یوم یک جہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ یک
جہتی کا عملی مظاہرہ،پاکستان ہر سال5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر
مناتاہے ۔برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد2016ء کی طویل عوامی مزاحمت،
کرفیو، ہڑتالیں، مظاہرے، پیلٹ اور پاوا شیلنگ، سیکڑوں بچوں، طلباء، خواتین
اور معمر افراد کو آنکھوں سے محروم کیا جانا، 150سے زیادہ شہادتیں،ہزاروں
کی تعدادمیں گرفتاریاں، کالے قانون سیفٹی ایکٹ کے تحت ماورائے عدالت
حراستیں،ریاستی دہشت گردی، آزاد کشمیر کی شہری آبادی پر گولہ باری، نام
نہاد سرجیکل سٹرائیکس کے دعوؤں کے دوران آج 2017کو کشمیریوں کے ساتھ یک
جہتی کی جا رہی ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب جماعت اسلامی
کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزشن لیڈر اور وزیراعلیٰ
پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل
اظہار یکجہتی کی جائے۔اس اپیل کی اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے تشہیر کی
گئی۔ ان کی کال پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ
زبردست یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ملک گیر ہڑتال ہوئی اور ہندوستان سے
کشمیریوں کو آزادی دینے کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دن جگہ جگہ جہاد کشمیر کی
کامیابی کے لئے دعائیں مانگیں گئیں۔آج قاضی صاحب ہم میں موجود نہیں لیکن ان
کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔میاں صاحب ایک بار پھر پاکستان کے وزیر
اعظم ہیں۔ توقع ہے کہ اب یک جہتی کے بنیادی مقاصد کے حصول کی جانب بھر پور
توجہ دی جائے گی۔
اندرا گاندھی اور شیخ عبد اﷲ اکارڈ ( Indra-Abdullah-Accord)کے خلاف
ذوالفقار علی بھٹو کی کال پر 28فروری 1975کو کشمیر کے آر پار اور پاکستان
میں ہڑتال کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے
کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو
آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد تشریف لے گئیں جہاں انہوں نے قانون ساز
اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کیا،کشمیریوں
کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ
کیا۔ تب سے اس دن کو ہر برس سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔پورے ملک میں
سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ جبکہ آزادکشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ
سیشن سے صدر یا وزیراعظم پاکستان خصوصی خطاب فرما کرکشمیریوں سے اظہار یک
جہتی اور جدوجہد آزادی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ صرف 5 فروری 2004ء کو
سابق صدر پرویز مشرف کی بھارتی حکمرانوں کے ساتھ تازہ دوستی میں کشمیریوں
کے ساتھ یکجہتی کا اظہار نہ کیا گیا اور اس روایت کو نظر انداز کر دیا گیا
جو کشمیر کی تحریک آزادی کے نئے مرحلے پر ڈالی گئی تھی۔اس بار وزیر اعظم
نواز شریف کامظفر آباد میں اسمبلی کے مشترکہ سیشن سے خطاب متوقع ہے۔ وہ
اپنی کشمیر پالیسی کا بھی اعلان کریں گے۔ اس سے قبل جب بھی سربراہان حکومت
نے مظفر آباد کے اس موقع پر دورے کئے تو وہ مہاجرین1989کے کیمپوں میں ضرور
گئے۔ مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافے، ان کے لئے تعلیم، صحت،
روزگار،آبادکاری سمیت بنیادی حقوق دینے میں حسب تو فیق عملی قدم اٹھایا۔اگر
یہ نہ ہو تو یک جہتی صرف وعدوں اور دعوؤں تک محدود ہو جاتی ہے۔ آج بارشیں
ہو رہی ہیں۔ مہاجرین کی حالت زارکا اندازہ وادی نیلم روڈ پر چہلہ میں قائم
خیمہ بستیوں سی بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ان دنوں یہاں بچے ریت بجری پرسوتے
ہیں۔
کشمیری صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے شکار رہے ہیں
لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا
لیکن تحریک آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ 1586ء سے 1752ء تک کشمیر پر
مغلوں کی حکومت رہی، لیکن مغلوں نے محلات اور باغات کی تعمیر کے علاوہ کوئی
دوسرا خاص کارنامہ سرانجام نہ دیا۔ 1752ء سے 1819ء تک افغان اس خطے پر مسلط
رہے جنہوں نے کشمیریوں کی دولت کو وہاں سے باہر منتقل کر دیا ۔ انگریزوں
اور ان کی پروردہ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیوں نے برصغیر کی دولت کو لوٹ کر
ولایت منتقل کر دیا، ان کا لوٹا ہوا ہیرا جو برصغیر کی ملکیت ہے آج بھی
ملکہ برطانیہ کے پاس موجود ہے ۔ یہی کوہ نور ہیرا ہے جو ملکہ کے تاج کی
زینت بنا ہے۔ 1819ء سے 1846ء تک کشمیر کو سکھوؤں نے اپنی کالونی بنائے رکھا
اورعوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اور پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ
تاریخ کا ایک بدترین سودا ہوا، انگریزوں نے صرف 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں
کشمیر کی سرزمین اور انسانوں کو ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس سے بڑی انسانی
حقوق کی اور کیا خلاف ورزی ہو گی کہ انسانی حقوق کے علمبردار کہلائے جانے
والے انگریزوں نے انسانوں کا سودا کیا۔ 100 سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کو
بدترین غلامی کا شکار بنائے رکھا۔ انھوں نے ہوا کے بغیر ہر چیز پر ٹیکس لگا
دیا، اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا اور کوئی موت واقع ہوتی
تو اس کے لواحقین ٹیکس جمع کراتے، پھر تدفین کی اجازت ملتی، اس سے قبل قحط
سالی نے کشمیریوں کو گردو نواح کے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔
کشمیر جو دنیا کی زرخیز ترین سرزمین ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے،
جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی تھی، اب خون سے لالہ زار بن چکی ہے۔ یہ
ڈوگروں کے مظالم ہی تھے جن کے باعث کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے اور 13 جولائی
1931ء کو 22 نوجوانوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادتیں پیش کیں لیکن
وہ جھکے نہیں۔ ان شہداء کے خون کا قرض ان کے بعد 5 لاکھ شہداء نے چکا دیا۔
برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ کشمیریوں کے دکھ و درد کو محسوس کیا اور اس پر
عملی اقدامات کئے۔ 13 جولائی 1931ء کو سرینگر میں مسلمانوں کے قتل عام نے
لاہور میں سب کو غمگین کر دیا، لاہور میں ہی فوراً آل انڈیا کشمیر کمیٹی
تشکیل دی گئی جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی تحریک آزادی کی عملی امداد کرنا
تھا۔اس وقت لوگ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد سے زیادہ مادی اور عملی
امداد پر یقین رکھتے تھے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نے ہندوستانی
مسلمانوں کو تحریک پاکستان کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مفکر اسلام
عظیم فلاسفر اور دانشورڈاکٹر علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر
کیا گیا۔ اس دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد کشمیریوں کی حمایت میں
منظور کی۔ حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ لیڈر شپ میدان میں آ چکی تھی۔ یہ
لیڈر شپ مخلص، ہمدرد اور قوم پر مرمٹنے والی تھی، شو مئی قسمت آج کی لیڈر
شپ قوم کو خود پر مارنے اور مٹانے کے درپے رہتی ہے۔
مئی 1936ء کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیریوں کے ساتھ عملی یکجہتی کا
اظہار کرنے کیلئے سرینگر کا دورہ کیا۔ انہوں نے کشمیریوں کو متحد ہو کر
جدوجہد کرنے کی اپیل کی۔ قائداعظم کو اندازہ تھا کہ ڈوگرہ حکمران مسلمانوں
کے عقیدے اور اقدار کے برخلاف اقدامات کریں گے۔ قائداعظم کے دورے کے بعد
جواہر لعل نہرو نے بھی سرینگر کا دورہ کیا۔ حالانکہ وہ خود کشمیری تھا لیکن
1931ء کے قتل عام کے بعد اسے مقبوضہ وادی آنے کی توفیق نہ ہوئی جس پر
کشمیری مسلمان برہم تھے۔ مسلم کانفرنس نے نہرو کے خلاف احتجاج کیا جبکہ
قائداعظم کا شاندار استقبال کیا گیا تھا۔ قائداعظم نے جون 1944ء کو سرینگر
کا دوسرا دورہ کیا۔ انہوں نے مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کو اتحاد قائم
کرنے کی اپیل کی۔ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے قائداعظم سے ملاقات نہ کی۔ وہ
مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے درپے تھے جبکہ قائداعظم مسلمانوں کو متحد ہو
کر جدوجہد آزادی تیز کرنے کی طرف لے جا رہے تھے۔ مہاراجہ کا قائداعظم سے
ملاقات نہ کرنا قدرتی بات تھی۔ قائداعظم کے اثرات ختم کرنے کیلئے 1945ء کو
نہرو نے بھی سرینگر کا دورہ کیا۔شیخ محمد عبداﷲ نے نہرو کا استقبال کیا اور
دریائے جہلم پر نہرو کے حق میں جلوس نکالا۔ اس جلوس پر مسلم کانفرنسیوں نے
پتھراؤ کیا اور جوتے پھینکے۔ بش کی طرح نہروجوتوں کے حملے میں بال بال بچ
گئے لیکن کشمیریوں کوقائداعظم کیساتھ تعاون اور عقیدت کی سزا دینے کا ایک
دور شروع ہوا ۔ جو نہرو خاندان نے جاری رکھا۔ اندراگاندھی ،راجیو گاندھی
اور اب ان کے جانشین نہروپرجوتے برسانے کا انتقام کشمیریوں سے لے رہے ہیں۔
کشمیر میں تسلط کو مضبوط کرنے کیلئے بعض کشمیریوں، پاکستانی حکمرانوں کی یک
طرفہ لچک اور معذرت خواہانہ پالیسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب شیخ
محمدعبداﷲ نے زراسی خودمختاری کا مظاہرہ کیا تو انہیں ان کے نام نہاد دوست
نہرو نے ہی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور جب پاکستان ٹوٹنے پر1971ء کے
بعد کشمیر پالیسی پر کمزوری دکھائی گئی اور کشمیری مایوس ہوگئے
تو25فروری1975ء کی محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو ترک
کرکے بھارت کے ساتھ معاہدہ کے تحت شیخ عبد اﷲ کو جیل سے نکال کر اقتدار
دیدیا گیا۔اس معاہدے کو اندرا عبداﷲ اکارڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اندراگاندھی کی طرف سے جی پارتھا سارتھی اور شیخ محمدعبداﷲ کی طرف سے مرزا
افضل بیگ نے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا۔
اندرا گاندھی نے 24فروری 1975کو اس معاہدے کا اعلان کیاتو وزیراعظم پاکستان
ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کے خلاف ہڑتال کی کال دی۔ کشمیریوں نے اس کال پر
عمل کیا اور28فروری1975ء کو فقیدالمثال ہڑتال کی گئی۔ شیخ محمدعبداﷲ
کانگریس والوں کو گندی نالی کے کیڑے قراردیتے تھے ۔ لیکن بعد ازاں انھوں نے
کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی ۔ لیکن کشمیریوں نے ذوالفقارعلی
بھٹو کی کال پر مکمل عمل کیا۔ بھٹو صاحب نے کشمیر پر100سال تک جنگ لڑنے کا
بھی اعلان کیاتھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیریوں اور پاکستان نے ایک دوسرے
کے ساتھ مکمل یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔28فروری1975ء کو ذوالفقارعلی بھٹو
کی کال پر ہڑتال کے بعد کشمیریوں اور پاکستان کی مکمل یک جہتی کے اظہار کا
تسلسل 5 فروری ہے۔ جسے بینظیربھٹو نے سرکاری طورپر منانے کافیصلہ کیا تھا۔
محترمہ نے1995ء میں برطانوی لیبرپارٹی کے تعاون سے کشمیر پر برائٹن
ڈیکلریشن میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پہلی مرتبہ جب سینئر صحافی واجد شمس
الحسن کو برطانیہ میں سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کو مسئلہ کشمیر کو اجاگر
کرنے کیلئے خصوصی ٹاسک دیاگیاتھا۔ ان کو واضح طورپر بینظیربھٹو نے مسئلہ
کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کشمیری مجاہدین کو
فریڈم فائٹرزکا خطاب محترمہ بینظیربھٹو نے ہی دیا تھا۔ میاں نواز شریف
تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب
کے موقع پر برہان وانی کو شہید مجاہد قرار دے کر بھارت کو للکار دیا۔ دنیا
بھر میں جارحانہ سفارتی مہم شروع کی گئی تا کہ مسلہ کشمیر کو کشمیریوں کی
رائے کے مطابق حل کیا جائے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں
رائے شماری کرائے جائے۔بھارت اس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔یک جہتی کا
تقاضا ہے کہ بھارت کو بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے۔
آج پاکستان بھر میں جگہ جگہ یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے تقریبات منعقد
ہو تی ہیں۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے زیر اہتمام وفاقی دارالحکومت میں
کشمیر کنونشن ہوتا ہے۔ کوہالہ اور آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے
پلوں پر انسانی زنجیر یں بنائی جاتی ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء
کے درمیان مضمون نویسی کا مقابلہ ہوتا ہے۔ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ
یک جہتی کا عزم کرتی ہے اور تحریک آزادی کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کا
تجدید عہد کیا جاتا ہے۔پاکستان کشمیریوں کا وکیل بھی ہے اور مسلہ کشمیر کا
اہم فریق بھی۔ اس لئے پاکستان پر کشمیریوں کی نظریں لگی ہیں کہ وہ کس طرح
تحریک آزادی کے لئے معاون و مددگار بننے میں مزید جدید طرز خطوط پر تحریک
کو استوار کرنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
کشمیر کے ساتھ یک جہتی کا تقاضا ہے کہ کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایسے
سائینسی خطوط پر استوار اور منظم و مربوط کیا جائے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو
کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ عالمی دباؤ کے
بغیر ناممکن ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ، او آئی سی، عرب لیگ،ایس سی او،سارک
اور دیگر پلیٹ فارمزکشمیر کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
بھارت کی کوشش ہے کہ مسلہ عالمی سطح پر اجاگر نہ ہو۔ بلکہ پاک بھارت قیادت
مل کر اسے حل کرے۔ اس کا مقصد ہی مسلہ کو عالمی مسلے سے نکال کر دو طرفہ
علاقائی مسلہ بنا دیا جائے۔ لیکن کشمیر کے ساتھ یک جہتی کے لئے عالمی اور
بھارتی رائے عامہ کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جدوجہد
آزادی کے شہداء کے بچے، بیوائیں، زہنی اور جسمانی طور ناکارہ اور مفلوج کئے
گئے ہزاروں افراد، اپنے گھرو بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے بھی خصوصی توجہ
کے مستحق ہیں۔ |