بابا مسابا مر گیا۔۔!


شادی ۔۔ کوہلو کے بیل کی طرح ایک ہی کھونٹے کے گرد گھومنے کا نام ہے۔ایک شادی کرنے کی دو ۔وجوہات ہوتی ہیں ۔پہلی ۔یہ کہ بیوی تو ایک بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور ۔ دوسری وجہ یہ کہ مصیبت جتنی کم ہو اتنی ہی اچھی ہوتی ہے۔ میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ ’’شادی ایک غلطی کا نام ہے اور مرد ۔غلطی پر غلطی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں‘‘۔ایک سے زائد شادیاں کرنے والے لوگ خطروں کے کھلاڑی ہوتے ہیں۔جو خطرےمول لینے کو ہمیشہ بے قراررہتے ہیں۔ اور بیوی۔شوہر کی ’’دائی‘‘ ہوتی ہے۔ اس کی رگ ۔رگ سے واقف۔وہ شوہر کی صرف وہی رگ دباتی ہے۔ جس سے اُسے(بیوی کو) سکون ملے۔

بابا مسابا کی اپنی چند بیویوں کے ہمراہ فوٹو

دماغ۔ اگر موبائل فون کی کوئی ایپلی کیشن ہوتا تواس کے صارفین کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی۔ذرا تصور کریں ۔جس کے پاس دو موبائل ہیں۔اور دونوں میں ’’دماغ ایپ ‘‘ ڈاؤن لوڈ ۔۔ہو تو دماغ کتنا چلے ۔؟۔۔موبائل گھر والوں سے رشتہ توڑ کر دنیا والوں سے تعلق جوڑنےوالا آزمودہ آلہ ہے۔بلکہ موبائل بچوں کی سپورٹس گراؤنڈ، بیوی کی سیرگاہ اور شوہر کی پناہ گاہ ہے۔مرد ۔آج جتنا موبائل کے پیچھے پاگل ہے ۔اُتنا کبھی عورت کے پیچھے ہوتا تھا۔اور عورت آج جتنی موبائل میں گم ہے اِتنی ۔وہ کبھی امورِخانہ داری میں ہوتی تھی۔ کہتے ہیں کہ مرد۔بچپن سے جوانی تک دماغ کا استعمال کرتے ہیں ۔پھر شادی ہو جا تی ہے ۔شادی کے بعدشوہر کا دماغ ۔ بیوی ۔ ہیپناٹائز کر لیتی ہے۔ ہر بیوی کے پاس دو ۔ دماغ ہوتے ہیں۔ ۔ڈبل سم موبائل کی طرح ۔سِم ون کے سگنل پہلے ہی آوٹ ہوتے ہیں۔ہیپناٹائزہونے کے بعد سم ٹو بھی بند ہو جاتی ہے۔۔
یورپ میں ایک آدمی نے اخبار میں اشتہار دیا کہ بیوی کی ضرورت ہے۔
تو اسے کئی ای میل آئیں ۔ جن میں لکھا تھا۔ میرے والی لےجاؤ۔

یورپ میں’’ایثار ۔اور۔مواخات‘‘کی روایات ۔بہت ہی مختلف ہیں۔ انگریزی کہاوت ہے کہ اگر دشمن آپ کی بیوی چرا۔ لے۔ اور آپ بدلہ لینا چاہتے ہیں تو اپنی بیوی دشمن کے پاس ہی رہنے دیں۔شادی مرد کو برداشت،بردباری، عاجزی،تحمل اور۔رواداری سکھاتی ہے۔ اس سکھلائی میں ابتدائی حصہ بیوی کا ہو تا ہے اور انتہائی حصہ ساس کا۔ کنواروں میں اسی لئے قوت برداشت ، تحمل اور عاجزی کم ہوتی ہے۔میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ ’’ آدم اور اماں حوا ۔دنیا کا وہ خوش قسمت جوڑا ہیں ۔ جن کی ساس پیدا ہونے کا کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا‘‘۔

کہتے ہیں کہ اگرآپ ۔دنیا گھومنےکےشوقین ہیں توشادی سے پہلے ہی گھوم لیں بعدمیں دنیا خودگھوم جاتی ہے۔شوہرموت تک ایسی ہی گھمن گھیریوں میں پڑا رہتا ہے۔شادی کی کامیابی کا کوئی طے شدہ فارمولہ نہیں ہوتا۔۔بس تکُے ہوتے ہیں۔جو نشانے پر لگ جائیں تو تیر ہیں ۔ وگرنہ طلاق ۔۔ خوشگوار ازدواجی زندگی کے را ز بھی نہیں ہوتے۔سمجھوتے ہوتے ہیں۔۔سمندر کنارے بنے کچی مٹی کے گھروندوں جتنے نازک۔۔جبکہ ناخوشگوار زندگی کے سارے رازغیروں کے پاس ہوتے ہیں۔اور بات غیروں کے ہاتھ میں ہو تو بنتی نہیں بگڑ جاتی ہے۔۔یونیورسٹی حکام نے ایک کامیاب شوہر کو اپنے راز شئیر کرنے کے لئے بلایا تو سوال جواب شروع ہوگئے۔

طالبعلم: سر آپ کی کامیاب شادی کا رازکیا ہے۔؟
سر: میں نے بیوی کےساتھ حسن سلوک کیا،اس پر رقم خرچ کی اورسب سے بڑھ کر۔یہ کہ میں اسے شادی کی20ویں سالگرہ پراسے میکےلےگیا۔
طالبعلم :کمال ہے سر۔!اب شادی کی گولڈن جوبلی ہے۔آپ اپنی بیوی کےلئےکیاکریں گے ۔؟
سر:میں اسے میکےسےواپس لینے جا رہا ہوں۔

لوگ عموما ایک شادی کرتے ہیں۔اکلوتی شادی ۔۔ کوہلو کے بیل کی طرح ایک ہی کھونٹے کے گرد گھومنے کا نام ہے۔۔ایک شادی کرنے کی دو ۔وجوہات ہوتی ہیں ۔پہلی ۔یہ کہ بیوی تو ایک بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور ۔ دوسری وجہ یہ کہ مصیبت جتنی کم ہو اتنی ہی اچھی ہوتی ہے۔ مرید کہتا ہے کہ ’’شادی ایک غلطی کا نام ہے اور مرد ۔غلطی پر غلطی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں‘‘۔ایک سے زائد شادیاں کرنے والے لوگ خطروں کے کھلاڑی ہوتے ہیں۔جو خطرےمول لینے کو ہمیشہ بے قراررہتے ہیں۔ اور بیوی۔شوہر کی ’’دائی‘‘ ہوتی ہے۔ اس کی رگ ۔رگ سے واقف۔۔وہ شوہر کی صرف وہی رگ دباتی ہے۔ جس سے اُسے(بیوی کو) سکون ملے۔شادی کی تقریب میں بیوی نے شوہرکوکسی لڑکی سے فلرٹ کرتے دیکھا توپاس آئی اورشوہرکوبام دکھاکربولی : گھر پہنچ کرمیں آپ کی چوٹ پر لگا دوں گی۔
شوہر:لیکن میرے تو ابھی چوٹ نہیں لگی۔
بیوی: ابھی ہم گھربھی نہیں پہنچے۔

خواتین نے اپنی ’’جواں مردی ‘‘ سے گھریلو تشدد کے واقعات کو یکسرپلٹ ڈالا ہے۔ آج دنیا میں شوہروں پر گھریلو تشدد کے واقعات روکنے کے اقدامات پر بحث ہو رہی ہے۔ دنیا کے کم و بیش تمام شوہر ذہنی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور چند ایک جو بچ جاتے ہیں ۔انہیں جسمانی تشد د کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔۔گھرپہنچنے پر بیوی انہیں بام لگاتی ہے۔شوہر صحت مند ہو کر پھر فلرٹ اور شادی کا خطرے مول لینے کو تیار ہو تے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مبصرین اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ’’مستانی۔باجی راؤ کی دوسری بیوی تھی۔جس سے وہ بہت محبت کرتا تھا۔ ممتاز ۔ شاہ جہاں کی آٹھویں بیوی تھی ۔جس پروہ اپنی جان چھڑکتا تھا۔ جودھا۔اکبر کی تیسری بیوی تھی۔جن کی محبت امر ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی شوہر نے آج تک پہلی بیوی سے مثالی محبت نہیں کی‘‘۔بابا مسابا بھی اسی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔

نائیجیریا کےرہائشی محمد ابوبکر المعروف بابا مساباپچھلےدنوں انتقال کر گئے۔ان کی عمر 93 برس تھی ۔مسابا۔کثرت ازواج۔اورکثر ت اولاد کی وجہ سے مشہور تھے۔ان کی 130 بیویاں اور203 بچے تھے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بابا کی وفات کے وقت بھی کچھ بیویاں امید سے تھیں۔130 میں سے’’ کچھ ‘‘ کا اندازا کرنا قطعی مشکل ہے۔یہ بھید آئندہ کئی ماہ تک کھلتے رہیں گے۔ بابا مسابا ۔ پیشے کے اعتبار سے ٹیچر تھے ۔اور روحانی علاج کے ماہربھی تھے۔130 میں سے اکثر بیویاں۔ علاج کروانے ہی بابا جی کے پاس آئی تھیں ۔اور بابا جی نے ایسی’’ کلا مروڑی‘‘ کہ بیچاریاں لاعلاج ہو گئیں۔مسابا مر گئے ہیں۔ ان کی ساری بیویاں زندہ ہیں۔ لیکن۔زنداں میں ہیں۔کثرت ازواج کی وجہ سے نائجیریا کے مذہبی حکام۔ بابا جی سے نالاں تھے اور بابا مسابا کو الگ سے ایک فرقہ سمجھتے تھے۔۔۔ یوں پورا فرقہ ۔ بیوہ اور یتیم ہوگیا ہے۔

معروف ناول نگارتنزیلہ ریاض لکھتی ہیں کہ ’’مردکےاندردوسری شادی کی خواہش کمر کی کھجلی کی طرح ہوتی ہے۔جس طرح بھری محفل میں اچانک کمر میں کھجلی پیدا ہوجائےتوانسان۔ ہزارخواہش کے باوجود نہیں کجھا سکتا۔ بالکل اسی طرح دوسری شادی کی خواہش بھی مردکوبےبس کردیتی ہے‘‘۔من شرِما خلق سے اقتباس۔

تنزیلہ ریاض کا فارمولہ۔ بابا مسابا پر ایپلائی کیا جائے تو انہیں 130 بار کھجلی ہوئی اور انہوں نے پورے گاؤں کے سامنے کھجایا بھی۔ لیکن تاریخ کے پنے پلٹیں تومغل شہنشاہ اکبر اور جہانگیر نے تقریبا تین تین سو بارکھجلی کی ۔بادشاہوں کی جنسی بھوک ہمیشہ متغیر رہتی تھی ۔ اسی لئے محلوں میں باقاعدہ کھجلی گاہ (حرم) بنا ئی جاتی تھی۔بیوی ۔ داشتہ اور لونڈی۔کھجلی کے کئی ٹھکانے تھے۔ شہنشاہ اکبر کے نو رتن تھے۔جن میں مان سنگھ بھی شامل تھا۔ کم بخت نے اتنا کھجایا کہ خارش پڑ گئی۔ اس کے حرم میں 1500 خواتین تھیں۔۔

کہتے ہیں کہ ۔۔اگرآپ کسی مرد سے کوئی بھی مشورہ کریں ۔۔ اور ۔وہ ۔۔جواب میں کہے ’’میں سوچ کر بتاؤں گا‘‘۔۔تو سمجھ جائیں کہ وہ شادی شدہ ہے اور بیوی سے اجازت لینا چاہتا ہے‘‘۔۔۔۔ بابا مسابا کا دماغ 130 بار ہیپناٹائز ہو ا تھا ۔ اسے 130 بیویوں سے اجازت لینا پڑتی ہو گی‘‘۔۔انسان کا دماغ بند ہو جاتا ہے۔ایسے حالات میں موبائل ایپلی کیشن کی اشد ضرورت ہے۔
Ajmal Malik
About the Author: Ajmal Malik Read More Articles by Ajmal Malik: 76 Articles with 94600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.