اسلامی دہشت گردی یا ٹرمپ اسلام دشمن۰۰۰؟
(Dr M A Rasheed Junaid, India)
آخر کار 45ویں امریکی صدر کی حیثیت سے
ڈونلڈ ٹرمپ 20؍ جنوری کو حلف لے کر اپنے آپ کودنیا کے طاقتور ترین حکمراں
کی حیثیت سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایک طرف وہ امریکیوں کو خوش کرنے کی
کوشش کئے ہیں تو دوسری جانب اپنے حلیف و دوست ممالک کو ناراض کیا کیونکہ
انہوں نے جس طرح اپنی تقریر کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ امریکہ
کو ہر جگہ ،ہر چیز میں اولیت اور فوقیت دی جائے ، اپنی تقریر میں انہوں نے
یہ بتانے کی کوشش بھی کی کہ دنیا کا کوئی بھی حکمراں اگر امریکہ کا ساتھ
چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے امریکی مفاد کو ترجیح دیں ورنہ اس سے کسی قسم کی
دوستی ممکن نہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی تقریر میں اسلامی
دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات کی ہے، یوں تو وہ اپنی انتخابی تقاریر میں
اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔اسلامی دہشت گردی کا وجود کیوں کر ہوا اس
سلسلہ میں شاید ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں ، امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی جھوٹی
رپورٹس یا سابق امریکی صدور کی اسلام دشمنی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عالمِ
اسلام یعنی مشرقِ وسطی میں مسلمانوں کا قتلِ عام حقیر سمجھا جارہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے داعش اور دیگر انتہا پسند اسلامی گروپوں کی شکست کو اپنی
اولین ترجیح قرار دیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کہا کہ
آ گ کا جواب آگ سے دیا جائے گااور پھر گوانتاموبے جیل جسے بارک اوباما اپنے
دور میں بند کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن آخر وقت تک بھی اس کے بند کے احکام
صادر نہ کرسکے اور اب ٹرمپ اس جیل میں قید کے احکامات جاری کرنے کی اطلاعات
ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی
ویب سائٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اس ویب سائٹ میں 6صفحات کا اضافہ کرکے
ان میں توانائی ، خارجہ ، اقتصادی ، فوجی ، قانون کے نفاذ اور تجارتی
پالیسیوں کو اجاگر کیا ہے۔ خارجہ پالیسی کے صفحہ میں نئی امریکی انتظامیہ
کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکی مفادات اور امریکہ کی قومی سلامتی کو
پالیسی کی اولین ترجیحات قرار دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں
اقدامات ’’ استحکام کے ذریعے امن ‘‘ کے اصول کے تحت کئے جائیں گے ۔ اس
پالیسی کے مطابق داعش اور دیگر انتہا پسند اسلامی دہشت گرد گروپوں کو شکست
دینا ٹرمپ دور حکومت کی اولین ترجیح ہوگی اور اس مقصد کیلئے جہاں ضروری ہوا
، جارحانہ اور مشترکہ اور اتحادیوں سے ملکر فوجی کارروائیاں کرنے عندیہ دیا
گیا ہے ۔ ـذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ دہشتگردوں کو فنڈز کی فراہمی
روکنے اور ان کے بارے میں خفیہ معلومات کے حصول کیلئے بھی بین الاقوامی سطح
پر امریکی شراکت داروں سے ملکر کام کریں گی ، دہشت گردوں کی طرف سے انٹر
نیٹ کے استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات اہم ترجیح میں شامل ہے۔ امریکہ
اپنی فوجی طاقت و قوت کو بڑھانے کیلئے پہل کررہا ہے اس سلسلہ میں ویب سائٹ
میں مزید بتایا گیا ہے کہ 90کے عشرے کے مقابلہ میں امریکی مسلح افواج کی
افرادی قوت اور ان کے پاس موجود اسلحہ میں کمی آچکی ہے ۔ اس صورتحال میں
مسلح افواج کی تشکیل نو کی جائے گی کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک فوجی
برتری بے حد اہمیت کی حامل ہے ۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے دنیا کے بیشتر
ممالک نے آواز اٹھائی ہے اور کئی ممالک دہشت گردی کے خلاف صف بستہ ہیں۔
گذشتہ دنوں سوئزرلینڈمیں ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں شریک سابق
پاکستانی فوجی سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے ان سے کئے گئے سوالات کا
جواب دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کے پاس ڈیجیٹل دور میں جو پلیٹ فارم
دستیاب ہیں چاہے وہ سوشل میڈیا ہو یا کوئی بھی اور پلیٹ فارم ۔ وہ اسے بہت
ہی مؤثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ نہ صرف اس پر بھرتی کا
کام ہوتا ہے بلکہ مالی معاونت کرنے والے، امداد کرنے والے، سہولت کار اور
ان سے ہمدردی رکھنے والے سب اس میں ملوث ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے
کہا کہ آزاد دنیا کو چاہیے کہ وہ متحد ہوکر اس فتنے کے خلاف اتنی تیزی سے
کارروائی کریں ، یہی نہیں بلکہ اس فتنے سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں
یلغار کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ
کوئی غاروں میں بیٹھ کر کارروائی کررہا ہے بلکہ اس پاگل پن کے پیچھے ایک
نظام ہے اور دنیا پہلے ہی اس کے خلاف کارروائی کرنے میں دیر کرچکی
ہے۔پاکستان جو امریکہ کے لئے اہم حیثیت رکھتا ہے اب دیکھنا ہے کہ ٹرمپ کے
دورِ صدارت میں اسے وہی مرتبہ حاصل ہوگا یا نہیں۔ دنیا کا ہر ملک چاہتا ہے
کہ دہشت گردی کا خاتمہ جلد سے جلد ہوجائے لیکن اس کے لئے ان مظلوم انسانیت
پر خصوصی توجہ دینی ہوگی کیونکہ دہشت گردی کا وجود ان پر ڈھائے جانے والے
مظالم کی وجہ سے ہی ہوا اور اگر مستقبل میں مصلحت پسندی سے کام لے کربات
چیت کے ذریعہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ساری انسانیت کے لئے بہتر
ہوگا ۔ عالمِ اسلام کے ان ممالک میں دہشت گردی کا آغاز کہاں سے ہوا اس کا
جائزہ لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ اس کے اصل ذمہ دار امریکہ،
برطانیہ و دیگر اتحادی ممالک ہیں جنہوں نے صدام حسین پر الزام عائد کرکے
عراق کو نشانہ بنایا اور کم و بیش چالیس ممالک نے ملکر عراقی عوام کا کئی
روز تک خطرناک فضائی حملوں کے ذریعہ قتل عام کرتے رہے اور عراقی معیشت کو
تباہ وتاراج کردیا۔ عراق کی اسلامی تاریخ کو ملیامیٹ کردیاگیا۔ورلڈ ٹریڈ
سنٹر اور پنٹگان پر حملوں کا ذمہ دار اسامہ بن لادین کو بتاتے ہوئے انہیں
افغانستان میں پناہ دیئے جانے پر حوالے نہ کرنے کی صورت میں ملامحمد عمر کی
طالبان حکومت کا خاتمہ کردیا گیا، افغانستان پر بھی امریکی اتحادیوں نے
خطرناک فضائی حملے کرکے ایک ظالمانہ کارروائی کی تاریخ رقم کی جس کا خمیازہ
آج تک معصوم افغان شہری بھگت رہے ہیں ہر آئے دن بم دھماکے، خودکش حملے اور
فائرنگ افغانستان میں عام ہے جس میں بے قصور جانوں کی ہلاکت کا کوئی حساب
نہیں۔ عراق، افغانستان میں امریکی و اتحادی فوجوں کو متعین کیا گیا اور پھر
معصوم شہریوں کو کسی نہ کسی بہانے دہشت گرد بتاکر نشانہ بناتے رہے۔ یہی وہ
وجہ ہے جہاں سے جہادی تنظیوں کا وجود دکھائی دیتا ہے۔ ویسے ان جہادی
تنظیموں میں کتنے ہی ایسے ہیں جنکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ اسلام
اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے معصوم و بے قصور مسلمان مرد و خواتین
اور بچوں کا قتل عام کررہے ہیں گذشتہ چند برسوں کے دوران عراق، افغانستان
اور پھر بہارِ عرب کے آغاز کے بعد شام کی خانہ جنگی، مصر میں حسنی مبارک کا
تختہ الٹنا اور منتخبہ صدر محمد مرسی کے خلاف ایک سال کے مکمل ہوتے ہی فوجی
بغاوت،لیبیا میں معمر قذافی کی بے دخلی اور انکی ہلاکت وغیرہ نے لاکھوں
مسلمانوں کا قتل عام دیکھا۔فلسطین میں اسرائیلی حکومت اور فوجی و دیگر
سیکیوریٹی ایجنسیوں کی ظالمانہ کارروائیاں بھی ان مظلوم نوجوانوں، بچوں،
مرد و خواتین کو بدلہ لینے یا اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے احتجاج کرنے پر
مجبور کرتی رہی ہیں۔ فلسطینی علاقوں پر قابض ہوکر اورفلسطینی شہریوں کو بے
دخل کرکے یہودی آبادیاں بسانے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے۔ گذشتہ اوباما
حکومت کے آخر ایام میں اقوام متحدہ میں اسرائیلی حکومت کے اس عمل کوناکام
بنادیا گیا تھا اور امریکہ نے بھی اسرائیل کے حق میں ویٹو کا استعمال نہیں
کیا لیکن نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس صہیونی مملکت کیلئے اہم ثابت ہوسکتے
ہیں فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی یہودی بستیوں کی آبادکاری کے لئے
ٹرمپ کی تائید و حمایت حاصل ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا
۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے صدر بننے کے دو روز بعد ہی یروشلم میں یہودی بستی
کی تعمیر کی منظوری دی ہے ۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد ٹرمپ
اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہوکے درمیان فون پر بات چیت ہوچکی ہے
اورنتن یاہو کے مطابق انہیں ٹرمپ نے امریکہ آنے کی دعوت دی ہے ۔ مبصرین کے
مطابق فلسطین اور اسرائیل کے درمیان اختلافات کا سلسلہ طویل ہے اورگذشتہ
تین دہائیوں کے دوران مذاکرات کا عمل ہمیشہ ناکام ہوچکا ہے ایک طرف حماس پر
الزام ہے کہ وہ اسرائیلی شہری علاقوں پر راکٹ داغتے ہیں تو دوسری جانب
اسرائیل کی کارروائی ، بیت المقدس کی بے حرمتی اور مقبوضہ علاقوں میں یہودی
بستیوں کی تعمیر ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ امریکہ اب عراق ، شام، لیبیا، اور
یمن کے تنازعات سے اپنے آپ کو جلد از جلد الگ کرلے گا دیکھنا ہیکہ سعودی
عرب، عرب امارات، و دیگر مسلم ممالک کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کے تعلقات کس
نوعیت کے ہونگے۰۰۰
امریکی سفارت خانہ کی بیت المقدس منتقلی؟
صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی تقاریر میں واضح کیا تھا کہ وہ صدر
بننے کی صورت میں امریکی سفارت خانہ کو جو تل ابیب میں واقع ہے اسے بیت
المقدس منتقل کیا جائے گا اس سلسلہ میں مفتی اعظم فلسطین و دیگر عالمی
شخصیات نے ٹرمپ کے اس بیان کی مخالفت کی تھی لیکن اب جبکہ ٹرمپ امریکی
صدارت پر فائز ہوچکے ہیں اس کو حقیقت کا جامہ پہانے کر رہیں گے اور اس
سلسلہ میں پہل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ عالمِ اسلام کا اس
سلسلہ میں کیا ردّعمل ہوتا ہے۔
***
|
|