یوپی الیکشن :حلقہ ڈومریاگنج کی سیاست

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سعیدالرحمن عزیز

مستقبل قریب میں آنے والا وِدھان سبھا کا الیکشن بہت ہی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے تمام پارٹیاں اپنا اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیئے اَن تھک کوششیں کر رہی ہیں، گاؤں گاؤں گلی گلی جا جا کر ہر ایک سے ووٹ مانگنا، وعدے وعید کرنا، پیسوں کی لالچ، شراب کی لالچ دینا یہ سب عام بات ہے اور یہ چیزیں الیکشن کے وقت ہوتی رہتی ہیں۔ڈومریاگنج میں امیدواروں کی وہی پْرانی لسٹ جاری ہونی تھی لیکن اِس آنے والے الیکشن میں کچھ نئے چہرے وجود میں آئے ہیں اور کچھ پرانے امیدواروں نے پارٹی بدل لی ہے۔ڈومریاگنج میں ہمیشہ بی۔جے۔پی کی طرف سے کھڑے ہونے والے امیدوار پریم پرکاش عرف جِپّی تِواری نے بی۔جے۔پی چھوڑ کر دوسری پارٹی جوائن کر لی ہے۔جب کہ دوسری طرف سماج وادی کے پْرانے عمر دراز نیتا کمال یوسف کو ٹکٹ ہی سے محروم کر دیا گیا جس سے اْن کے چاہنے والوں میں غم و غصہ دکھائی دے رہا ہے،یہ بات یاد رہے کہ ابھی ماضی قریب میں ایم۔ایل۔اے کے عہدہ پر کمال یوسف ہی تھے جو پیس پارٹی کی طرف سے امّید وار ہوکر بہت سے ووٹوں سے کامیاب ہوئے تھے،اور جیتتے ہی پانسہ پلٹ دیا اور پھر سماج وادی میں چلے گئے حقیقت کیا تھی معلوم نہیں لیکن عوام میں غم و غصہ تھا کہ آخر ایسا دھوکہ کیوں دیا گیا کہ پیس پارٹی سے الیکشن جیتنے کے بعد واپس جانا پڑا؟ ابھی اکھلیش یادو نے اپنی ذات برادری کا خیال کر کے اپنے یادو بھائی کو الیکشن میں کھڑا کر دیا اور اب کمال یوسف کے عہد کا خاتمہ ہوگیا اگر چہ انھوں نے اپنے بیٹے عرفان ملک کو جانشین مقرر کیا ہے لیکن جو مَلکہ کمال یوسف کے اندر تھا وہ بیٹوں میں نہیں ہے اب اْن کے چاہنے والوں میں صرف مایوسی ہے بس اور کچھ نہیں،اکھلیش یادو نے فی الحال اپنی پارٹی کا ٹکٹ رام کمار عْرف چِنکو یادو کو دیا ہے کیوں کہ یہ یادو ہیں اور یادو واد سماج وادی کی پہچان ہے اور عادت بھی ہے پورا خاندان یادو سماج ہے اور عہدے دار بھی،صرف نام سماج واد رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا کام بھی بہتر ہونا چاہیے ایسا کام ہو جو سماج واد کہلا سکے اکھلیش دور میں ہونے والے فساد کو مسلمان بھْلا نہیں سکے آج بھی مظفر نگر کی گلیاں سْنسان اور مائیں بِلکتی ہونگی، بچے یتیمی کی کال کوٹھری کے نذر ہوگئے ہونگے،دادری کے قتل کو مسلمان نہیں بھولے جس میں ایک افواہ پر قتل کر دیا جاتا ہے اور اکھیلش حکومت کو سانپ سونگھ جاتا ہے،گایوں کے نام پر ظلم و بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے،خیر یہ سب تو ریاستی معاملات ہیں ہمیں ڈومریاگنج کے حالات پر نظر ڈالنا ہے اور یادو حکومت نے ایک یادو کو ڈومریاگنج سے کھڑا کر دیا ہے۔اور کانگریس نے سماج وادی کی حمایت بھی کی ہے اب ایسے معاملے میں یہ دیکھنا ہے کہ کیا چنکو یادو کمال یوسف کے ووٹ کو کھینچ پائیں گے؟اور کیا کانگریس کی حمایت کے بعد الیکشن جیت پائیں گے؟

یہ تو وقت بتائے گا کہ پیس پارٹی ڈومریاگنج سے الیکشن جیتنے کے بعد اور کمال یوسف کو وِدھایک بنانے کے بعد پچھلے الیکشن میں ہندو مسلمان مل کر پیس پارٹی کو جِتائے تھے وہ کیا اب کی بار بھی یکجْٹ ہونگے؟

پیس پارٹی کا ذکر آخر میں کیا جائے تو بہتر ہے، آئیئے دیکھتے ہیں بَسپا سے مایاوتی نے کیا گْل کھِلایا ہے، مایاوتی نے پچھلے کئی برس سے توفیق احمد کو اپنا ٹکٹ دیتی آئی ہے، توفیق کے ناگہانی وفات پر اْن کی بیٹی سیّدہ توفیق نے جگہ سمبھال لی ہے لیکن باپ تو باپ ہوتا ہے اْن کی صلاحیت دوسروں میں مشکل سے ہوتا ہے،سیّدہ خاتون کو ٹکٹ مل چکا ہے اور تگ ودو جاری ہے ووٹ کی تلاشی ہورہی ہے لیکن پچھلے الیکشن میں نسیم الدین صدیقی کی بد عہدی اور بے وفائی سب کو یاد ہے،توفیق احمد کی موت کے بعد ضمنی الیکشن میں خاتون توفیق جیت گئی تھیں اْس وقت نسیم الدین صدیقی مایاوتی کے دست راست نے بہت سے وعدے کرنے کے بعد بھی جب کچھ نہیں کیا تو بَسپا سے تمام لوگ بدظن ہوگئے اور وہ زخم اب بھی تازہ ہے اور اگر بیک گراؤنڈ دیکھا جائے تو مایاوتی بھی دودھ کی دھْلی نہیں ہیں اْن کی بھی مسلم دشمنی سامنے آچکی ہے لیکن اتنا ہونے کے باوجود بھی سماج وادی سے کچھ بہتر ہے جیسا کہ اِس سے پہلے کے مضمون میں بتایا گیا تھا۔بی، جے، پی نے ہمیشہ تفرقہ کا فائدہ اْٹھایا ہے یعنی کہ مسلمان، یادو،ہریجن،چمار اور دلت کے بٹ جانے پر سب سے زیادہ اگر کسی کا فائدہ ہوتا ہے تو وہ ہے بی،جے،پی۔اِس بار ڈومریاگنج سے بی، جے، پی کی طرف سے نیا چہرہ سامنے آیا ہے جن کا نام ہے راگھویندر سنگھ جو مسلم دشمن تنظیم ہندو ہوا واہنی کے عہدہ دار ہیں،

باقی بچی پیس پارٹی جو ڈومریاگنج علاقے کی دل و جان ہے اور یہ پارٹی کوئی مسلم پارٹی نہیں ہے بلکہ ہندو مسلم یکتا پارٹی ہے اور اِس موجودہ الیکشن میں اپنا امّید وار اشوک سنگھ کو بنایا ہے جو کہ ایک فعّال اور سماجی خدمت میں مشہور ہیں، ڈاکٹر ایوب کی پیس پارٹی آف انڈیا کے ہونے کی وجہ سے مجلس اتحاد المسلمین نے اپنا کوئی کنڈیڈیٹ کھڑا نہیں کیا کیوں کہ یہاں سے پیس پارٹی الیکشن لڑ رہی تھی اور ڈومریاگنج علاقے میں کافی شہرت ہے اور ہندو مسلمان مل کر پیس پارٹی کا سپورٹ کر رہے ہیں اور امّید ظاہر کی جاتی ہے کہ پچھلے الیکشن میں جیت درج کرانے کے بعد اِس الیکشن میں بھی جیت کا ڈنکا بجے گا، پیس پارٹی کے لئے ایک خوشخبری اور بھی ہے کہ پچھلا الیکشن جیتنے والے کمال یوسف نے بھی پیس پارٹی کو سپورٹ کر دیا ہے اور کمال یوسف کے سارے چاہنے والے پیس پارٹی کی طرف سے کھڑے ہونے والے اشوک سنگھ کو جِتانے کی بھر پور کوشش میں لگے ہوئے ہیں،ابھی ڈومریاگنج میں اگر کوئی پارٹی ہے جو جیت درج کرائے تو وہ ہے پیس پارٹی امیّد وار اشوک سنگھ۔
Shuaiburrahman Aziz
About the Author: Shuaiburrahman Aziz Read More Articles by Shuaiburrahman Aziz: 14 Articles with 22183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.