جنونیت کا خمیازہ
(Tariq Hussain Butt, UAE)
اگر ہم دوسری جنگِ عظیم کا طائرانہ جائزہ
لیں تو اس میں جر منی کے ہٹلر اوراٹلی کے مسو لینی کی باہمی رفاقت اور
دوستی سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ان دونو ں قائدین کے درمیان ہوسِ ملک
گیری کی قدر مشترک تھی اور ان کی اس قدرِ مشترک نے دنیا کا جینا حرام کر
رکھاتھا۔انھوں نے اس دنیا کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا تھا جس میں کروڑوں
انسان لقمہِ اجل بن گئے تھے۔اس دور میں کمزور اور چھوٹی اقوام کیلئے زندہ
رہنا محال ہو گیا تھا کیونکہ جرمنی اور اٹلی کے فاشزم اور نازی ازم کا
مقابلہ کرنا ان کی بساط سے باہر تھا ۔کمزور اقوام کی حالت تو یہ تھی کہ وہ
ایک ایسے شکار کی مانند تھیں جن کی زندگی کی ڈور ہٹلر و مسولینی کے ہاتھوں
میں تھی ۔علامہ اقبال نے اگر چہ مسلم اقوام کے لئے لکھا تھا کہ کمزوری
غلامی کا ہی دوسرا نام ہے لیکن اس کا اطلاق ان یورپی اقوام پر بھی ہوتا تھا
جو ہٹلرو مسولینی کی ملکِ ہوسی گیری کے زیرِ عتاب تھیں اور ان کا مقابلہ
کرنے سے قاصر تھیں۔سچ تو یہ ہے کہ وہ دونوں قائدین جب چاہتے اور جہاں چاہتے
اپنے جارحانہ افعال سے کسی بھی مخصو ص خطے کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیتے
تھے۔ ان کے لئے نہ تو کسی اخلاقی معیار کی کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی اقوامِ
عالم کے باہمی ضمیر کی کوئی وقعت تھی۔ان کی فوجی قوت ہی ان کے سارے اعمال
کے جائز ہونے کا واحد پیمانہ تھی۔سارا یورپ ان دونوں ممالک کی فوجی قوت سے
لرزاں تھا اور ان سے تحفظ چاہتا تھا لیکن کسی میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ
انھیں تحفظ فراہم کر نے کی جسارت کرتا۔دنیا میں بقائے باہمی کا بنیادی اصول
تو یہی ہے کہ کمزور اقوام کو بھی با عزت زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا جائے
اور انھیں کسی عالمی ادارے کی وساطت سے یہ حق تفویض کیا جائے لیکن اگر طاقت
ورممالک یہ تہیہ کر لیں کہ انھیں ہی اس کرہِ ارض کی تقدیر کے فیصلے کرنے
ہیں تو پھر کمزور اقوام کے پاس ان بڑی طاقتوں کا حاشییہ بردار بننے کے سوا
کوئی چارہ کار باقی نہیں بچتا۔چشمِ فلک اس طرح کے نظارے کئی باردیکھ چکی ہے
جس میں ہر طاقتور کمزور کو مغلوب کرتا ہے اور اس پر اپنے فیصلے مسلط کرتا
ہے۔کمزور کو یہ فیصلے ماننے پڑتے ہیں کیونکہ اس کی بقا اور سالمیت اسی میں
ہوتی ہے کہ وہ طاقتور کے سامنے جھک جائے ۔فرض کریں کہ کمزور ملک ایسا نہیں
کرتا تو پھر اس کی مملکت میں بد امنی کے بیج بوکر اس کے حصے بخرے کر دئے
جاتے ہیں۔کئی موقع پرست راہنما ان ممالک کے رابطے میں ہوتے ہیں لہذا جیسے
ہی انتشار اور بد امنی ملک میں سر ابھارتی ہے تو یہ بغلی بچے سامنے آ کر
ملکی سالمیت کو داؤ پر لگا د کر اقتدار کی مسند کا سودا کرتے ہیں ۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے۔،۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
اگر چہ یورپ بنیادی طور پر چند چھوٹے چھوٹے ممالک کا ایک مجموعہ ہے لیکن اس
کے باوجود انگلستان ،فرانس ، سپین چند بڑے ممالک تھے جو ہٹلر و مسولینی کی
حریصانہ سوچ کو شکست دے سکنے کی اہلیت رکھتے تھے لیکن ہٹلر کی شعلہ بیانیاں
اور مسولینی کی آتش فشانیاں دنیا کو ایک اور ہی نظارہ دکھا رہی تھیں۔وہ
فاتح عالم بننا چاہتے تھے اور پوری دنیا کو اپنے قدموں میں سر نگوں کرنا
چاہتے تھے۔ان کا احساسِ تفاخر اور زعمِ بر تری کسی کو بھی خاطر میں لانے
کیلئے آمادہ نہیں تھا۔انھیں دانشوروں اور حاملِ عقل و دانش طبقات نے بہت
سمجھانے کی کوشش کی لیکن ان کے دماغ میں جو خناس تھا اس نے کسی کی بات سننے
اور ماننے سے انکار کردیا۔علامہ محمد اقبال دوسری جنگِ عظیم سے ایک سال قبل
اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے لیکن انھیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ
یورپی قیادت وطن پرستی کے زہر سے انسانیت کو قتل کرنے سے باز نہیں آئیگی ۔
اس وقت جمعیتِ اقوام تھی اور اس کا فرضِ اولین جنگ کے شعلوں کو بھڑکنے سے
روکنا تھا لیکن طاقت کے نشے میں دھت ہٹلرو مسولینی ہر چیز کو طاقت کے ترازو
میں تول رہے تھے لہذا جمیعت ِ اقوام نوحہ خوانوں کا ایک ایسا پلیٹ فارم تھا
جو اپنی افادیت کھو چکا تھا۔علامہ اقبال نے وطن پرستی کو ایک ایسے خدا سے
تشبیہ دی تھی جو انسانیت کے قتل کا فریضہ سر انجام دینے کیلئے بیتاب تھا ۔علامہ
اقبال کو یقین تھا کہ یورپ کی تباہی اس کی وطن پرستی کی سوچ میں مضمر ہے
لیکن اس کے علمبردار اسے تریاق سمجھ کر اس کی پوجا کر رہے تھے۔وہ اس سوچ کو
ایک ایسے پیرہن سے تشبیہ دے رہے تھے جو مذہب کا کفن ثابت ہوگی ۔ان کی آواز
پر کسی نے دھیان دینے کی زحمت گوارا نہ کی کیونکہ لوگ وطن پرستی کے جذبوں
سے سرشار تھے ۔لوگ انسانیت کی عظمت کی بجائے وطن کی عظمت کے گیت گارہے تھے
اور اپنے ملک کی بنیادیں کسی اصول اور نظریہ پر رکھنے کی بجائے وطن کی محبت
پر رکھ رہے تھے ۔جب وطن مذہب سے زیادہ عزیز اور مقدم ٹھہرا تو پھر انسانوں
کے درمیان مذہب کی عطا کردہ قدرِمشترک ملیا میٹ ہو کر رہ گئی ۔ شائد یہی
وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنی مجوزہ اسلامی ریاست کی بنیادیں دینِ اسلام
کے سنہری اصولوں پر استوار کیں اور برِ صغیر میں ان کی یہ فکری راہنمائی دو
قومی نظریہ کے تحت وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کی اساسی دستاویز قرار
پائی۔ترقی پسند حلقے تو ابھی تک دو قومی نظریے کی حقانیت سے انکار کرتے چلے
آ رہے ہیں لیکن یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کی گواہ مملکتِ پاکستان ہے۔جب تک
یہ ملک دنیا کے نقشے پر قائم ہے دو قومی نظریہ بھی اپنی پوری توانائیاں اور
ضو فشانیوں کے ساتھ زندہ رہے گا۔اسے فراموش کرنے,متنازعہ بنانے اور بے وقعت
کرنے میں ترقی پسندوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن نقار خانے میں طوطی
کی آواز کون سنتا ہے۔،۔
تمھاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گا۔،۔جو شاخِ نازک پہ آشیاں بنے
گا ناپائیدار ہو گا
موجودہ دور میں ایک دفعہ پھر ماضی کے ان کرداروں سے ملتے جلتے دو کردار
ہماری نگاہوں کے سامنے ہیں جھنیں قدیم کرداروں کا عکس قرار دیا جا سکتا ہے
۔یہ دونوں نئے کردار ڈولنڈ ٹرمپ اور نریندر مودی ہیں جو اس دنیا کو انتشار
اور بد امنی کا گھڑھ بنانا چاہتے ہیں۔ دونوں میں قدرِ مشترک اسلام دشمنی ہے
۔ دونوں اسلام اور دھشت گردی کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے ہیں۔ان کا حدف
اس دنیا سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا اور بے آبرو کرنا ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ نے
اپنے حالیہ حکم نامے میں جس طرح مسلم اقوام کو للکارا ہے وہ کسی سے مخفی
نہیں ہے۔اس نے سات ممالک کی ایک فہرست جاری کی ہے جن کے شہریوں کا امریکہ
میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سارے ممالک
اسلامی ہیں حالانکہ دھشت گردی کے واقعات تو ان ممالک میں بھی ہوتے ہیں جو
مسلمان نہیں ہیں۔جہاں تک جرائم کا تعلق ہے تو امریکہ اس میں سرِ فہرست ہے
اور پھر اسلامی ممالک میں جو لوگ دھشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث پائے جاتے
ہیں ان کے روابط بھی بھارت اور امریکہ سے جا کر ملتے ہیں لہذا ثابت ہوا کہ
وہ جسے ہم دھشت گردی کا آسیب کہتے ہیں اس کی سر پرستی بھی امریکی اور
بھارتی لابی کرتی ہے۔مقصد چونکہ مسلمانوں کو دھشت گرد ثابت کرنا ہے لہذا
ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں اپنے حاشیہ برداروں کی مدد سے انتشار کے بیج
بوئے جائیں تا کہ اگر مستقبل میں ان ممالک میں فوجی کاروائی کی نوبت آ جائے
تو وہ چند غدار جو ان کی صفوں میں زبردستی شامل کئے گئے ہیں آگے بڑھ کر ان
کے گیت گائیں اور ان کے ہراول دستے کا رول ادا کریں۔فی الحال ابھی تو سات
اسلامی ممالک کو اپنی حکمتِ عملی کا مرکز بنایا گیا ہے لیکن اگر اس طرح سے
مسلمانوں کو خوف زدہ نہ کیا جا سکا توپھرافغانستان ،پاکستان اورسعودی عرب
کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جوکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ
بن سکتا ہے اور جس کا انجام انسانیت کی تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہو
سکتا۔کیا ایسا ممکن ہوگایا یہ ایک خواب ہی رہیگا؟ |
|