جس ملک کی عدلیہ مستحکم ہوتی ہے اور وہ
برسراقتدار حکمرانو ں کا دباؤ قبول نہیں کرتی ایسی صورت میں حکمراں چاہے
کتنا ہی سرپھر ا ظالم اور عاقبت نا اندیش کیوں نہ ہو انصاف کی فراہمی متاثر
نہیں ہوسکتی اور نہ ہی امن و انصاف کے قیام اور پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے
۔اس کی تازہ مثال امریکہ کے نومنتخب صدر رونالڈ ٹرمپ کے حالیہ حکم نامے سے
دی جاسکتی ہے جب انہوں نے ان سات اسلامی ممالک کے امریکہ آنے پر ۹۰دنوں کی
پابندی عائد کردی تھی جسے وہیں کی ایک عدالت نے غیر قانونی بتاکرپوری جرأت
سے مسترد کردیا تھا ۔انصاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ اس فیصلے
کو قبول کرلیتی اور اس غیر آئینی اور مبنی بر تعصب حکمنامے سے رجوع کرلیتی
لیکن اس نے ایسا نہ کرتے ہوئے اس عدالتی فیصلے کو منسوخ کرنے کی غرض سے سان
فرانسسکو کی ایک ہنگامی اپیل کور ٹ میں رٹ داخل کردی لیکن وہاں بھی اسے
مسترد کردیا گیا، اس طرح ٹرمپ انتظامیہ کو ایک کے بعد دوسری عدالت میں بھی
ہزیمت اٹھانی پڑی ۔یہ فیصلہ امریکی جج جیمز رابرٹ نے دیا ، ۶۹؍سالہ جیمز کے
تعلق سے کہا جاتا ہے کہ ان کے اس عدیم المثال اور جرأتمندانہ فیصلے
نےانہیں گمنامی سےنکال کر دنیا کے سامنےروشن کردیا ہے،وہ اولین امریکی جج
ہیںجنہیں اس عبوری فیصلے کے سبب صدر ٹرمپ کے غیظ و غضب نشانہ بننا پڑا
۔ٹرمپ نے اپنے رد عمل میں یہاں تک کہہ دیا کہ جیمز رابرٹ ایک نام نہاد جج
ہیں اور امیگریشن سے متعلق ۳؍ فروری کو دیا گیا ان کا فیصلہ انتہائی مضحکہ
خیز ہے جسے بہر صورت منسوخ کردیا جائے گا اور صدارتی فرمان کے ذریعے اس
پابندی کو بحال کردیا جائے گا ۔وہیں دوسری طرف رابرٹ کی تائید کرتے ہوئے
ایک پرائیویٹ ایکویٹی انویسٹر اور سابق انویسٹمنٹ بینکر ڈوگلاس ایڈکن نے
کہا ہے کہ جیمز رابرٹ ایک غیر سیاسی آدمی ہیں جنہیں وہ بچپن سے جانتے ہیں
وہ نہ تو رجعت پسند ہیں نہ ہی لبرل وہ قانون کے پاسدار اور ایک انصاف پسند
انسان ہیں ۔جیمزرابرٹ کے اس فیصلے کا جہاں امریکی امن پسند عوام کی ایک بڑی
تعداد نے نہ صرف خیر مقدم کیا ہے بلکہ وہ پرزور احتجاج پر بھی اتر آئے ہیں
وہیں امریکہ کے متعدد بارسوخ اور پراثر سیاسی اور غیر سیاسی افراد نے بھی
اس فیصلے کی تائید کی ہے جن میں سابق امریکی وزیر خارجہ مینڈرین البرائٹ
بھی شامل ہیں جنہو ںنے شدت جذبات میں یہاں تک کہہ دیا کہ صدر کے اس حکم
نامے کے خلاف وہ مذہب اسلام بھی قبول کرنے کو تیار ہیں ۔ ماضی میں بھی اس
طرح کی مثالیں سامنے آچکی ہیں اس ضمن میں ایک واقعے کا ذکر کرنا ہم مناسب
سمجھتے ہیں۔غالباً۱۵۷۵ءکے آس پاس لندن میں بھی ایک جج نے انصاف کی ایسی ہی
نظیر قائم کی تھی۔ کسی تاجر نے کشمش کی ایک بہت بھاری کھیپ لند ن میں جب
امپورٹ کی تو اس وقت کے بادشاہ نے اس تاجر پر ٹیکس نافذ کردیا جسے اس تاجر
نے چیلنج کردیا اور انصاف کیلئے عدالت سے رجوع ہوا ، جج نے اپنے فیصلے میں
کہا ،چونکہ پارلیمنٹ میں ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا گیا ہے اس لئے تاجر
بادشاہ کے اس حکم کا پابند نہیں اور اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا
۔بادشاہ نے غضبناک ہوکر جج کو معطل کردیا اور معاملہ اٹارنی جنرل کے سپرد
کردیا جہاں جج نے یک سطر ی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’’ ججوں کو شیر کے
مانندہونا چاہیئےلیکن ایسا شیرجوشاہی تخت کے نیچے بیٹھتا ہواوپر نہیں ۔‘‘
ممکن ہے کہ ٹرمپ اپنی من مانی میں کامیاب ہوجائیں اور ایسا جج تلاش کرلیں
جو ان کی کرسی ٔصدارت کے نیچے بیٹھنے پر راضی ہوجائے کیونکہ اب یہ دور ایسے
ہی شیروں کی افزائش کررہا ہے ،اور آج پوری دنیا میں اسی نراجیت اور
ظالمانہ ذہنیت کا بول بالا ہے ۔
لیکن بہر صورت یہ روایت کسی بھی ملک کی سالمیت اور امن و امان کی فضا کے
قیام کیلے انتہائی خطرناک اور مہلک ثابت ہوگی ۔جب تک اس غیر منصفانہ روایات
سے نہیں نمٹا جائے گا موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔انصاف وہ
ہے جو سب پر مقدم ہو خواہ کوئی امیر ہو یا غریب ، بادشاہ ہو یا فقیر ،
حکمراں طبقہ ہو یا کمزور رعایا سب کے لئے یکساں انصاف اور غیر جانبدارانہ
فیصلہ ـضروری ہے کیونکہ ملک کی بقا و تحفظ کا راز اسی میں مضمر ہے، اس سے
انحراف تباہی و بربادی اور ظلم و طغیان کی آندھی کے سوا کچھ نہیں دے سکتا
۔انصاف کے اعلیٰ معیار کی ایک نظیر ہمیں اسلامی دور حکومت کے ابتدائی ایام
میں بھی ملتی ہے ۔امیرالمومنین حضرت علی ؓ کی زرہ چوری ہوگئی انہوں نے ایک
یہودی پر شک ظاہر کیا ، معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا ، قاضی نے
حضرت علی ؓسے گواہ پیش کرنے کو کہا ، امیرالمومنین نے اپنے فرزندحضرت حسن ؓ
کو بطور گواہ پیش کیا ،قاضی نے بلا خوف و خطر حضرت حسن ؓکی گواہی کو یہ کہہ
کر مسترد کردیا کہ باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں اور مقدمے
کا فیصلہ یہودی کے حق میں دےدیا ۔یہودی اس واقعے سے بے حد متاثر ہوا اور یہ
کہہ کر اسلام قبول کرلیا کہ جس خلافت میں امیرالمومنین جیسی بااثر شخصیت کو
بھی عدالتی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے اور جہاں کا قاضی کسی دباؤ اور خوف کے
بغیر اپنے امیر کے خلاف فیصلہ دینے میں پوری طرح آزاد ہو وہ مذہب کتنا
عظیم ہوگا جس کے یہ سب پیروکار ہیں ،ایسا مذہب قابل تقلید ہی نہیں سر
آنکھوں پر بٹھانےکے لائق ہے ۔آج یہی صورتحال ہمارے ملک میں بھی درپیش ہے
، حکمراں جماعتیں اپنی من مانی میں مصروف ہیں اور آئے دن آئین و قانون سے
اوپر اٹھ کر اپنے فیصلے عوام پر تھوپ رہی ہیں ، رام مندر کی تعمیر اور طلاق
ثلاثہ جیسےمعاملات ابھارکر ہندومسلم منافرت کا بیج بورہی ہیں ۔ لیکن یہاں
بھی عدلیہ سینہ سپر ہے اور وہ بڑی حد تک دباؤ سے مبرا ہے ۔اس سے پہلے کہ
فرقہ پرست عدلیہ پر اثر انداز ہوں ہمیں اسے مستحکم اور مضبوط کرنے کیلئے
متحد ہوجانا چاہئے ۔ |