خبر تھی کے راولپنڈی کا واحد کار پارکنگ پلازہ ڈیڑھ
کروڑ روپے کی آفر کو ٹھکرا کر پچاسی لاکھ میں دے دیا گیا۔کہا گیا کہ کمشنر
کے پاس ٹھیکے دار نے درخواست دی کہ بولی دہندگان نے مک مکا کر کے ٹھیکہ کم
رقم میں لے لیا ہے جس کے نتیجے میں کمشنر نے کاروائی روک دی۔پھر اس کے بعد
چراغوں میں روشنی نہ رہی کچھ عوامی نمائیندے اس کار خیر میں داخل ہو گئے
اور پچاسی لاکھ والا اب ٹھیکے داری کر رہا ہے۔
قارئین سچ پوچھیں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ہر سطح پر پانامے بنے ہوئے
ہیں۔میں نے پانچ ماہ پہلے بھی لکھا تھا کہ کرپشن اس قوم کا مسئلہ نہیں ہے۔
اس قوم کا بھکاری سب سے بڑا کرپٹ ہے جو آپ کو مجبور دیکھ کر ذلیل و خوار کر
کے رکھ دے گا۔پٹرول مہنگا ہوا تو کیا ویگن والا سواری کو نشانے پے رکھ لے
گا سواری اگر سبزی فروش ہے تو اس کے گاہک نشانہ بن جائیں گے۔سکول کالج فیس
بڑھا دیں گے بس یہی کچھ ہو گا بابو رشوت کے ریٹ بڑھا دے گا۔ٹیکس دینا نہیں
بجلی کے بلوں کے ذریعے کالنگ کارڈز گیس پانی پر اندھے ٹیک بڑھ جائیں گے۔یہ
وہ قوم ہے جو مدتوں سے کرپشن کو اوپر کی کمائی سمجھ کر کھا رہی ہے حتی کے
وچولنوں نے بھی کہا تھا منڈے دی تنخواہ تے تھوڑی ہے پر اتوں اﷲ دی مہربانی
بڑی ہے(رشتہ کرانے والیوں نے کہا کہ لڑکے کی تنخواہ تھوڑی ہے مگر اوپر سے
اﷲ کی مہربانی بہت ہے)
عمران خان یہ کیس جیت بھی جائے تو اس ملک سے چوری اور ٹھگی میں کمی نہیں ہو
گی۔آپ اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں ہم انہی لوگوں کو منتحب کرتے ہیں جن کی
گاڑیاں لمبی اور اونچی ہوتی ہیں۔اس ملک کا غریب جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں
میں ڈوبا ہوا ہے۔گیس پانی اور بجلی نہیں ہے غربت گوڈے گوڈے ہے لیکن پھر بھی
اسی تلنگے کا ووٹ ہے جس نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔اسلام آباد کے
متآثرین کی حالت زار پر پچھلے دنوں اسد عمر جب اسمبلی میں بات کر رہے تھے
اور کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں سے زمین ہتھیانے کا وہ ظالمانہ نظام ختم کیا
جائے تو اس کی مخالفت ایک فاضل وزیر نے کی جو اسلام آباد سے ہی منتحب ہوئے
ہیں۔مجھے کسی اور کی مثال نہیں دینی ملک فہد بن عبدالعزیز کے دور میں ایک
بوڑھی عورت نے حرم مکہ کی توسیع کے لئے زمین دینے سے انکار کر دیا کہ اﷲ کی
پوری دنیا پڑی ہے میری زمین کیوں چھینی جا رہی ہے۔ ملک فہد ان کے گھر گئے
اور انہیں منہ مانگی قیمت دینے پر راضی کیا اور پھر حرم مکہ کی توسیع
ہوئی۔اس ملک میں سب اچھا نہیں ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ لوگ ووٹ دیتے وقت
معیار مختلف رکھتے ہیں۔گجرانوالہ کے شہری گزشتہ تین سالوں سے سخت عذاب میں
ہیں ۔سیالکوٹ لاہور بائی پاس کے پاس ایک پل بن رہا ہے اس پل کی تعمیر اس
قدر آہستہ کی جا رہی ہے پبلک ذلیل و خار ہو رہی ہے لیکن اسے صرف اس وجہ سے
نہیں بنایا جا رہا کہ عین انتحابات کے وقت اسے کھولا جائے تا کہ ووٹ سمیٹے
جائیں۔یہ تو اس شہر کا حال ہے جہاں سے ایک بہترین سلجھا ہوا پڑھا لکھا
نوجوان وزیر ہے باقی شہروں میں کیا ہو رہا ہو گا۔اﷲ ہی جانے۔مجھے دکھ اس
بات کا ہے کہ میں یہ تو چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم کرپشن نہ کرے وہ اس ملک کو
نہ لوٹے اس کے بچے حلال کی روزی کھائیں مگر خود میری حالت ہے کہ گاڑی کھڑی
کرنے والی جگہ پر کرپشن کرتا ہوں پارکنگ کے ٹھیکوں میں ہیرا پھیری ہوتی
ہے۔بچوں کو جب پڑھاتا ہوں تو بھینسا بن جاتا ہوں۔حضور یہ سچ ہے کہ لوگ اپنے
بادشاہوں کا طریقہ اپناتے ہیں لیکن یہ بھی تو سچ ہے کہ ہم بادشاہ اپنے ہی
لوگوں سے منتحب کر کے بھیجتے ہیں۔کیا ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ جب بس پر
چڑھیں قطار بنا لیں بینک میں جائیں تو لائن میں لگ جائیں۔پٹرول بیچیں تو
پوار دیں۔یقین کیجئے لوگ اس وجہ سے سڑکوں پر نہیں نکلتے کہ انہیں خود علم
ہے کہ وہ غلط ہیں اپنی اپنی جگہ پر ایک چھوٹے پانامہ میں الجھے ہوئے ہیں۔ہر
سمت ہر جگہ پانامے لوگ۔
معاف کیجئے گا کہ نظام عدل میں جو ایک تماشہ مدت سے جاری ہے کیا یہ ہمارے
انصاف کے ادارے پر ایک سوال نہیں اٹھاتا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے سات ملکوں کے لوگوں
پر پابندی لگائی عدالت کے جج نے اس کے فیصلے کو بیک جنبش قلم مسترد کر دیا
پوری قوم سڑکوں پر آ گئی اور اس نے اعتراف کیا کہ غلطی ہماری ہے کہ ٹرمپ کو
منتحب کیا۔جناب ہمارے ججوں کو امریکی عدالتوں کے فیصلوں کو سامنے رکھنا ہو
گا جو فیصلہ دینا ہے اسے دیں قوم کو ہیجانی کیفیت سے نکالیں۔عمران خان کو
بس اتنا ہی کہنا ہے کہ نتیجے لانا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے کوشش کرنا آپ کا
فرض ہے۔آپ نے صبح شام ایک کی ہم تو سردیوں کی صبح کمبلوں اور رضائیوں سے
دوستی نبھاتے ہیں آپ نکلے سر عام نکلے اﷲ آپ سے کوشش کا پوچھے گا اس نے یہ
نہیں پوچھنا کہ کیس جیتے یا نہیں اور میرا اﷲ ان منصفوں سے یہ بھی پوچھے گا
کہ آپ کو جو طاقت دی تھی اس کا استعمال کیسے کیا؟شب و روز کے تماشے ہو رہے
ہیں جج بیمار ہو گیا تو پوارا نظام عدل بیمار ہو گیا وکیل نے چھٹیاں مانگ
لیں تو سب کچھ بند ۔ریٹائرمنٹ کے بیس دن رہ گئے پہلے پوری کاروائی سنی بعد
میں یاد آیا میں تو گھر جا رہا ہوں۔می لارڈ امریکیوں کے طرز زندگی اٹھک
بیٹھک ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہے ان کے فیصلے دینے والوں کے طرز عمل کو
بھی اپنائیے۔اس قوم کو ایک کھیل اور تماشے پر لگانے کی بجائے تعمیری کام پر
لگائیے۔پانامہ گردی کی شکار قوم یقین کیجئے اب مطالبہ کرتی ہے کہ ہم تو خود
یہ کام کریں گے ہمارا سدھرنے کا کوئی ارادہ نہیں اب ہم اس کیس کی طوالت سے
تنگ آ چکے ہیں ہمیں کوئی اور ٹرک دکھایا جائے کہ جس کے پیچھے لگ جائیں۔ خبر
تھی کے راولپنڈی کا واحد کار پارکنگ پلازہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی آفر کو ٹھکرا
کر پچاسی لاکھ میں دے دیا گیا۔کہا گیا کہ کمشنر کے پاس ٹھیکے دار نے
درخواست دی کہ بولی دہندگان نے مک مکا کر کے ٹھیکہ کم رقم میں لیا گیا جس
کے نتیجے میں کمشنر نے کاروائی روک دی۔پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ
رہی کچھ عوامی نمائیندے اس کار خیر میں داخل ہو گئے اور پچاسی لاکھ والا اب
ٹھیکے داری کر رہا ہے۔قارئین سچ پوچھیں ۔مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ہر سطح
پر پانامے بنے ہوئے ہیں- |