پوشیدہ صلاحیتوں کی پہچان
(Abdus Saboor Shakir, Toba Tek Singh)
پوشیدہ صلاحیتوں کی پہچان
زندگی جہد مسلسل کا نام ہے. یہاں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے چند امور
کو مدنظر رکھنا ضروری ہے. ورنہ یہ جہد بہت جلد ناکامی کا شکار ہو جاتی ہے.
ان امور میں سب سے اہم اپنی ذات، اپنے آپ اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو
پہچاننا ہے.
کتنے ہی لوگ ایسے تھے جو گودڑیوں میں چھپے ہوئے لعل تھے،اپنے آپ کو پہچاننے
میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے، نتیجۃ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے، آج
ان کے نشان تک کا کوئی پتہ نہیں.
میں ایک ان پڑھ موٹر سائیکل مکینک، منظور حسین کو جانتا ہوں جس نے اپنے
علاقے میں لگے ایک ٹیلی نار ٹاور کے نقص کو صرف آدھے گھنٹے میں درست کر دیا
تھا، جبکہ بڑے بڑے انجینئر اس خرابی کو دور کرنے میں ناکام ہو چکے تھے.
آج منظور حسین گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑا ہے، غربت اس کے گھر والوں
کو لکڑیاں چن، بیچ کر گزارا کرنے پر مجبور کر رہی ہے.
درج ذیل چند ایسے اصول ہیں جنہیں اپنا کر انسان اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں
کو پہچان سکتا ہے، پھر انہیں بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے سامنے اپنے آپ کو
منوا سکتا ہے، نیز اپنی منزل مقصود پر بہت تیزی سے پہنچ سکتا ہے.
وہ اصول و ضوابط یہ ہیں:
دلچسپیوں کی پہچان:
سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ انسان اپنی دلچسپیوں کا جائزہ لے، کہ مجھے کون
سا کام اچھا لگتا ہے؟
مثلاً بعض آدمیوں کو کھانا بنانے میں بڑا مزہ آتا ہے، طرح طرح کی ڈشز تیار
کرنے اور انہیں سرو کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے تو اس آدمی کو پہچان لینا
چاہیے کہ اس میں باورچی بننے کی عمدہ صلاحیت ہے
اسی طرح بعض لوگوں کو پڑھنے، لکھنے اور لکھی چیزوں پر جائزہ لینے کی عادت
ہوتی ہے، ایسے آدمیوں میں لکھاری بننے کی صلاحیت موجود ہے، اسے لکھاری بننے
کی کوشش کرنی چاہیے
تسکین کا ذریعہ:
یہ پہچاننے کے لیے کہ مجھ میں کس کام کو کرنے کی بہترین صلاحیت ہے؟
تو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مجھے کون سا کام کر کے سکون ملتا ہے؟
مثلاً
میں کوئی حوالہ تلاش کر رہا ہوں، اور اس حوالہ کو تلاش کرتے ہوئے مجھے کئی
دن لگ گئے، بالآخر مجھے وہ حوالہ مل گیا، اب مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر
کوئی لاکھ روپے بھی دیتا تو اتنی خوشی نہ ہوتی؛ سمجھ لینا چاہیے کہ مجھے
محقق بننا چاہیے کیونکہ مجھ میں اس کی بدرجہ اتم صلاحیت موجود ہے.
ہر کام پر فوقیت :
اگر قدرتی طور پر میں کسی کام کو بلا وجہ فوقیت دے رہا ہوں تو سمجھیے مجھے
اس کام میں دلچسپی ہے اور یہی وہ کام ہے جو مجھے کرنا چاہیے کیونکہ مجھ میں
اس کام کے کرنے کی صلاحیت موجود ہے.
نیز جاننا چاہیے کہ زندگی میں اپنی دل چسپی کے کام کرنے اور ان میں محنت
کرنے پر شرعاً کوئی پابندی نہیں ہے، کیا دیکھتے نہیں؟ حضرت یوسف علیہ
السلام نے اپنی دلچسپی کی چیز حکومت مانگ لی تھی کیونکہ وہ اس کام کو بہتر
طریقے سے سر انجام دے سکتے تھے، اور انہیں اپنی اس صلاحیت کا ادراک بھی
تھا.
اور امام ابویوسف رحمہ اللہ نے عہدہ قضا کی پیشکش قبول فرما لی تھی، کیونکہ
وہ اس کام کو بہتر میں انداز میں کر سکتے تھے اور کیا بھی.
لہذا ہمیں اپنے آپ کو پہچاننے میں دیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ آج اور ابھی
اپنا کام شروع کر دینا چاہیے،
اللہ کی مدد پہلا قدم اٹھا دینے والوں کے ساتھ ہوتی ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے
|
|