جوزف اسٹالن 1922ء سے 1953ء تک سوویت اتحاد کی اشتراکی جماعت کے معتمد عام
تھے۔ 1924ء میں ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد وہ اتحاد سوویت اشتراکی
جمہوریہ المعروف سوویت اتحاد کے سربراہ بنے۔اسٹالن نے مکمل زیر تسلط معیشت
کا تصور پیش کیا اور تیز تر صنعت کاری اور اقتصادی تجمیع کے عمل کا آغاز
کیا۔ زرعی شعبے میں یکدم تبدیلی نے اشیائے خورد و نوش کے پیداواری عمل کو
تہہ و بالا کر ڈالا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر قحط پھیلا جس میں 1932ء
کا قیامت خیز سوویت قحط بھی شامل ہے ۔1930ء کی دہائی کے اواخر میں اسٹالن
نے ’’عظیم صفائی‘‘ کا آغاز کیا جسے ’’عظیم دہشت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، جو
اشتراکی جماعت کو ان افراد سے پاک صاف کرنے کی مہم تھی جو بد عنوانی، دہشت
گردی یا غداری کے مرتکب تھے۔ اسٹالن نے اس مہم کو عسکری حلقوں اور سوویت
معاشرے کے دیگر شعبوں تک توسیع دی۔ اس مہم کا نشانہ بننے والے افراد کو عام
طور پر قتل کر دیا جاتا یا جبری مشقت کے کیمپوں میں قید کر دیا جاتا یا پھر
وہ جلاوطنی کا سامنا کرتے۔ آنے والے سالوں میں نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے
والے لاکھوں افراد جبری ہجرت کا نشانہ بنائے گئے۔ 1939ء میں اسٹالن کی زیر
قیادت سوویت اتحاد نے نازی جرمنی کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ کیا جس کے
بعد پولینڈ، فن لینڈ، بالٹک ریاستوں، بیسربیا اور شمالی بوکووینا میں روس
نے جارحانہ پیش قدمی کی۔ 1941ء میں جرمنی کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی
کے باعث سوویت اتحاد نے اتحادیوں میں شمولیت اختیار کر لی جس نے دوسری جنگ
عظیم میں محوری قوتوں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا لیکن سوویت اتحاد کو
اس فتح کی زبردست قیمت چکانی پڑی اور تاریخ کی تمام جنگوں کا سب سے زیادہ
جانی نقصان اٹھاناپڑا۔ بعد ازاں اتحادیوں کے اجلاس میں تردیدی بیانات کے
باوجود اسٹالن نے مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک میں اشتراکی حکومتیں قائم
کروائیں، جس نے ایک مشرقی اتحاد تشکیل دیا جو سوویت اقتدار کے ’’آہنی پردہ‘‘
تلے تھے۔ اس نے نفرت و عناد اور دشمنی کے اس طویل عہد کا آغاز کیا جو تاریخ
میں ’’سرد جنگ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسٹالن نے اپنے عوامی تاثر اور
شخصیت کو سنوارنے کی کافی کوشش کی لیکن اس کی وفات کے بعد جانشیں نکیتا
خروشیف نے اس کے اعمال پرا علانیہ ملامت کی، اور ایک نئے عہد کا آغاز کیا
جو عدم اسٹالیانے کا عہد کہلاتا ہے۔جوزف کی ان حرکات کے پیچھے سب سے بڑی
وجہ یہ تھی کہ جس جگہ وہ پید ا ہو ا وہ مقامی گروہوں کی آپس میں لڑائیوں
اور فسادات کا گڑھ تھا۔ 16 سال کی عمر میں اسے گرجستانی آرتھوڈکس مذہبی
تربیت گاہ کی جانب سے وظیفہ ملا، جہاں اس نے شاعری کا آغاز بھی کیا اور
جبراً روسی زبان بولنے کے خلاف بغاوت بھی کی لیکن بہتر کارکردگی کے باوجود
اسے حتمی امتحانات سے پہلے خارج کر دیا گیا۔ اس تربیت گاہ کے ریکارڈ سے
معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا معاوضہ ادا کرنے سے قاصر تھا۔ لیکن اس کی والدہ
کی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے اسٹالن کی خواہش کے باوجود اسے مدرسے
سے اٹھا لیا۔جوزف سٹالن کا ذہن ہمیشہ خرافاتی اور شدت پسند تھا یہی وجہ تھی
کہ وہ مذہبی تربیت گاہ سے خارج ہونے کے بعدولادیمیر لینن کی تحریریں پڑھنے
سے اس نے مارکسی انقلابی بننے کی ٹھان لی۔ وہ 1903ء میں بالشیوکوں کے ساتھ
مل گیا بعد ازاں اس نے بالشیوک قاتل دستوں کو منظم کیا اور مقامی مخالفین
کا صفایا کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔ ایک بالشیوک کانفرنس میں لینن سے ملاقات
کے بعد وہ واپس گرجستان آیاجس کے بعد اس نے جنرل فیودور گریازانوف کے قتل
کا منصوبہ بنایا۔ اس نے بالشیوکوں کے لیے بذریعہ بھتہ خوری، بینک ڈکیتیوں
اور مسلح ڈکیتیوں کے ذریعے رقوم جمع کرنے کا عمل جاری رکھا۔جماعت سے استعفیٰ
لینے کے بعد اس نے ایک بینک ترسیل پر بڑی ڈکیتی ماری جس کے نتیجے میں 40
افراد مارے گئے اور وہاں سے باکو فرار ہو گیا۔ باکو میں اسٹالن نے مسلم
آزری باشندوں اور فارسیوں کو سرگرمیوں کے لیے منظم کیا جن میں دائیں بازو
کے زار نواز ’’سیاہ صد‘‘کے کئی اراکین کے قتل ،اغواہ برائے تاوان ،جعل
سازیاں اور ڈکیتیاں شامل تھیں ۔جوزف چاہے جیسا بھی تھا لیکن اس نے مشترکہ
سوویت پارلیمنٹ میں ایک تاریخ ساز واقع چھوڑا کہ جب جوزف پارلیمنٹ میں داخل
ہوا اپنے ہاتھ میں ایک مرغا لئے اور پوری کابینہ کے سامنے اس مرغے کے پر
ایک ایک کر کے نوچنے لگا جس پر وہ مرغا بہت پھڑپھڑایا لیکن اس نے وہ عمل
جاری رکھا مرغے کی آہ و بقاء سن کر کابینہ کے لوگ بھی جوزف پر برہم ہوئے کہ
ایک جانور کو اتنی اذیت کیوں دے رہے ہو یہاں تک کہ سٹالن نے اس مرغے کے
سارے پر نوچ ڈالے اور پھر مرغے کو زمین پر چھوڑ دیا ۔سٹالن نے مرغے کو دانا
پھینکنا شروع کر دیا اور چل پڑا مرغا بھی دانہ چگتے ہوئے اس کے پیچھے چل
پڑا جس پر سٹالن نے ایک تاریخ ساز جملہ کہا کہ ’’جن قوموں پر جاگیردارانہ
نظام حکومت رائج ہوتا ہے وہ ان قوموں کی مثال اس مرغے سے الگ نہیں ہوتی
‘‘کہ پہلے وہ جاگیردارانہ نظام انہیں نوچتا رہتا ہے اور جب وہ نڈھال ہو
جاتے ہیں تو تھوڑی سی ان پر عنایت کر کے انہیں پھر سے اپنا غلام بنا لیا
جاتا ہے ۔اگر دیکھا جائے تو آج کے پاکستان میں نظام حکومت اس سے مختلف نہیں
پاکستانی عوام کو ہر طرح سے نوچ نوچ کر کھایا جا رہا ہے ہر حکومت نے
جمہوریت کی بجائے چوہدراہٹ کی اور عوام کا نہ صرف پیسہ لوٹا بلکہ ان کا
استحصال بھی کیا نہ تعلیم ،نہ صحت ،نہ تحفظ ،نہ انصاف یہاں تک کہ کوئی بھی
بنیادی سہولت عوام تک نہیں پہنچائی جا سکی بلکہ تاریخ کے سب سے بڑے قرضوں
کا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے جبکہ اس کی جگہ میٹرو ٹرینوں اور بسوں کے علاوہ
ناکام بجلی کے پراجیکٹس لگا کر عوام کے منہ میں لولی پاپ دے رکھاہے ۔یہاں
یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جیسے آج بھی جوزف اسٹالن کے ادھورے منصوبے ’’عظیم
صفائی ‘‘ کو مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟؟ |