ڈونلڈ ٹرمپ سے پاکستان کی توقعات۔۔
(Shahid Yousuf Khan, Lahore)
ڈونلڈ ٹرمپ نو منتخب امریکی صدر جو اوبامہ
کے بعد صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ان کا تعلق اوبامہ کی مخالف جماعت ری پبلکن
پارٹی کے صدر ہیں جبکہ ان کا مقابلہ ہیلری کلنٹن سے تھا جو امریکی الیکشن
میں خاصا دلچسپ رہا۔ڈیموکریٹک پارٹی مسلسل دس سال حکومت کرچکی ہے۔ باراک
اوبامہ کا انتخاب دو بار عمل میں آیا لیکن لوگوں نے اس بار ان کی پالیسیوں
سے اختلاف کرکے ٹرمپ کو صدر بنادیا۔
ٹرمپ اپنی چرب زبانی سے بہت مقبول ہوا ہے یہاں تک کہ اس کی حرکتیں دیکھنے
کے قابل ہیں۔ ٹی وی پر دکھائی جانے والی ایک ویڈیو میں ٹرمپ دوران ریسلنگ
کے چئیرمین کے ساتھ عجیب قسم کی حرکت کرتے نظر آرہے ہیں۔
ٹرمپ کی حالیہ تقریر اور گزشتہ بیانات کا موزنہ کریں تو قدرے فرق دکھائی
دیتا ہے۔صدارتی تقریر میں کودغرضی اور مغرور پن واضح دکھائی دیا ۔ اس تقریر
میں پاکستان کا براہ راست نام تو نہیں لیا لیکن بھکاریوں کو ضرور مخاطب کیا۔
دانشور حضرات پاکستان کو بھی بھکاری ہی سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستانی
حکمرانوں کی پالیسیوں کی بدولت پاکستان اب صرف بین الاقوامی طور پر بھکاری
ہی سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے لئے دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں سے
پوچھو تو وہ بیچارے یہی بتلاتے ہیں کہ ہمیں پوری دنیا ہی بھکاری سمجھتی ہے۔
مطلب یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے امریکہ وغیرہ کا ساتھ تو بھرپور دیا لیکن
کوئی بغیر کسی غیرت اور عزت کے اس وجہ سے ہم من حیث القوم بھکاری بنے ہوئے
ہیں۔
اگر ٹرمپ کے ماضی کے بیانات کا موازنہ کیا جائے تو فرق دکھائی دیتا ہے لیکن
یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ جنوبی ایشیاء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیح بھارت ہی
رہے گا لیکن پاکستان کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگا۔
ٹرمپ کے پاکستان کے بارے متعدد بیانات ویب سائٹس پر موجود ہیں ان کا دو
ٹویٹ جو جولائی 2012 میں کیے ہیں جس میں پاکستان پر احسان جتلایا جارہا ہے
اور دوسرے ٹویٹ میں اسامہ کو پاکستان میں محفوظ مقام دینے پر تشویش کررہا
ہے۔
ـ“Get it straight: Pakistan is not our friend. We’ve given them billions
and billions of dollars, and what did we get? Betrayal and
disrespect—and much worse.”
When will Pakistan apologize to us for providing safe sanctuary to Osama
Bin Laden for 6 years?! Some "ally."
اس کے علاوہ بھارت کے بارے یہ بیان ہی ملاحظہ فرمائیں:
’’"I am a big fan of Hindu and I am a big fan of India. Big, big fan,"
he said in October while appearing at a Republican Hindu Coalition
fundraiser in Washington.‘‘
انتخاب جیتنے کے بعد پاکستان کے بارے ٹرمپ کا بیان جو سابقہ بیانات کے
بالکل خلاف تھا
"Please convey to the Pakistani people that they are amazing and all
Pakistanis I have known are exceptional people,"
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی بھارت جانب کھچاؤ اپنی جگہ لیکن پاکستان
کے بارے خیالات کی تبدیلی واضح نظر آرہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کار بھی یہ امید
دلا رہے ہیں کہ ٹرمپ کی پالیسیاں پاکستان کے لئے بہتر ہوجائیں گی کیونکہ
حالیہ الیکشن کی فتح کے بعد پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف سے فون پر
گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے وزیراعظم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کی
تعریف کی اور پاکستان کی لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ لیکن ان خواہشات
کی تکمیل پر علم ہوسکے گا ٹرمپ کتنا مخلص ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ سے
پاکستان کے لئے بہتری کی امید اس لئے ہے کہ ٹرمپ خود غرض ضرور ہے لیکن
سیدھا اور کھرا بندہ ہے بات منہ پر کہہ دیتا ہے ۔ جو بھی پالیسی بنائے گا
وہ واضح ہوگی اور پاکستان کے ماضی کے غیر مشروط ساتھ کا احسان یاد کرسکے
اور افغان پالیسی میں مستقبل میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے بہتری ممکن
ہوسکے لیکن پاکستان کو بطور ـ’’منگتا‘‘ تو ضرور سمجھتا رہے گا۔
اوبامہ نے سیاہ فام ہوکر گوروں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کو نام نہاد
ساتھ بن کر اپنے دونوں ادوار میں مسلمانوں کو زیادہ ٹراگٹ کیا بلکہ امریکہ
کی وجہ سے دہشت گردی لہر مزید تیز ہوئی اور داعش جیسی سفاک دہشت گرد تنظیم
معرض وجود میں آئی یہ عرب عسکریت کی تھری جی ہے یعنی تیز ترین اور تھرڈ
جنریشن جو دنیا کے لئے مہلک ترین ہے ۔ اہل علم حضرات داعش کی سرپرست امریکہ
کو ہی سمجھتے ہیں۔داعش کا بہت بڑا موضوع ہے اس کے لئے بین الاقوامی عسکری
امور والے ہی بہتر معلومات دے سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور امریکہ کے لئے ایشیائی ممالک میں اس وقت کافی چیلنجز ہیں جس میں
اہم ترین پاک اور بھارت کے درمیان کشمیر کا معاملہ اور اس پر رواں برس سے
شروع ہونے والی جارحیت اور کشیدگی۔ اب دونوں ممالک امریکی حمایتی ہیں لیکن
اگر ٹرمپ اس معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور پاکستان کشمیر کے حوالے سے
ٹرمپ کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر بھارت سے پہلے اور بہتر طریقے سے
قائل کرلیتا ہے تو ہوسکتا ہے ٹرمپ کشمیر ایشو پر کوئی بہتر کام کرسکے۔ لیکن
پاکستان بھارت کے مقابلے اگر ہمیشہ کی طرح سرد مہری دکھاتا دکھاتا ہے تو
بھارت اپنی شاطرانہ چال سے ٹرمپ کو مطمئن کرلے گا۔ اس لئے پاکستان کو
سنجیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ پھرتی دکھانی ہوگی۔ سرتاج عزیز کی بجائے اگر
وزارت خارجہ کو مکمل کرلیا جائے اور خارجہ پالیسی پر کام شروع کروا دیا
جائے تو کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔
ٹرمپ کے لئے دوسرا معاملہ افغانستان ،امریکہ تعلقات ہیں اس کے لئے بھی
امریکہ کو پاکستان کی معاونت درکار ہوگی۔ بلاشبہ موجودہ افغانی حکومت شروع
دن سے ہی پاکستان کی مخالفت میں جارہی ہے اور ہر بار افغانی حکومت نے
پاکستان کو دہشت گرد مخاطب کرتی رہی ہے۔اور پاکستان کو ہمیشہ طالبان کا
حامی سمجھا گیا ہے لیکن پاکستان خود طالبان کے خلاف جنگ لڑرہا ہے جس سے
پاکستان کا بہت زیادہ نقصان ہوچکا ہے۔ افغانستان کے لئے طالبان ایک حقیقت
ہیں جسے امریکہ کیا تمام بین الاقوامی طاقتیں تسلیم کرچکی ہیں اس لئے
امریکہ افغانی طالبان کے ساتھ چند سال سے مسلسل مذاکرات کررہا ہے اس سلسلے
میں امریکہ اور طالبان ہمیشہ پاکستان سے ہی ثالثی کروانے کو ترجیح دیتے نظر
آرہے ہیں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کا چین کے ساتھ موجودہ معاہدہ امریکہ کے
لئے کافی تکلیف دہ تو ہے ہی لیکن اس پر ٹرمپ کے کوئی بیانات ابھی تک نظر
نہیں آئے ۔ اس کے علاوہ امریکہ اور روس کی سرد جنگ اب کچھ حد تک تھم گئی ہے
یہاں تک کہ نجی ٹی وی چینلز نے روسی حکومت پر الزام لگایا کہ روس نے امریکی
صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی مدد کی۔اس بارے دونوں ھانب سے تردید ہوگئی لیکن
ٹرمپ کی پالیسیاں روس کے لئے بہتر ہوسکتی ہیں اور روس پاکستان کی جانب بھی
اب کافی معاہدے کررہا ہے۔
اس ضمن میں اب پاکستان کے سیاستدانوں کو چاہیئے کہ وہ اندرونی خلفشار ختم
کرکے ملک کے پرامن اور معاشی مستقبل کے لئے نئے امریکی صدر کے ساتھ اپنے
اہم معاملات پر بات کریں اور کشمیر جیسے ایشوز پر سٹینڈ لیں ساتھ میں سی
پیک کو کامیاب کرنے کے لئے سب سیاستدان متحد ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کے
چئیرمین عمران خان صاحب سے خصوصی گذارش یہی ہے کہ وہ پانامہ کو عدالت تک ہی
محدود کریں اور عدالت کو بہتر فیصلہ کرنے دیں ۔ کیونکہ مسلسل چار سال سے
سیاسی جلسوں سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ آپ کی جماعت کو
بلدیاتی انتخابات اور اکثر ضمنی انتخابات میں ناکامی کی صورت دیکھنی پڑی۔
اس ضمن میں پاکستانی سیاستدانوں اندرونی سیاسی خلفشار اور رواں سیاسی سرد
جنگ کو پس پشت دال کر کچھ سنجیدہ ہونا پڑے گا تب ہی ملک ترقی کی جانب گامزن
ہوسکے گا۔ |
|