کراچی کو بدلنا ہے تو مصطفی کمال اورپاک سرزمین پارٹی کا ساتھ دینا ہوگا !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
انسان کے دل میں ایمان کی روشنی اورخوف خدا
موجود ہو تو اس کا ضمیر جاگ ہی جاتا ہے جیسا کہ ایم کیو ایم کے سابق سٹی
ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے ساتھ ہوا،ان کا ضمیر جاگا تو وہ اپنی جان
ہتھیلی پررکھ کر کراچی واپس آگئے اور اپنے ایک اور باضمیر ساتھی انیس قائم
خانی کے ہمراہ الطاف حسین کے خلاف ایک دھواں دار پریس کانفرنس کرکے وہ سب
باتیں بڑی بے خوفی کے ساتھ کرگئے جس کے بارے میں کسی کو ان سے یہ توقع نہیں
تھی کہ وہ اپنی سابقہ پارٹی کے بانی وقائدالطاف حسین کی ذاتی و سیاسی زندگی
کے پوشیدہ گوشے منظر عام پر لاتے ہوئے اس طرح ببانگ دہل اعلان بغاوت کریں
گے کہ کراچی پر ایک طویل عرصہ سے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے الطاف حسین
اور ان کی قائم کردہ پارٹی ایم کیو ایم کے رہنماؤ ں کو دن میں تارے نظر
آجائیں گے۔
مصطفی کمال کی ایم کیو ایم سے علیحدگی اور الطاف حسین کے خلاف کی گئی ان کی
باتوں کو مختلف رنگ دیئے اکثر لوگوں نے ان کی پہلی پریس کانفرنس سننے اور
دیکھنے کے بعد کہا کہ انہیں بھی آفاق احمد کی طرح ایجنسیاں لے کر آئی ہیں
لیکن ان کا انجام بھی اس سے پیشتر ایم کیوایم سے بغاوت کرنے والے دیگر
رہنماؤں سے مختلف نہیں ہوگا اور انہیں اردو بولنے والوں کی وہ حمایت اور
پذیرائی حاصل نہیں ہوگی جو کہ الطاف حسین کو گزشتہ 30 سال سے حاصل رہی ہے،
کچھ لوگوں نے مصطفی کمال کے اس اعلان بغاوت کو خود الطاف حسین کی جانب سے
رچائی گئی ایک گہری سیاسی چال قرار دیا ،کچھ نے مصطفی کمال کو الطاف حسین
نمبر 2 قرار دیا جبکہ پاکستان سے محبت کرنے والے بہت سے عام لوگوں اور
مصطفی کمال کو سمجھنے والے بعض سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں نے مصطفی کمال کی
کہی گئی باتوں کو سچ مانتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا کہ مصطفی
کمال جب ایم کیو ایم کا حصہ تھے تو اس وقت بھی ان کی شناخت ایک نیک نام
سیاست دان کے طور تھی اور کراچی کے سٹی ناظم کے طور پر انہوں نے اپنے دور
نظامت میں جس ایمانداری ،محنت اور لگن کے ساتھ کراچی کی ترقی کے لیئے بغیر
کسی لسانی تعصب اور قومیت کی تفریق کے بغیر دن رات کام کرکے کراچی کے مسائل
کو حل کرنے کے لیئے اپنا فعال کردار ادا کیا تھا اس کی وجہ سے کراچی کے
باشندوں کے دلوں میں ان کے لیئے جو محبت عزت اور احترام تھا اس نے ان کی
باتوں میں وزن پیدا کیا اور لوگ رفتہ رفتہ ان کے ساتھ جڑتے رہے جس کا سلسلہ
تاحال جاری ہے۔
کراچی کا آج جو برا حال ہے اس سے کراچی کے شہری شدیدذہنی اذیت کا شکار ہیں
،مصطفی کمال کے دور نظامت کے 5 سالوں میں جس تیز رفتاری اور ایمانداری سے
کراچی کی تعمیر و ترقی کا کام کیا گیااس کی کوئی دوسری مثال اس سے قبل یا
اس کے بعد پیش نہیں کی جاسکتی لیکن افسوس مصطفی کمال کے بعد آنے والی کسی
حکومت اور ناظم نے کراچی کے مسائل پر توجہ نہیں دی اور کراچی کے باشندوں کے
حقوق کو نظر انداز کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج کراچی کچر ے اور
غلازت کا ڈھیر بنا ہوا ہے جگہ جگہ ابلتے ہوئے گٹرز ،ٹوٹی ہوئی سڑکیں اور
میٹھے پانی کی لائنوں کے رساؤ نے کراچی والوں کا آنا جانا اور جینا دوبھر
کر رکھا ہے کراچی سے سب سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے باوجو د آج اس شہر کا
کوئی پرسان حال نہیں ہے اور لوگوں کی پریشانی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے جبکہ
کراچی میں 30 سال سے سیاست کرنے والے اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں ،ان
حالات میں اگر مصطفی کمال جو اب ایک نئی سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی
‘‘ کے چیئرمین ہیں اپنی پارٹی کے پلیٹ فارم سے کراچی سمیت پورے ملک کے عوام
کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر ان کے لیئے عملی طور پر کچھ کرنا چاہتے ہیں
تو ان کا راستہ روکنے کی بجائے ان کے جلسو ں جلوسوں میں جاکر ان کا ساتھ
دیتے ہوئے ان کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوں گے تب ہی اس ملک کے شہریوں کو وہ حقوق
مل سکیں گے جو ان کا جائز حق ہیں ورنہ ایک طویل عرصہ سے سیاسی ٹوپی ڈرامے
کرنے والے سیاست دان اسی طرح عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو چوری کرکے اپنے لیئے
آسائشیں اور مراعات حاصل کرتے رہیں گے اور ہمارے عوام بے چارے بے بس و
لاچار ہوکر اپنے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے عوام کو مسلسل نظر انداز کیا
جانا برداشت کرتے رہیں گے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کو اس قابل ہی
نہیں چھوڑا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیئے سڑکوں پر آکر حکومتوں کو اس
بات پر مجبور کرسکیں کہ ہمیں ہمارا حق دو۔
ساڈا حق ادھر رکھ اور ہمارا حق ادھر رکھو کے سلوگن کے تحت کراچی اور
حیدرآباد کے لوگوں کو جگانے میں مصروف مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ
سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی خود کو کراچی اور حیدرآباد سمیت پورے ملک کے
عوام کا وارث قرار دیتے ہوئے ان کو ان کے جمہوری اور آئینی حقوق دلوانے کے
لیئے آج سڑکوں پر نکل کر گلی گلی عوامی رابطہ مہم میں مصروف ہے اور عوام کو
متحرک کرنے کے لیئے حیدرآباد میں پکا قلعہ میں کامیاب ترین پاور شو کے بعد
اب کراچی میں تبت سینٹر کے مقام پر29 جنوری کو ایک بڑا جلسہ عام منعقد کرنے
جارہی ہے جس کی کامیابی اس بات کا تعین کرے گی کہ کراچی کی آئندہ سیاست کا
رخ کیا ہوگا اور کیا کراچی کے اردو بولنے والے اپنی روائتی سیاسی سوچ کو
بدل کر خود کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیئے مصطفی کمال اور پاک سرزمین
پارٹی کا ساتھ دے کر کراچی کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیئے مثبت کردار
ادا کریں گے یا گزشتہ 30 سال کی طرح اس بار بھی مہاجر ازم پر مبنی لسانی
سیاست کرنے والے مفاد پرست سیاست دانوں کی مکارانہ باتوں میں آکر ایک بار
پھر کراچی کو بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کے ہاتھوں میں گروی رکھوا کر اپنی ،اپنی
فیملی اور اپنے شہر کی تباہی وبربادی کے پروانے پر دستخط کرنے کا غلط فیصلہ
کرکے خود کو ہمیشہ کے لیئے ظلمت کے اندھیروں میں غرق کردینے کا سبب بنیں گے
؟
چند ماہ کے اندر کراچی کی سیاست کی کایا پلٹ دینے والے مصطفی کمال کی
قابلیت ،صلاحیت ،اہلیت اور ایمانداری ،ان کے ماضی اور حال کے پیش نظر گو کہ
ہر طرح کے شک وشبے سے بالا تر ہے لیکن ایک مخصوص اشاعتی ادارہ کراچی سے
شائع ہونے والے اپنے اردو روزنامے اور ہفت روزہ کے ذریعے مسلسل مصطفی کمال
کی کردارکشی میں مصروف ہونے کے علاوہ نہ جانے کیوں اب تک اس بات پر مصرہے
کہ مصطفی کمال ،فاروق ستاراور الطاف حسین میں کوئی فرق نہیں اور یہ سب ایک
ہی ہیں ان کا طرز سیاست ایک ہی ہے اور مستقبل میں بھی یہ لوگ مہاجر کارڈ کو
استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاست چمکاتے رہیں گے۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے
افراد اوراداروں کی مصطفی کمال سے بدگمانی کو سوائے مخالفت برائے مخالفت کے
اور کیا قرار دیا جاسکتا ہے کہ دلوں کا حال صرف اﷲ جانتا ہے جبکہ انسان کے
کردار کا اندازہ اس کی کہی گئی باتوں اور اس کے عمل سے لگایا جاتا ہے
،اندیشوں ،وسوسوں اور اندازوں کے تحت مصطفی کمال کی حب الوطنی پر مبنی کہی
گئی تمام باتوں ،تقریروں، اخباری بیانات ،پریس کانفرنسوں اور ان کی جانب سے
ایک وطن پرست سیاسی جماعت ’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ کے قیام اور اس پارٹی کو
عوام کی جانب سے کراچی ،حیدرآباد اور میر پورخاص کے علاوہ پورے پاکستان میں
ملنے والی زبردست پذیرائی کے باوجود بلا کسی ثبوت کے مصطفی کمال اور ان کی
سیاست کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو ’’کمال گروپ‘‘ ،
اور مصطفی کمال اینڈ کمپنی ‘‘ قرار دیتے ہوئے اپنے اخبار اور ہفت روزہ کے
ذریعے مسلسل اس بات کا پرچار کرنا کہ مصطفی کمال بھی اپنی سیاسی جماعت کو
مضبوط بنانے اور پاک سرزمین پارٹی کی جانب سے 29 جنوری 2017 کو کراچی میں
تبت سینٹر کے مقام پر منعقد ہونے والے جلسہ عام یا پاور شو میں عوام کی بڑی
تعدادمیں شرکت کے لیئے وہی ہتھکنڈے اختیار کررہے ہیں جو اس سے قبل الطاف
حسین اور ایم کیو ایم اختیار کرتی رہتی ہے ،یہ سب وہ الزامات ہے جواس مخصوص
اشاعتی ادارے کی جانب سے مصطفی کمال اور ان کی قائم کردہ نئی سیاسی جماعت
’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ پر تواتر سے لگائے جارہے ہیں۔
مصطفی کمال جیسے نیک نام ،بہادر اور بے باک سیاست دان کی نیت پر شک کرتے
ہوئے بلا کسی ثبوت کی محض اپنی ذاتی سوچ،اندازوں،اندیشوں اورچند نادیدہ
اختلافات کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد کے اردو بولنے والوں کودعوت و تبلیغ
کے ذریعے صحیح راستے پر لگانے کے لیئے سر پر کفن باندھ کرعوام کے درمیان
گھومنے والے انقلابی رہنما کو الطاف حسین نمبر 2 قرار دینا اور مصطفی کمال
کی روز روشن کی طرح عیاں پاکستانیت سے بھرپور مثبت سیاست اور طرز عمل کے
باوجود ان سے بدگمانی رکھتے ہوئے انہیں نظر انداز کرنا اور ان کی وطن پرست
سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو کمال گروپ اور کمال کمپنی قراردینا کہاں
تک صحافت کے اصولوں اور شریعت کے طریقوں کے مطابق ہے ؟ اس بات کا فیصلہ اس
مخصوص اشاعتی ادارے کو پوری دیانت داری اور ایمانداری سے کرنا چاہیئے کہ
ہماری اخلاقیات اور شریعت ہمیں کسی بھی سیاست دان پر بلا کسی ثبوت کے الزام
تراشی کی اجازت نہیں دیتیں اور اگر کسی جانب سے ایسی کوئی کوشش کی جاتی ہے
تو عام لوگوں اور سمجھدار حلقوں میں اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا
،اخبار یا رسالے کا کام کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ سچی اور حقائق پر
مبنی خبریں اور باتیں شائع کرنا ہے لیکن افسوس بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے اور
معقول صحافی اپنے قلم کو حرکت دیتے ہوئے اخلاقیات اور شریعت کو بالائے طاق
رکھ کر اپنی ذاتی رائے کو درست سمجھتے ہوئے اسے عام لوگوں پر مسلط کرنے کی
مضموم کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں ۔اﷲ تعالی مجھ سمیت ہر قلمکار کو سچائی
اور حقائق پر مبنی باتیں کرنے اورلکھنے کی توفیق عطافرمائے اورہمارے قلم کو
کسی ایسے شخص کی کردارکشی کے لیئے استعمال نہ کروائے جس کا ماضی اور حال کا
طرز عمل اس بات کی گواہی دیتا ہوکہ وہ ایک سچا اور اچھا انسان ہے۔
اس مخصوص اشاعتی ادارے کی جانب سے پاک سرزمین پارٹی اور مصطفی کمال پر ایک
الزام اور تواتر سے لگایا جارہا ہے کہ اس پارٹی کا60 فیصد تنظیمی ڈھانچہ
ایم کیو ایم کے جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ ماضی میں مختلف چھوٹی
بڑی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں اور ان میں سے اکثریت ان کارکنوں کی ہے جو
وقتی طور پر قانون کی گرفت سے بچنے کے لیئے پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوکر
اسے اپنی ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں ؟ اس الزام میں
کتنی حقیت اور اس میں کتنا وزن ہے ؟ اس کا جواب خود مصطفی کمال بہتر طور پر
دے سکتے ہیں لیکن اگر واقعی ایسا ہے کہ لوگ خود کو بچانے کے لیئے اس پارٹی
میں شامل ہورہے ہیں تو یہ عمل مستقبل میں مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی
کے لیئے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتا ہے اس لیئے مصطفی کما ل اور پاک سرزمین
پارٹی کو اپنے اندر شامل ہونے والے تمام لوگوں کے ماضی اور حال کے بارے میں
مکمل معلومات ہونی چاہئیں کہ محض اپنے جلسہ عام کو کامیاب کروانے کے لیئے
جرائم پیشہ افراد کو اپنی پارٹی کے ورکرز کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم
کرنا نہ صرف پاک سرزمین پارٹی اور کراچی بلکہ پورے پاکستان کے لیئے ایک
ایسا غلط فیصلہ ہوگا جس کا خمیازہ صرف کراچی اور حیدرآباد کے باشندوں کو
نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا ہوگا۔
مذکورہ بالا زمینی حقائق اور صورتحال کی روشنی میں پاک سرزمین پارٹی کی
جانب سے 29 جنوری 2017 کو تبت سینٹر کے مقام پر منعقد کیا جانے والا جلسہ
عام صوبائی اور ملکی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے لہذا کراچی والوں کو
اس موقع پر گھر میں ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر مصطفی کمال کااس جلسہ
عام سے خطاب سننے اوردیکھنے سے زیادہ کراچی والوں کو ان کے حقوق ان کے گھر
کی دہلیز کے باہر دلوانے کا دعویٰ کرنے والے محب وطن اور دلیر سیاسی لیڈر
مصطفی کمال کا ساتھ دینے کے لیئے گھروں سے باہر نکل کر پاک سرزمین پارٹی کے
جلسہ عام میں شریک ہونا ہوگا کہ یہ کراچی کے باشندوں کے لیئے ایک سنہری
موقع ہے کہ وہ خود کو لسانی سیاست کے حصار سے نکال کر قومی دھارے میں شامل
کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کے سلسلے میں عملی کردار ادا کریں کیونکہ
کراچی کا حال پاکستان کا مستقبل ہے جسے سنوارنے کے لیئے صحیح فیصلے کرنے
ہوں گے، پاکستان کا سیاسی ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ تاریخ اور وقت ایسے
مواقع باربارفراہم نہیں کرتی لہذا اپنے ،اپنی فیملی ،اپنے شہر اور اپنے ملک
کے مستقبل کو سنوارنے کے لیئے کراچی والوں کو کل نہیں آج جاگنا ہوگا کہ جس
قوم کو اپنی حالت بدلنے کی فکر نہ ہو اﷲ تعالی بھی اس قوم کی تقدیر نہیں
بدلتا۔۔۔! |
|