ٹیپو سلطان کا خط
(Atif Javed, Azad Jamu Kashmir)
جناب میاں محمد نواز شریف
فرماں روا سلطنت اسلامی جمہوریہ پاکستان
شیر میسور سابق فرمانروا سلطنت خدادادفتح علی ٹیپو سلطان کی طرف سے عالم
ارواح سے آپکوسلام مسنون ۔امید ہے کہ آپ صحت اور ایمان کی بہترین حالت میں
ہوں گے ۔ اللہ نے آپکو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت و فرمانروائی عطا
فرما کر آپ پہ احسان عظیم کیا ہے جس پہ آپ اپنے رب کاہزار شکر بجا لائیں
توپھر بھی شکر ادا نہ ہو سکے ۔ کیونکہ ریاست پاکستان ہمارے اور آپکے نبی
آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے بعد پہلی ریاست
ہے جس کی بنیا د اسلام پہ رکھی گئی ہے ۔ مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ آپ سخت
مشکل حالات کی وجہ سےاس وقت تاریخ کے دو رائے پر کھڑے ہیں۔آپ پر اندرونی
اور بیرونی دباو بڑھ رہا ہے جسکی وجہ سےآپ فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار
ہیں ۔آپ کے سامنے اندرونی مسائل میں پانامہ لیکس کے علاوہ کئی بیرونی مسائل
ہیں جن میں مسئلہ کشمیر ، ملکی خودمختاری ،دہشت گردی کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ
کی صورت میں ایک جنونی شخص کا امریکہ کا حکمران بن جا نا ہے جو آپکی
خومختاری پر شدید کچوکے لگائے گا ۔طاقت کے غرور میں آپکے ملک کے اسلامی
نظریہ اور ایٹمی طاقت پر نفسیاتی حملہ کرے گا ۔آپکو اپنے دیرینہ موقف سے
پیچھے ہٹنے پہ مجبور کرے گا ۔جسکی تا زہ مثال حافظ سعید کی نظر بندی ہے ۔
ہر حکمران کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں کہ اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل
ہو جاتا ہے لیکن یہی تا ریخ کا دورایہ ہی آنے والی تاریخ مرتب کرتا ہے ۔
آپ نے میرے بارے میں تا ریخ میں پڑھا ہو گا ۔میں اپنے والدین انتہائی منتوں
اور دعاوں کے بعد پیدا ہوا تھا ۔اس لیے فطری بات ہے کہ میں اپنے والدین کی
پیا رو محبت کا واحدمرکز تھا ۔آپکے والد کی طرح میرے والد نواب حیدر علی
نےبھی اپنی محنت کے ساتھ اک مقام حاصل کیا تھا ۔لیکن انہوں نے میری تربیت
میں کبھی کوئی کمی نہ آنے دی ان کی تربیت کا مقصد میرے اندر بلند ہمتی اور
اولوالعزمی پیدا کرنا تھا جو میری زندگی میں میرے ہر فیصلہ میں میری رہنما
رہی ۔جس وقت بچے کھلونوں سے کھیلتے ہیں اس عمر میں میرا کھلوناشیر تھا جس
کے گلے میں پٹہ ڈال کر میں اس سے کھیلتا تھا اور تلوار میرا اوڑھنا بچھونا
تھی ۔ اور عالم شبا ب میں اپنے والد کی اچانک شہادت کے بعد جب میں حکمران
بنا تو مجھے احساس ہوا کہ اقتدار پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا
راستہ ہے ۔میری ریاست خداداد آپکی ریاست سے کئی گنا چھوٹی ریاست تھی جو
ہندوستان کی کئی سو ریاستوں میں سے ایک تھی ۔ میرے پڑوسی نظام حیدرآباد اور
مرہٹہ پیشوا میرے سخت دشمن تھے ۔حتی کی میں ہمیشہ ان سے دوستی کا خواہاں
رہا باہر سے آئے ہوئے انگریزوں نے ہندوستان کی تمام ریاستوں کو اپنا مطیع و
فرماں بردار بنا کر جب مجھے دوستی یعنی اپنی اطاعت کا پیغام بھیجا تو میں
بھی تذبذب کا شکار ہوا تھا کیونکہ میں تو اک چھوٹی سی ریاست کا حکمران تھا
اور انگریز تو آدھی دنیا پر قبضہ کرچکے تھے۔جس طرح آج امریکہ پوری دنیا کا
ٹھیکیدار ہے اسطرح اس وقت انگریز ہوا کرتے تھے ۔میری اردگرد کی ریاستیں جن
میں سے کئی مجھ سے بڑی اورطاقتور تھیں انگریزوں کے ساتھ ساز باز کر چکی تھی
۔اس وقت میرے سامنے اک طرف مطیع وفرماں دار بن کر خاندان در خاندان حکومت
کرنا اور دوسری طرف اپنی خودمختاری ،آزادی اور عزت نفس کے لیے کھڑا ہونے کا
دو رایہ تھا ۔میں نے عزت نفس ،غیرت اور خودمختاری کو چن لیا کیونکہ میرا تو
یہ ایمان تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر
ہوتی ہے۔پھر میرے خلاف کیا نہ کیا گیا میرے اوپر کئی حملے کیے گئے میری
غیرت ایمانی کا سودا کرنے کی کوشش کی گئی ۔پیشوا اور نظام انگریزوں کے ساتھ
اتحاد کر کے میرے اوپر پل پڑے۔ میرے پھول جیسے بچوں کو یرغمال بنایا گیا
لیکن میں نہ ان کے سامنے جھکا اور نہ ہی میری استقامت میں کچھ فرق آیا۔ کئی
سال کی انتھک کوشش کے بعد جب میرے اندر کے غداروں کی وجہ سے انہوں نے سرنگا
پٹنم کا گھیراو کر لیا ۔تو میرے پاس دو راستے تھے کہ دریاے کاویری پر موحود
کشتیوں کے ذریعے بھاگ جاو یا شہادت کی موت قبول کر لوں تو اس وقت میں نےبے
غیرتی کی زندگی پر شہادت کی موت جو ترجیح دی ۔میرے فیصلے پہ کچھ لوگوں نے
کہا کہ جذبا تی فیصلہ ہے لیکن مجھے پتا تھا کہ موت نے تو ہر حالت میں ایک
دن آنا ہے پھر کیوں نہ عزت کے ساتھ اسکا سامنا کیا جائے ۔آج جب مجھے شہید
ہو ئے دو سو آٹھارہ سال ہوچکے ہیں میرے اس فیصلہ کی وجہ سے اک چھوٹی سی
ریاست کا حکمران ٹیپو سلطان لوگوں کے دلوں میں آجتک زندہ ہے ۔مسلمان اپنے
بچوں کو فخر کے ساتھ میرے واقعات سناتے ہیں اور میرے دشمن انگریز اپنے
عسکری اداروں میں اپنے سپاہیوں کو میرا طریقہ جنگ سکھاتے ہیں ۔جبکہ میرے
مقابلے میں ظاہری حکومت اورعارضی زندگی کے مقابلے میں غیرت اور خودمختاری
کا سودا کرنے والے مرہٹہ پیشوا اور نظام حیدرآباد کے نام بھی لوگ نہیں
جانتے ۔اگر تاریخ میں ان کا کئی اذکر ہے تو صرف محسن کش اور بے غیرت
حکمرانوں کے طور پر۔ اور میرے ساتھ غداری کرنے والا میر صادق تاریخ میں ایک
گالی بن چکا ہے جس کا ذکر آتے ہی کسی بدکردار کا نقشہ ذہن میں آجاتاہے ۔
محترم وزیراعظم پاکستان آپ مجھ سے کئی بڑی ریاست کے حکمران ہیں آپکی فوج
مجھ سے کئی طاقتور ہے لیکن آج آپکے پاس بھی دو راستے ہیں کہ وقتی حکومت کو
ترجیح دے کر غلامی اور بزدلی والی زندگی چن لیں یا غیرت ایمانی اور
خودمختیاری کا انتخاب کر کے تاریخ میں امر ہو جا ئیں ۔فیصلہ آپنے کرنا ہے
اور وقت انتہا ئی کم ہے۔
آپکا خیرخواہ
شیرمیسور ٹیپو سلطان |
|