِنَّمَا
أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ {82}
فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ
تُرْجَعُونَ {83}
کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں
کو پیدا کرسکے؟ کیوں نہیں، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے۔ وہ تو جب کسی چیز کا
ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو
جاتی ہے۔ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی
طرف تم پلٹائے جانے والے ۔
سورة الإسراء ( 17 )
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ
قَادِرٌ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَجَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ
رَيْبَ فِيهِ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إَلاَّ كُفُورًا {99}
کیا ان کو یہ نہ سوجھا کہ جس خدا نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے، وہ
ان جیسوں کو پیدا کرنے کی ضرور قدرت رکھتا ہے؟ اس نے ان کے حشر کے لیے ایک
وقت مقرر کر رکھا ہے جس کا آنا یقینی ہے، مگر ظالموں کو اصرار ہے کہ وہ اس
کا انکار ہی کریں گے۔
سوچئے کیا اس زمین و آسمانوں کا پیدا کرنے والا انہی جیسے اور زمین و
آسمانو ں کو پیدا نہیں کر سکتا؟ کیا اس کی قوتِ تخلیق اس تخلیق کے بعد ختم
ہو گئی ہے؟ کیا وہ اس فانی نظام کو درہم برہم کر کے نئے قوانین کے طابع نیا
ابدی نظام پیدا نہیں کر سکتا؟ اللہ کی قدرت چند ایسے جاری قوانین کی پابند
تو نہیں جن کے جاری کرنے والا بھی وہ خود ہی ہے۔یہ نظام کائنات تو اس نے
حرکت پر قائم کیا ہے جس سے وقت پیدا ہوا اور تغیر ہر چیز کے فانی ہونے کا
سبب بنا اگر وہ اسی حرکت کو روک کر مستقل کر دے تو کیا یہ ہمیشگی والا نظام
نہ ہو جائے گا؟ خدا کی قسم ہمیشگی موت سے زیادہ بڑی حقیقت ہے،اور اللہ کے
پاس تخلیق کے تھوڑے طریقے ہیں کیا؟ آج اگر انسان کی عمر سو برس ہے تو اس
میں انسان کا اپنا کیا کردار ہے؟ آج جس نے سو برس تک زندہ رکھا کیا کل کو
کیا وہ ہمیشگی عطا نہیں کر سکتا؟ آج جس نے مرض اور بڑھاپا پیدا کیے کل کیا
وہ ابدی جوانی اور ابدی صحت عطا نہ کر سکے گا؟ کیوں نہیں؟ جس نے سورج اور
اس سے بدرجہا بڑے ستارے پیدا کیے کیا وہ جہنم کو پیدا نہیں کر سکتا؟جس نے
زمین پر ایسے ایسے حسین خطے پیدا کیے جو دیکھنے والوں پر سحر طاری کر دیتے
ہیں کیا وہ ان سے بہت زیادہ حسین جنت نہیں پیدا کر سکتا؟ جس نے لذیذ پھل
پیدا کیے کیا وہ ان کا ذائقہ نہیں بڑھا سکتا؟ جس نے حسین خوشبودار درخت اور
پھول پیدا کیے کیا وہ ان کا حسن اور خوشبو بڑھا نہیں سکتا؟ غور کیجیے کیا
اللہ اپنی ہی بنائی ہوئی کسی بھی چیز کو آج سے بہت بہتر صورت میں کل دوبارہ
پیدا نہیں کرسکتا؟ کیوں نہیں؟جس نے12742کلومیڑ ڈایامیٹر زمین پیدا کی جس کو
ہماری زندگی کے لیے موزوں بنایا وہ اس سے لاکھوں گنا بڑی جنت پیدا نہیں
کرسکتا؟ ذرا اوپر آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیے کیا اللہ کے پاس ایسا
کرنے کے لیے میٹیریل کی کمی ہے۔ آخر ہماری زمین بھی تو اللہ کے حکم سے
گیسوں کے ٹھنڈا ہونے سے بنی ہے اور یہ کہکشائیں اور ستارے گیسوں کے گول ہی
تو ہیں۔ یہ سارے خزانے کس کے ہیں ؟ ایسی عظیم الشان ہستی کیا چند فٹ کے
انسان کو ایک بار پیدا کر لینے کے بعدجب چاہے گی دوبارہ پیدا نہ کر سکے گی؟
کیوں نہیں؟ اب کوئی نہیں مانتا تو ہدایت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن ہماری
عقلوں کے تنگ ہونے سے خالق کائنات کی قدرت تو تنگ نہیں ہو جاتی۔
آئیے گواہی دیجیے کہ"اے اللہ،اے ہمارے رب ہم تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تو ہی
اکیلا سچا معبود ہے، تیرے سوا کوئی خدا نہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے
سارے انبیاء اور رسول سچے ہیں اور ہم تیرے آخری رسول محمدﷺ کی رسالت کی
گواہی دیتے ہیں، ہم تیری ساری کتابوں پر، فرشتوں پر، تقدیرپر، جنت اور جہنم
پر ایمان لاتے ہیں اوراس کی گواہی دیتے ہیں کہ تو ہم سب کو قیامت کے دن
اکٹھے اٹھائے گا اور یقیناً تو اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
آئیے دوڑیے اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمانوں جیسی ہے:
سورة الحديد ( 57 )
سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ
السَّمَاء وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ
ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ
الْعَظِيمِ {21}
دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت
کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے ، جو مہیا کی گئی ہے اُن لوگوں کے
لیے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے
چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
اور اللہ کا یہ وعدہ یاد رکھیے، یہ وعدہ پورا ہونے والا ہے اور اللہ کی بات
سے بڑھ کر سچی اور کس کی بات ہوگی:
سورة الأنبياء ( 21 )
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاء كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَأْنَا
أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ
{104}
وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ
دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر
اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہرحال
کرنا ہے۔
اللہ ہمیں سچے ایمان کی دولت نصیب فرمائے، ہمارے دلوں کو ایمان واسلام پر
مطمئن فرمائے، اللہ ہمیں فتنوں سے محفوظ رکھے، ہمیں ثابت قدم رکھے اور ہمیں
موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ ہم مومن و مسلم ہوں۔ آمین
یہ مضمون دائرہ عام ہی میں ہے اور حقوق طبع سے آزاد
ہے کوئی بھی شخص اس کو تبدیل کیے بغیر کہیں بھی شائع کر سکتا ہے۔ |