ڈونلڈ ٹرمپ اور نمرود

گزشتہ روز سے ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انسدادِ انتہا پسندی (سی وی ای) پروگرام کا نام تبدیل کر کے ’’انسدادِ بنیاد پرست اسلامی انتہا پسندی‘‘ (سی آر آئی ای) یا ’’انسدادِ اسلامی انتہا پسندی‘‘ (سی آئی ای) پروگرام رکھنے کے لئے اپنے قریبی رفقا سے مشاورت شروع کردی ہے،خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے انسدادِ انتہا پسندی پروگرام کا نام تبدیل کر کے ’’انسدادِ بنیاد پرست اسلامی انتہا پسندی‘‘ یا ’’انسدادِ اسلامی انتہا پسندی‘‘ پروگرام رکھنے کے لئے اپنے قریبی دوستوں سے مشاورت شروع کردی ہے، یہ حساس اطلاع ایسے 5 افراد نے فراہم کی ہے جو اس خفیہ میٹنگ میں موجود تھے لیکن اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔نئے مجوزہ پروگرام کے تحت امریکا میں مسلمانوں کی کڑی نگرانی کی جائے گی تاکہ وہاں اسلامی شدت پسندی کا قلع قمع کیا جا سکے اور داعش یا اس کے ہمدرد کبھی سر نہ ا±ٹھا سکیں۔سی وی ای پروگرام میں تبدیلی اور مسلمانوں کے خلاف اس کے مخصوص ہوجانے کے بعد امریکا میں سفید فام نسل پرست گروپوں یا ایسے دوسرے شدت پسند عناصر کو کھلی چھوٹ مل جائے گی جو آئے دن مسلمانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں اور مساجد کو آگ لگا کر اپنی نفرت کا کھلم کھلا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے ہی اسلام کے خلاف نفرت اور خوف (اسلاموفوبیا) پھیلانے کے لئے سرگرم تنظیموں کو سب سے زیادہ چندہ دینے والے اہم ترین امریکی تاجروں اور صنعتکاروں میں شامل ہو چکے تھے جبکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی انہوں نے متعدد بار کھلے الفاظ میں اسلامی انتہا پسندی اور داعش کو باقاعدہ نام لے کر امریکا کے لئے شدید ترین خطرہ بھی قرار دیا تھا۔انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکا میں موجود تمام مسلمانوں کی ’’خصوصی نگرانی‘‘ کا بندوبست کریں گے اور پوری دنیا سے اسلامی شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ اسلامی دہشت گردی ‘‘ کس چیز کا نام ہے؟ مجھے یہ بتانے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اگر ’’ حسد بغض اور کینہ ‘‘ کی عینک اُتار کر دنیا کے تمام مذہبوں کا جائزہ لیا جائے تو ’’ کوئی بھی مذہب ‘‘ دہشت گردی ، قتل و غارت ، زنا، شراب اور جوا وغیرہ کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ رہا مسئلہ ’’اسلام اور اسلام کی تعلیمات کا ‘‘ تاریخ بھری پڑی ہے ۔کسی بھی دور میں اور کسی بھی شکل میں اسلام نے امن بھائی چارے کا دامن نہیں چھوڑا۔

جہاں تک اسلام سے دشمنی کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی تازی بات نہیں ازل سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر یاد ہو تو نمرود اور حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے واقعات کو عبرت کے لئے پڑھ سکتے ہو،نمرود بھی دنیاوی فوجی طاقت کے بل بوتے پر ’’ آپ نے آپ کو خدا ‘‘ کہلواتا تھا۔۔۔ اﷲ پاک نے نمرود کی رسی کو ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔لیکن شیطان کے بہلاوے میں تکبر اور غرور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح انسانوں کو اور بلخصوص حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور ان کے پیروکاروں کو ’’ نست و نمود ‘‘ کرنا چہتا تھا جیسا آج اسلامی دنیا کو دنیا کے نقشہ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مٹانا چاہتے ہیں ۔ تاریخ نے دیکھا ایک دن نمرود نے حضرت ابراہیم کو چیلج کیا کہ ’’ اپنے رب سے کہو کہ میری فوجوں کے ساتھ اپنی فوجیں لڑائیں ‘‘ پھر پتہ چلے گا اﷲ معاف فرمائے وہ کفر بکتا تھا کہ میں خدا ہوں۔ حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ اسلام نے بہت سمجھایا مگر وہ کب سمجھنے والہ تھا جیسا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جب نہ مانا تو ۔ اﷲ پاک نے اپنا پیارا فرشتہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی طرف بھیجا کہ ’’ آپ علیہ اسلام ا س کافر کا چیلج قبول کر لیں ۔جب آپ نے نمرود سے ’’ نمرودی اور خدائی فوجوں ‘‘ کی لڑائی کا وقت دن اور تاریخ طے کر لی۔

نمرود جس کو اپنے فوجی سازو سامان اور جوانوں پر بڑا گھمنڈ تھا۔ جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔ ہر روز جنگی مشقیں خود دیکھتا، فوجوں کی مشقوں کی خود نگرانی کرتا۔حتیٰ کہ ’’ تاریخِ مقررہ ‘‘ آ گئی۔

شدت کے ساتھ نمرود انتظار کر رہا تھا۔ اس نے میدان جنگ میں اپنی فوجوں جنگ کے لئے تیار کر کے لائنوں میں کھڑا کیا ۔ اتنے میں اﷲ پاک کے پیارے خلیل حضرت ابراہیم علیہ اسلام بھی اﷲ کی رضا سے گھر سے نکل کر میدان جنگ کی طرف روانہ ہوئے۔

نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو تنہا دیکھ کر پوچھا! اے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کدھر ہیں خدائی فوجیں ؟ آپ نے جواب دیا میرے اﷲ ک وعدہ ہے۔ ان شاااﷲ خدائی فوجیں آئیں گئیں ۔

جب مقررہ وقت ہوا تو دنیا نے دیکھا آسمان سے ’’ سورج کی روشنی نہیں ‘‘ بلکہ آسمان سے مچھروں کی اتنی یلغار اتری کے جس طرف بھی نظر اٹھتی تھی مچھر ہی مچھر نظر آتے تھے۔ جنگ کا طبل جو نمرودی فوج نے بجایا تھا اس کو بھی مچھروں کی بھوں بھوں نے کسی کان میں نہ پڑنے دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دنیا نے دیکھا خدائی فوجکی ڈیوٹی مچھروں نے کس طرح دی۔ نمرود کی فوجیں دیکھتی ہی رہ گئی کہ مچھروں کا جھرمٹ جس فوجی پر جھپٹتا گوشت کھا جاتا اور ہڈیوں کا ڈھانچا زمیں بوس ہو جاتا۔ نمرود نے جب اپنی فوج کی بے بسی لا چاری اور قلع قمع ہوتے دیکھا تو بھاگتا ہوا ’’ اپنی بیوی کے کمرے میں گھس گیا اور اس کے ساتھ ایک ’’ لنگڑا ‘‘ مچھر بھی پہنچ گیا۔نمرود نے اپنی بیوی کو بتایا کہ یہ جو لنگڑا مچھر ہے یہ آسمان سے اترنے والی فوج ہے جس نے میری فوج کو تیس نیس کیا ہے ۔بس پھر کیا ہوا۔

وہ لنگڑا مچھر دنیا کے طاقتور ترین جیسا کہ آج دنیاوی لحاظ سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے کے ناک کے رستے دماغ میں گھس کر دماغ کو چاٹنا شروع کر دیا۔ تاریخ گواہ ہے دنیا نے دیکھا کہ وہ آدمی جو طاقت دولت کے نشہ میں اپنے آپ کو بھول کرجھوٹا ’’ خدا ‘‘ بن بیٹھا تھا۔ جیسے جیسے مچھر دماغ چاٹتا تھا ویسے ویسے وہ اپنے سر کو دیواروں سے مارتا اور کچھ دیر مچر سست ہو جاتا جس سے نمرود کو عارضی سکون مل جاتا، پھر ایک وقت آیا جب نمرود نے اپنے سر پر جوتے مروانے شروع کر دئیے تھے،صرف جوتے ہی نہ کھاتا تھا بلکہ جوتے مارنے والے کو ’’ شاہی انعام و کرام سے بھی نوازا جاتا تھا‘‘ اسی ذلت رسوائی کے ساتھ عبرت ناک موت مر گیا، لیکن ایک سبق چھوڑ گیا ہے کہ دنیاوی طاقت ، دنیاوی عزت، اور شہرت سب کچھ فانی ہے، حقیقی بادشاہی خالقِ کائنات اﷲ پاک کی ہے، انسان کو تکبر گھمنڈ اور غرور میں یاد رکھنا چایئے ، اﷲ رب العزت کی ذات ابابیل سے ہاتھیوں کے لشکر کو تباہ و برباد کر سکتا ہے ، نمرود جسے وقت کے عظیم طاقتور بادشاہ کو ’’ مچھر جیسی عقیر مخلوق سے باعث عبرت بنا سکتا ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یاد رکھیں اسلام اﷲ کا پسندیدہ دین ہے ۔ جو بھی اسلام سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا۔ اگر آپ امریکہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں یا دنیا بھر میں امن بھائی چارہ چاہتے ہیں تو مسلمانوں پر پابندی نہیں بلکہ شرعیت ِ محمدی کا نفاز قرآن و سنت ک روشنی میں کر ے دیکھیں ، آپ کو اسلام سے دشمنی نہیں محبت ہو جائے گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگر آپ نے اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو زلیل و رسوا کرنے کی پالیسی ترک نہ کی تو پھر خدائی عذاب سے مہلت نہیں ملتی بس اتنا یاد رکھنا۔اور اگر اﷲ پاک نے مسلمانوں کے ضمیروں کا جگا دیا تو پھر دنیا میں راج اﷲ اور اﷲ کے پیارے نبی ﷺ کا ہوگا۔ان شااﷲ
Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 296 Articles with 312871 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.