قومی اسمبلی میں محاز آرائی

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے سیاستدان صرف ووٹوں کے حصول تک ہی عوام کے جانشین ہوتے ہیں۔عوامی مسائل سننے اور حل کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے ۔ اگر وقت ہے تو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا ، وقت ہے تو ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ، وقت ہے تو اسمبلی کو اکھاڑہ بنانے کا، وقت ہے تو چور چور کا شور برپا کرنے کا، وقت اگر نہیں ہے تو عوام کی بھلائی کا نہیں ہے ، ملکی و قومی مفادات کے لیے سوچنے کا وقت نہیں ہے ۔ عوام کی طاقت سے منتخب ہونے والے یہ سیاستدان عوام کے دشمن بن چکے ہیں۔الیکشن سے پہلے کیے گئے آسمان کو چھوتے ہوئے وعدے اور دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔آج یہ سیاستدان ملکی و قومی مفاد میں کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان کی خامیاں تلاش کرنے پر لگے ہوئے ہیں اور مخالف سیاستدانوں پرطرح طرح کے الزامات لگا کر ملک کو انتشار کی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔ ہر طرف گہما گہمی اور شور شرابے کا سماں ہے ۔

قومی و صوبائی اسمبلیاں ان نام نہاد سیاستدانوں کے شر سے محفوظ نہیں رہیں۔ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی اور شور شرابا اسمبلی سیٹوں پر براجمان اراکین کا معمول بن چکا ہے۔ ملکی و قومی معاملات ہوں یا کوئی سیاسی عنوان، حکومتی و اپوزیشن ارکان بحث و تکرار ، نعرے بازی ، الزام تراشی ، ہنگامہ آرائی اورایک دوسرے کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ گتھم گتھا ہونے پر اتر آتے ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسی ہی صورت حال جمعرات کوہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں دیکھنے کو ملی۔ قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شاہ محمود کی تقریر کے داران حکومت اور تحریک انصاف کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے رہے ۔وزیرپٹرولیم شاہد خاقان عباسی کوئی بات کرنے کے لیے نویدقمرکی کرسی کی طرف بڑھے تو شہریار آفریدی اور مراد سعید ان پر جھپٹ پڑے ۔اس نعرے بازی اور شور شرابے کے دوران حکومتی و پی ٹی آئی اراکین ایک دوسرے کے دھکے دیتے رہے اوراسی افراتفری میں نوبت گتھم گتھا تک پہنچ گئی۔ دھکم پیل اور شور شرابے کے اس عالم میں شہریار افریدی کے گال پر تھپڑجڑ دیا گیاجس کے بعد حکومتی و پی ٹی آئی اراکین ایک دوسرے کو غلیظ گالیوں سے نوازتے رہے اور ہنگامہ آرائی کا یہ سلسلہ شدت اختیار کر گیا اور سپیکرقومی اسمبلی سردارایازصادق کواجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔ عوامی طاقت سے منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے والے ان اراکین کو عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں ہے۔چاہے کوئی بھوک، پیاس سے مرجائے یا علاج نہ ہوپانے سے جان کی بازی ہار جائے ان اراکین اسمبلی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔صاف پانی کے حصول کا مسئلہ ہو یا موزی بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کی ضرورت ہو، قدرتی آفات اور حادثات سے متاثرہ افراد کی بحالی و علاج معالجہ کا مسئلہ ہو یا ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان ہو اراکین اسمبلی میں سے کوئی بھی عوامی ایشوز پر آواز نہیں اٹھاتا بلکہ یہ اراکین اسمبلی ذاتی مفادات کے حصول کی تگ و دو میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔پولیو جیسی خطرناک بیماریوں ،دیگر قدرتی آفات اور حادثات میں متاثر ہونے والے افراد کی بحالی اراکین اسمبلی و حکومتی عہداران سمیت ہم سب کاقومی فریضہ ہے۔ مصائب سے گھرے ہوئے سینکڑوں متاثرہ افراد عوامی منتخب نمائندوں اور حکومتی عہدیداران کی ذرا سی توجہ اور امداد کے منتظر ہیں جس کے سبب یہ متاثرہ افراد نارمل زندگی جینے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی خدمت بھی کر سکتے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والوں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان سے تعلق رکھنے والے ایک ٹانگ سے معذور نوجوان محمد الیاس بھی حکومتی عہدیداران ومنتخب نمائندوں کی توجہ کا منتظر ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت دن رات کی محنت اور اپنی قابلیت کے سبب انگریزی ، سائنسی، قرآنی اور فقہ کی تعلیم پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ ا یم فل جینیات میں زیر تعلیم محمد الیاس پیدائشی معذور نہیں بلکہ ساڑھے تین سال کی عمر میں سال بھر ٹائیفائیڈ کا شکار رہنے پرٹانگ متاثر ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا ۔ والدین کی جمع پونجی علاج پر لگانے سے کچھ بہتری ضرور آئی تھی مگر شاید قدرت نے معذوری اس کی قسمت میں لکھ دی تھی کہ 2011 میں پولیو سے متاثرہ ٹانگ ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے دوبارہ متاثر ہوگئی جس کے سبب چلنا پھرنا مشکل ہوگیا ۔محمد الیاس نے معذوری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا اور اﷲ تعالی کی طرف سے آزمائش سمجھ کر صبرکرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کی طرف خوب توجہ دی ہے جس کے سبب آج ایم فل تک پہنچ چکے ہیں۔اپنی معذوری کے باوجود گھر والوں ، رشتہ داروں اور دوستوں سے فنڈ جمع کر کے ہر مہینے بچوں میں سٹیشنری تقسیم کرنا محمد الیاس کا پسندیدہ عمل ہے۔محمد الیاس سمیت سینکڑوں نوجوان علاج کی سہولت اور ملازمت کے حصول جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ذرا سی توجہ اورصرف چند سہولیات کی فراہمی کے باعث جزوی معذور سینکڑوں نوجوان قیمتی اثاثہ بن کر ملکی تعمیرو ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ذاتی لڑائیوں سے آزاد ہو خصوصی افراد کو ملکی اثاثہ سمجھ کراس قیمتی سرمائے کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات کون کرے گا؟کیا حکومتی عہدیداران و منتخب نمائندگان متحد ہوکر خصوصی افراد کے لیے کچھ کر سکیں گے؟ اصل حقائق جاننے اور سمجھنے کی بجائے سنی سنائی باتوں پر شور برپا کرنے والے یہ اراکین اسمبلی آخر کب ملکی مفادات کے لیے سوچیں گے؟ان اراکین اسمبلی کو ایک دوسرے کی عزت و تکریم کا خیال کب آئے گا؟انسانی و اخلاقی پہلوؤں کو پس پشت ڈال کر ہنگامہ آرائی اور الزام تراشی کرنے والے آخر کب سدھریں گے؟ کیا تمام قوانین صرف اور صرف غریب و لاچار لوگوں کے لیے ہی ہیں؟کیا قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے متعلق سوموٹوایکشن نہیں ہونا چاہیے؟۔

ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے ذاتی اختلافات ختم کرکے متحد ہونا ہوگا۔قومی و صوبائی اسمبلیوں میں لڑائی جھگڑے ، نعرے بازی ، افراتفری ، شور شرابا اور فضول بحث و تکرار کا خاتمہ کر کے ماحول خوشگوار بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومتی اراکین اسمبلی ہوں یا اپوزیشن اراکین، اخلاق کے دائرہ میں رہ کر تمام معاملات طے کرنا ہوں گے۔قومی و صوبائی اسمبلیوں کو اکھاڑہ بنانے کی بجائے پینے کے لیے صاف پانی کے حصول ، تعلیم و صحت کے شعبہ میں سہولیات کی فراہمی اور خصوصی افراد کی بحالی و علاج معالجہ جیسے ملکی و قومی مسائل کے حل کے لیے حکومتی عہدیداران و اراکین اسمبلی کو متحد ہوکر سوچنا ہوگا ۔ایسانیا قانون بنایا جانا چاہیے کہ قومی و صوبائی اسمبلی میں ہتک عزت اور ہنگامہ آرائی کرنے والے اوراخلاق کے دائرہ کار سے باہر نکلنے والے اراکین کو اسمبلی کی نشستوں سے سبکدوش ہونا پڑے۔ان اقدامات سے اسمبلی کا ماحول خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ اﷲ کریم ہمیں مخلص ہوکر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 44595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.