ٹرمپ صاحب! خدارا مودی نہ بنیں!

امریکا کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم دشمنی سے متعلق خدشات ایک ایک کر کے پورے ہوتے جارہے ہیں اور الیکشن میں مسلمانوں کے خلاف لگائے گئے نعرے حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کا ’’بادشاہ‘‘ بننے کی دوڑ میں اترنے کے لیے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ’’دشمن‘‘ کے خلاف ’’جنگ‘‘ کے عنوان سے کرتے ہی اسلام و مسلمانوں پر تابڑ توڑ ’’حملے‘‘ کردیے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ صدر بننے کے بعد امریکا میں موجود تمام مساجد کو بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کا عندیہ دیا تھا اور مساجد اور مسلمانوں کی نگرانی اور مسلمانوں کے رجسٹریشن ڈیٹابیس کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ ان کے بیانات کی وجہ سے امریکا سمیت دنیا بھر میں ان کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور ان کے خلاف بڑی سطح پر مظاہرے ہوئے۔ دنیا بھر کے تجزیہ کاروں اور مبصرین کا خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی مہم کے دوران مسلمان دشمنی پر مبنی بیانات صرف انتخاب جیتنے کے لیے دے رہے ہیں، لیکن عہدہ صدارت پر متمکن ہونے کے بعد عہدے کی ذمہ داریوں کے پیش نظر خود ہی مسلم کش پالیسی کو ترک کردیں گے، لیکن تمام مبصرین و تجزیہ کاروں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا اور ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے بعد بھی اپنی جارحانہ اور اتنہاپسندانہ پالیسی کو جاری رکھے ہوئے بھارت میں مسلم دشمنی کی بنیاد پر الیکشن جیت کر مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندی کو فروغ دینے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد امریکا میں اسی طرح مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا جیسے بھارت میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندانہ واقعات میں اضافہ ہوا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے’’امریکا میں مساجد کو بند کرنے‘‘ انتخابی نعرے کو عملی شکل انتخابی مہم کے دوران ہی ملنا شروع ہوگئی تھی۔ امریکا میں مساجد کو آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اب تک کئی مساجد کو آگ لگائی جاچکی ہے، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد مسلمانوں پر پابندی لگا کر انتخابات میں کیے گئے اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ صدارت کو سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد 27 جنوری کو نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرکے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو معطل کرتے ہوئے 7 مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کردی، جبکہ مسلم تارکین وطن کے ملک میں داخلے پر پابندی کے بعد واشنگٹن نے پاکستانیوں کے لیے بھی ویزے بند کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ امریکا میں پابندی کے خدشے کے پیش نظر امریکا میں مقیم پاکستانی شہری خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، جبکہ دیگر مسلمان ملکوں کے شہری عملی طور پر غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع ایگزیکٹو آرڈر کے بعد دنیا بھر کے مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ، عالمی و امریکی رہنماؤں اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور امریکا سمیت دنیا بھر میں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے عہدہ صدارت کا حلف اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے خطاب میں امریکا کو عظیم ملک بنانے کا اعلان کیا ہے، جو اسی صورت ممکن ہے، اگر وہ اقوام کے ساتھ انصاف کے تقاضوں پر پوری طرح عمل کریں، لیکن عملی طور پر وہ انصاف کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلام اور مسلمان دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ان کو مسلمانوں کو بھی اسی پلڑے میں تولنا چاہیے، جس پلڑے میں تمام مسلمان ممالک امریکی شہریوں کو تولتے ہیں۔ مسلمان ممالک امریکی پالیسیوں کی وجہ سے دہشتگری کا گڑھ بن چکے ہیں۔ امریکا نے مسلمان ملکوں میں دہشتگرد تنظیموں کو تعاون فراہم کیا اور خود افغانستان، عراق، یمن، شام اور پاکستان میں حملے کر کے ان ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے، جس کی وجہ سے مسلمان ملکوں کے لاکھوں شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ امریکا کی جانب سے لاکھوں مسلمانوں کے قتل کے باوجود کسی مسلمان ملک نے امریکی شہریوں کے داخلے پر پابندی عاید نہیں کی، لیکن امریکی صدر اسلام کا نام استعمال کر کے دہشتگردی کرنے والے چند سر پھرے لوگوں کی وجہ سے متعدد مسلمان ملکوں کے تمام شہریوں پر پابندی عاید کر رہے ہیں۔ چند لوگوں کے جرم کی سزا سارے مسلمانوں کو دینا کہاں کا انصاف ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بجا کہا ہے کہ ’’کسی کو اچھا لگے یا نہ لگے، لیکن دنیا کی ڈیڑھ ارب سے زیادہ آبادی مسلمان ہے اور اگر ان میں سے چند سو مسلمان بھٹکے ہوئے ہیں اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں تو اس کا الزام ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ دنیا میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ نشانہ مسلمان بنے ہیں اور دہشت گرد ہونے کا الزام بھی مسلمانوں پر لگا ہے‘‘ اور جب دہشتگردی کو فروغ دینے والا ملک بھی جناب ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنا ہی ہو تو پھر مسلمان ملکوں کے باشندوں پر پابندی عاید کرنا کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔

حالات وا قعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلمانوں کے خلاف مہم میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے نقش قدم پرعمل پیرا ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مسلم دشمنی کے نعرے پر اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اور جب انتخابات میں کامیاب ہوئے تو کھل کر پاکستان اور مسلم دشمنی کو فروغ دیا۔ نریندر مودی کے دور میں انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ ان کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں قتل کیا گیا۔ بھارت میں گئے پاکستانی مہمانوں پر حملے کیے گئے۔ مسلمان، سکھ، عیسائی اور بدھ مذہب کے پیروکاروں سمیت تمام اقلیتوں کے لیے زندگی مشکل بنا دی گئی۔ وہ بھارت جو سیکولر آئین کا دعویدار تھا، مودی سرکار کے آنے کے بعد اس کا چہرہ مسخ ہوا اور اب انتہا پسند ہندو بھارت کی پہچان ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ شاید بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے متاثر ہیں اور ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ تجزیہ کار انتخابی مہم کے دوران ہی ڈونلڈ ٹرمپ کا جھکاؤ بھارت اور مودی کی جانب محسوس کرچکے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دیوالی کے موقع پر ہندی میں ایک اشتہار بھی جاری کیا تھا، جس میں ٹرمپ نے وہی جملہ استعمال کیا تھا، جو نریندر مودی نے 2014ء کی انتخابی مہم میں استعمال کیا تھا۔ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کے نعرے کے ساتھ مذکورہ اشتہار میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستانی رہنماؤں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے پرامید ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو اپنا سچا دوست قرار دے چکے اور نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ ایک دوسرے کو اپنے اپنے ملکوں کا دورہ کرنے کی دعوت دے چکے ہیں۔امریکی صدر کو بھارتی وزیر اعظم کی طرح انتہا پسندی، مسلم دشمنی اور تباہی کی راہ پر چلنے کی بجائے انصاف اور اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے مسلم دنیا میں امریکی کی جانب سے لگائی ہوئی بدامنی کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنی چاہیے، بصورت دیگر انتہاپسندی بڑھے گی اور امریکا خود بھی اس آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701302 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.