’’اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے
افغانستان کے سابق وزیراعظم اور افغان جنگجوسردار گلبدین حکمت یار کے خلاف
پابندیاں ختم کر دی ہیں۔انھیں اقوام متحدہ کی طرف سے جنگی جرائم کا مرتکب
ہونے کے الزام میں عالمی دہشت گردقرار دیا گیا تھا۔پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ
افغان حکومت کی درخواست پر کیا گیا ۔افغان حکومت نے یہ درخواست گلبدین حکمت
یار کے مسلح گروہ حزب اسلامی کے ساتھ ستمبر میں ہونے والے اس امن معاہدے کے
بعد کی تھی جس کے تحت افغان آئین کی حمایت اور تشدد کا راستہ ترک کرنے پر
انھیں قانونی کارروائی سے تحفظ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔گلبدین حکمت یار
تیس برس پہلے افغانستان پر سویت قبضے کے خلاف گوریلا مزاحمت میں شامل رہے
تھے۔گلبدین حکمت یار پر 1992 سے 1996 کے درمیان افغانستان میں جاری خانہ
جنگی میں کابل میں ہزاروں لوگوں کو قتل کروانے کا الزام ہے۔دنیا بھر میں
انسانی حقوق کی تنظیمیں اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر احتجاج کر رہی ہیں،
تاہمستمبر میں ہونے والے امن معاہدے کو امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک اور
اقوام متحدہ نے امن کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کی
سکیورٹی کونسل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ
گلبدین حکمت یار پر اثاثوں کے انجماد، سفری پابندی اور اسلحے کی خریداری پر
پابندیوں کا مزید اطلاق نہیں ہوگا۔گلبدین حکمت یار افغانستان کے سابق
وزیراعظم ہیں اور جدید افغان تاریخ کی ایک متنازع شخصیت ہیں۔‘‘یہ خبری
تراشہ 4فروری کو بی بی سی اردو کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس نے دنیا میں
ایک نئی بحث چھیڑی ہے ۔ایک طویل عرصہ بعد اقوام متحدہ کو یہ نئی سے نئی
باتیں کیسے سمجھ آ رہی ہیں؟واقعی افغان جنگ نے دنیا کا دھارا ایک بار پھر
بدل ڈالا ہے لیکن یہ دھارا کیسے بدل رہا ہے۔آئیے آپ کو اس بارے میں کچھ
مزید آگاہ کرتے ہیں۔
یہ نک مینڈس ہے‘ امریکہ کا ایک ماہرکمانڈو فوجی۔ امریکہ نے جب 7اکتوبر2001ء
کو افغانستان پر حملہ کیا تواس وقت اس کی عمر محض11سال تھی ۔اسے بچپن سے ہی
ویڈیو گیمز کھیلنے کابہت شوق تھا۔ پھر10سال گزرے اورنک مینڈس امریکی فوج
میں بھرتی ہوگیا۔ سال 2011ء میں وہ افغان صوبے قندھار پہنچاجہاں وہ ایک
بارودی دھماکے کا نشانہ بنا۔اس دھماکے سے اس کے جسم کے کئی حصے اڑ گئے اور
پھر اس کا گردن سے نیچے والا سارا دھڑ مفلوج ہوگیا۔آج 5سال سے زائدکاعرصہ
بیت چکاہے اور مینڈس اپنے بستر سے حرکت نہیں کرسکتا۔اس کا کہناہے کہ اس کی
زندگی جہنم بن چکی ہے اوروہ نہ جی سکتا ہے نہ مر سکتا ہے۔عالمی شہرت یافتہ
ممتاز امریکی ہفت روزہ جریدے ٹائم نے افغانستان میں امریکی جنگ کے 15سال
مکمل ہونے پر 6اکتوبر2016ء کو اس امریکی کمانڈوفوجی کی کہانی نشرکی توساتھ
ہی بتایاکہ امریکہ میں اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ایسے ہی لنگڑے لولے فوجی
ہیں جو ملک بھر میں ہرجگہ دیکھے جاسکتے ہیں اور یہ وہی ہیں جنہیں افغانستان
یاعراق کی جنگ نے یوں معذور کیا ہے۔ امریکی فوج تسلیم کرتی ہے کہ افغانستان
میں اس کے 23ہزار سے زائد فوجی ایسے زخموں سے دوچار ہوئے جبکہ وہ فوجی جو
نفسیاتی اور دماغی امراض اور عارضوں کا شکار ہوکر نیم پاگل‘مستقل دماغی
مریض یاجنونی ہوگئے ہیں‘ ان کی بڑی تعداد اس کے علاوہ ہے۔(یہ اعدادوشمارتو
امریکہ کے تسلیم کردہ ہیں ‘ وگرنہ اصل تعداد توکئی گنازیادہ ہے)
7اکتوبر2001ء کی رات جب فرعون زمانہ امریکہ نے اپنے تمام تر لاؤلشکر اور
دنیابھر کے تمام تر اتحادیوں کے ہمراہ ایک انتہائی نحیف ونزارقوم جسے آج کی
دنیا کامعمولی ساحصہ بھی تسلیم نہیں کیاجاسکتا‘پرحملہ کیا تھا تو اس وقت
کون سوچ سکتاتھاکہ یہ معرکہ امریکہ کے گلے کی ایسی ہڈی بن جائے گا کہ جسے
نہ نگلا جاسکے گااور نہ اُگلا جا سکے گا۔امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین
جنگ آج افغانستان کی سرزمین میں لڑرہاہے جس سکندراعظم‘ امیر
تیمورلنگ‘برطانیہ اور روس جیسی طاقتوں کو اپنے ہاں قدم نہیں جمانے دیااوروہ
سبھی یہاں سے رسواہوکرنکلے تھے۔ امریکہ حملے کے وقت نیوورلڈآرڈر کاعَلَم
تھامے ہوئے تھا تو اس نے ملامحمدعمراوران کے افغان طالبان مجاہدین کوصفحۂ
ہستی سے مٹانے کے لیے اپنے اسلحہ خانوں کا ہر بم اوراپنی ٹیکنالوجی کا
ہرپرزہ استعمال کرکے دیکھ لیا لیکن بات نہ بن سکی۔ دنیا جب دہشت گردی کی
تعریف پرمتفق نہ ہوسکی تواقوام متحدہ نے 1267کے نام سے الگ تھلگ قرار
دادمنظور کرکے امریکہ اوراس کے حواریوں کے ہر دشمن کو اس سے نتھی کرنا شروع
کردیاتھالیکن……سپرپاورز کا قبرستان امریکی سانپ کے لیے اس کے منہ میں وہ
چھچھوندرثابت ہوا کہ’’اگلے تو اندھا‘نگلے توکوڑھی‘‘
امریکی میڈیا کہہ رہاہے کہ امریکہ صرف افغانستان کی جنگ میں 850ارب ڈالر
جھونک چکاہے اور اس کے اتحادیوں کا سرمایہ شامل کیاجائے توحجم ایک ہزار ارب
ڈالر سے بڑھ جاتاہے۔ (اس کااندازہ پاکستان کے70سال کے کل بیرونی قرضوں کے
موازنہ سے ہو سکتا ہے جو اب بھی 78ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں) لیکن جنگ ہے کہ
ختم ہونے کانام نہیں لیتی۔یہ19اکتوبر2016ء بدھ کے دن 11بجے کاواقعہ ہے ۔
افغان دارالحکومت کابل کے علاقے رش خورمیں کٹھ پتلی افغان فوج کی تربیت کے
ایک مرکزمیں اچانک 2 ’’افغان فوجیوں‘‘ نے امریکی کمانڈوز اور سویلین
کنٹریکٹرز پر گولیوں کی بارش کردی۔امریکی حکام نے واقعہ کے بعد بتایاکہ اس
حملے میں دونوں افغان حملہ آور مارے گئے تھے جبکہ ان کاایک ٹرینر آفیسرموقع
پرہلاک ہوا جبکہ 2ہسپتال جاکر دم توڑ گئے جن میں سے ایک ٹھیکیدار تھا۔یہ
واقعہ کیمپ کے اندرپیش آیا اور حملہ آوروں نے پہلے اندھا دھندفائرنگ کی اور
انہیں بعدمیں باقاعدہ مقابلے کے ذریعے مارگرایاگیا۔اس سے اندازہ ہوسکتا ہے
کہ مارے جانے والے امریکیوں کی تعداد بتائے گئے عدد سے کتنی زیادہ ہوگی۔اس
کاتواندازہ افغانستان میں امریکی ونیٹوافواج کے اعلیٰ کمانڈر جنرل جان
نکلسن کے اس حملے کے فوری بعد کے الفاظ سے لگایاجاسکتاہے ‘ان کا کہنا تھا
کہ’’ہم جب کبھی اپنے ساتھیوں کو یوں کھودیتے ہیں تو یہ وقت ہمارے لیے
انتہائی کربناک ہوتاہے۔(جنرل نے انتہائی گلوگیرلہجے میں کہا)ہماری ہمدردیاں
مارے جانے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔‘‘
عالمی خبررساں ادارے الجزیرہ نے جب یہ خبر نشر کی تھی تو اس کے ساتھ ایک
ویڈیوبھی جاری کی تھی جس میں ایک نو عمرافغان لڑکے محمودکا تعارف و انٹرویو
بھی شامل تھا۔ جس نے رواں سال مئی کے مہینے میں ہی ایک فوجی کیمپ میں
امریکی فوجیوں پر امریکی بندوق سے ہی حملہ کیاتھااور کئی فوجیوں کو ہلاک
وزخمی کرنے کے بعدوہ نہ صرف امریکی فوج کی جدید ترین ایم 16گن سمیت اس کیمپ
سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوابلکہ اس نے سیدھا افغان طالبان مجاہدین کی صفوں
میں بھی شمولیت اختیارکرلی تھی۔اس کاکہناتھا کہ ہم اپنی سرزمین کو قابض
امریکیوں سے جہاد کے ذریعے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ہم اسی کے لیے مصروف عمل
ہیں۔ میں اپنے دوسرے تمام افغان فوجیوں سے یہی کہتا ہوں کہ وہ بھی میری طرح
ایسے ہی کریں ۔ جس روز کابل میں’’ افغان فوجیوں ‘‘نے امریکی کمانڈوز کے
لاشے گرائے‘ اسی دن عالمی میڈیا یہ خبریں نشرکررہاتھا کہ گزشتہ 2دن سے
خلیجی ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان کٹھ پتلی حکومت اور امریکی
نمائندے انہی افغان مجاہدین کے ساتھ ’’خفیہ مذاکرات‘‘ کر رہے ہیں۔ویسے یہ
کیسی عجب مذاکرات کی غضب کہانی ہے کہ مذاکرات خفیہ ہیں اورساری دنیا
چاراطراف کھڑی تماشہ دیکھ رہی ہے ۔بالکل ویسے ہی جیسے شترمرغ ریت میں
سردباکریہ سمجھنے لگتاہے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا۔قطرمیں افغان طالبان
مجاہدین کایہ دفتر امریکیوں نے اپنے ’’خون پسینے کی کمائی‘‘ سے خودبنایاتھا
کہ کسی طرح تو اوکھلی سے سرنکلے اور موسل سے جان چھوٹے لیکن مداری تماشہ
ختم کرنے کانام ہی نہیں لیتا ‘اس لیے تواب کے امریکی صدارتی امیدواروں کی
دوڑ میں شامل ہیلری کلنٹن اورڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اورمباحثوں سے
افغانستان کاذکر ہی نکال دیاہے‘یعنی 15سال میں جو ہوسکتاتھا‘ کرکے دیکھ
لیاکہ ویسے جان نہیں چھوٹی تواب ایسے ہی یعنی آنکھیں بند ‘دل ودماغ سن کرکے
ہی جان چھڑانے کا جتن کرلیاجائے‘شاید ایسے جان چھوٹ جائے۔ کچھ بھی ہو
‘امریکہ کوسوچھتر اور سوپیاز تو روزانہ کی بنیاد پر کھانے پڑرہے ہیں۔زمانہ
ہوا‘ اس کے بیشتر اتحادی بھی بھاگ چکے ہیں اور اب توامریکہ جس نے اپناسب سے
بڑا اتحادی بھارت کوبنایاتھا‘وہ بھی افغانستان میں باربار کی ہونے والی نان
سٹاپ دھلائی سے اس قدر حواس باختہ ہے کہ جنگل کی طرف جان بچاتے بھاگتے گیدڑ
کی طرح آگے سرپٹ دوڑتاہے تو ساتھ ہی ساتھ پیچھے بھی مڑمڑ کر دیکھتاہے کہ
مارنے والا کتنا سرپرہے اوراب اگلاپتھرکب پڑنے والاہے۔ |