عمران خان کاجامعہ فاروقیہ کا تعزیتی عمران خان کاجامعہ فاروقیہ کا تعزیتی دورہ
(M Jehan Yaqoob, Karachi)
عمران خان نے جامعہ فاروقیہ کاتعزیتی دورہ کیا،ورنہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان جیسی عبقری شخصیت کے انتقال کے بعد صدر ،وزیراعظم سمیت اہم شخصیاتکراچی آئیں ،لیکن کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ جامعہ فاروقیہ جاکر سوگواروں کو پرسہ دے ،یوں غالباًعمران خان کسی سیاسی جماعت کے واحد اور پہلے لیڈر ہیں جو جامعہ فاروقیہ شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان رحمہ اللہ کی تعزیت کے لیے آئے۔اس وفد میں ہم بھی شامل تھے ۔خان کے قافلے میںپی ٹی آئی سندھ اورکراچی کے صدورسمیت کراچی کی پوری کیبنٹ شامل تھی،حضرت شیخ کے صاحب زادے اور الفاروق کے مدیر حضرت مولاناعبیداللہ خالداوردیگرانتظامیہ نے وفدکااستقبال کیا۔عمران خان نے جامعہ فاروقیہ اور حضرت شیخ سے اپنی قلبی وابستگی کا تذکرہ کیا ،ان کے انتقال کو بہت بڑا نقصان اور پس ماندگان کے دکھ کواپنا دکھ قراردیا۔ |
|
پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کی ایک بڑی
سیاسی قوت ہے۔عمران خان نے سیاست کی خاردار وادی میں جب قدم رکھا تھا تو
''تبدیلی''کا نعرہ دیا تھا۔یہ نعرہ اہل وطن بالخصوص نئی نسل کو بہت اچھا
لگا اور نوجوانوں نے تو تحریک انصاف کے یوں گن گانا شروع کردیے کہ مستقبل
کے مسیحا عمران خان ہی معلوم ہوتے تھے۔عمران خان اس کوچے میں نئے تھے ،سو
ہچکولے کھاتے اور ڈ وبتے ابھرتے رہے،جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
کے مصداق ان کے مشیران بے تدبیر نے ان کی سیاسی میدان میں پیش رفت کے
ابھرتے سورج کو گہنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،کچھ مسترد شدہ عناصر اور
میدان سیاست کے ہارے ہوئے جواری اس غرض سے بھی تحریک انصاف کی کشتی میں
آبیٹھے کہ نیّاپار لگ گئی تو ان کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے،ورنہ
نیآاڈبونے میں تو ان کا ویسے ہی کوئی ثانی نہیں۔ایسے عناصر کے ہاتھوں عمران
خان نے کئی زخم کھائے اور اب بھی وہ ایسے متعدد عناصر کے نرغے میں معلوم
ہوتے ہیں۔کراچی میں یہ فضا تاحال برقرار ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے
سینئر ترین راہ نما ،جن میں محمد اشرف قریشی،سید نیاز شاہ اور دیگر شامل
ہیں،جنھوں نے خان کو کراچی میں اس وقت متعارف کرایا جب یہاں کسی جماعت کے
لیے جلسہ تو دور کی بات،کارنر میٹنگ کرنا بھی جرم بنادیا گیا تھا،عملاًغیر
فعال ہوچکے ہیں۔
انھی عناصر کی مہربانیاں تھیں کہ کبھی تو عمران خان کو ''طالبان خان''کے
القاب سے نوازا گیا اور کبھی ایسی بھی نوبت آئی کہ کچھ ''عاشقان رسول
ۖ''انھیں گستاخ رسول ۖ کہہ کر بھی ان کے پیچھے ڈنڈے سوٹے لے کر نکل کھڑے
ہوئے۔وہ تو ان کی سیاسی مقبولیت آڑے آگئی ،ورنہ کسی ایئر پورٹ پر ان کے
ہاتھوں خان صاحب کی بھی وہ گت بن سکتی تھی جو مرحوم جنید جمشید کی بنائی
گئی تھی۔خان کو متعدد مرتبہ باقاعدہ اس بات کے بھی اعلانات کرنے پڑے کہ وہ
مسلمان ہیں اور ختم نبوت وشان رسالت ۖ پر ان کا بھی ویسا ہی ایمان ہے جیسا
کسی بھی عاشق رسول ۖ اور پکے مسلمان کا ہو سکتا ہے۔اب یہ عناصر شہید ممتاز
قادری کی برسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں ،تو خان کی کچھ جان چھوٹی ہے ،ورنہ
ممتاز قادری کی زندگی میں انھیں قانون کا باغی قرار دینے والے پیر افضل
قادری اور ممتاز قادری سے اعلان لاتعلقی کرنے والے مفتی حنیف قریشی،جو
شہادت کے بعد سب سے پہلے ممتاز قادری کا جنازہ پڑھانے بھی پہنچ گئے
تھے،انھیں یوں آسانی سے شاید معاف نہ کرتے!
تحریک انصاف کوممّی ڈیڈی لوگوں کی جماعت سمجھا جاتا رہا،جس کی ٹھوس وجوہات
بھی ہیں،اب یہ فضا بھی تبدیل ہو رہی ہے۔خیبر پختونخوا میں آیات جہاد کو
داخل نصاب کرنے،سرکاری ملازمتوں میں فضلائے مدارس کے لیے گنجائش پیدا کرنے
،ناظرہ وترجمہ قرآن مجید کی تعلیم لازمی قرار دینے اور علماء کو پارٹی میں
نمایندگی دینے کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔خان کے ان دوراندیشانہ اقدامات
سے خیبر پختونخوا کی سیاست پر سالہا سال سے قابض جماعتوں کاسحر بھی دم
توڑتا جار ہاہے اور اب تو جمعیت علمائے اسلام کے تحریک انصاف کے قریب آنے
کی خوش کن خبریں بھی زیر گردش ہیں،اللہ کرے!یہ بیل منڈھے چڑھے۔اگر ایسا ہو
جاتاہے تو نہ صرف نون لیگ کا بوریا بستر گول ہوجائے گا ،بلکہ سرخ انقلاب کے
داعیوں کی کمیونسٹ سیاست بھی اپنی موت آپ مرجائے گی۔عوامی نیشنل پارٹی ہو
یا آفتاب شیرپاؤ کی عوامی پارٹی،انھیں اس بات کا ادارک ہو چکا ہے اور وہ
اپنے سیاسی مستقبل کے سلسلے میں کافی تشویش کا شکار ہیں۔
آج کل عمران خان کی گرفت پاناما لیکس پر دن بدن مضبوط ہوتی جارہی ہے اور
آنے والے انتخابات میں میاں صاحب کی سیاست کو گہن لگنے کے چانس ہیں۔ایسے
میں تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ اپنا ووٹ بینک بڑھائے ،مخصوص کلچر کے حصار
سے باہر نکل کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کرے۔ملک کے تمام طبقات کو باور
کرائے کہ آپ کے مسائل کو ہم اپنا مسئلہ سمجھتے اور اس کے حل کے لیے ایک
واضح ایجنڈا رکھتے ہیں۔''تبدیلی''کا نعرہ لے کر اٹھنے والوں کو اس حوالے سے
ابھی مزید در مزید تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔بہرحال اس جانب توجہ بھی بساغنیمت
اور نظرآنے والاہر قدم اطمینان بخش ہے۔
یہ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ عمران خان نے جامعہ فاروقیہ کاتعزیتی دورہ
کیا،ورنہ شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان جیسی عبقری شخصیت کے انتقال کے
بعد صدر ،وزیراعظم سمیت اہم شخصیاتکراچی آئیں ،لیکن کسی کو توفیق نہ ہوئی
کہ جامعہ فاروقیہ جاکر سوگواروں کو پرسہ دے ،یوں غالباًعمران خان کسی سیاسی
جماعت کے واحد اور پہلے لیڈر ہیں جو جامعہ فاروقیہ شیخ الحدیث مولاناسلیم
اللہ خان رحمہ اللہ کی تعزیت کے لیے آئے۔اس وفد میں ہم بھی شامل تھے ۔خان
کے قافلے میںپی ٹی آئی سندھ اورکراچی کے صدورسمیت کراچی کی پوری کیبنٹ شامل
تھی،حضرت شیخ کے صاحب زادے اور الفاروق کے مدیر حضرت مولاناعبیداللہ
خالداوردیگرانتظامیہ نے وفدکااستقبال کیا۔عمران خان نے جامعہ فاروقیہ اور
حضرت شیخ سے اپنی قلبی وابستگی کا تذکرہ کیا ،ان کے انتقال کو بہت بڑا
نقصان اور پس ماندگان کے دکھ کواپنا دکھ قراردیا۔
عجیب المیہ ہے کہ ہمارا سیکولر ولبرل طبقہ دینی طبقے کو شدت پسندی اور
محدود ذہنیت کا طعنہ دیتا ہے ،لیکن دینی شخصیات کی رحلت پر ان کا رویہ اس
بات کی غمازی کررہا ہوتاہے کہ اصل شدت پسندی اور محدود ذہنیت کہاں پائی
جاتی ہے۔وہ تعزیت کے دو بول تک بولنا گوار انہیں کرتے۔یہی مولانا سلیم اللہ
خان تھے جنھوں نے علالت کے باوجودسابق گورنر سندھ کے انتقال پر تعزیت کی
،اپنی ٹیم کو سوگواروں کے پاس بھیجا،لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب نے کراچی کے
دورے کے باوجود شاید جامعہ فاروقیہ کے دورے کی اس لیے ہمت نہ کی کہ کہیں
سیکولر لابی ان سے ناراض نہ ہوجائے۔اکثر سیاسی جماعتوں نے اپنی صوبائی
قیادت کو بھیج کر سمجھ لیا کہ فرض کفایہ ادا ہوگیا،حالاں کہ مولانا سلیم
اللہ خان قومی حیثیت کی حامل شخصیت تھے ،جن کے اہل وطن پر گوناگوں احسانات
ہیں،جن کا قرض نہیں چکایا جاسکتا۔ |
|