وفیات اہلِ قلم۲۰۱۶؁ء

موت ایک اٹل حقیقت ہے اور ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔ہر روز دنیا میں لاکھوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ان جانے والوں میں سے بعض کی موت کی خبرگلی محلے سے باہر نہیں جاتی مگر اہلِ علم وادب کی وفات کی خبر ہر خاص وعام تک ضرور پہنچ جاتی ہے کیونکہ ان کے پڑھنے والے تمام دنیا میں پھیلے ہوتے ہیں۔گذشتہ سالوں کی طرح سال ۲۰۱۶؁ء میں بھی بہت سے اہلِ علم وادب ہم سے بچھڑ گئے تاہم وہ اپنے چھوڑے ہوئے علمی اثاثے کی وجہ سے ہمیں ہمیشہ یاد رہیں گے ۔سال ۲۰۱۶؁ء میں ہمیں داغِ مفارقت دے جانے والے اہلِ قلم درج ذیل ہیں:۔
نیساں اکبر آبادی: آپ معروف شاعر وادیب تھے۔اصل نام سیدعلی عباد تھا۔آپ کے والدسید محمد اسمعیل نیئر اکبرآبادی اور بڑے بھائی سیدعلی سجاد مہر اکبر آبادی بھی شاعر تھے۔نیساں اکبر آبادی نے ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں طویل عرصہ ملازمت کی۔آپ نے غزل،نظم،حمد ونعت اورمرثیہ کی اصناف میں طبع آزمائی کی۔آپ نے۹۲سال کی عمر میں ۲،جنوری کوراول پنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں وفات پائی اور اسلام آبا میں دفن ہوئے۔ آپ کے شعری مجموعے ’’سحاب نیساں ‘‘اور ’’چراغ سخن ‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔آپ نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔آپ کی نثری تصنیف’’مولا علی تاریخ کے آئینے میں‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔
ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب:آپ اردو،فارسی اور عربی زبان کی شاعرہ،ادیبہ اورعامہ تھیں۔آپ ۲۷دسمبر ۱۹۳۵؁ء کو لکھنو(بھارت) میں پیداہوئیں۔آپ علامہ خلیل عرب کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ابتدائی تعلیم کے بعد آپ نے اپنے والد سے قرآن و حدیث اور عربی زبان وادب کی تعلیم لی ۔میٹر ک ،ایف اے اور بی اے آپ نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کی۔دوران تعلیم ریڈیو پاکستان کراچی کے عربی سیکشن میں کام کرنے لگیں۔جامعہ کراچی سے ایم اے عربی میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور وہیں بحیثیت لیکچرر اسلامی علوم تعینات ہو گئیں۔بعدازاں سعودی عرب چلی گئیں اور وہاں درس وتدریس سے منسلک رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تحقیقی مقالے پر بھی کام کرتی رہیں۔ سعودی عرب سے واپسی پر جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور اپنے بھائی محمد ابن خلیل عرب اور اپنی بڑی بہن رقیہ خلیل عرب کی طرح عربی زبان پر مکمل عبور حاصل کرلیا۔جامعہ کراچی میں طویل عرصہ پڑھاتی رہیں اورشعبہ عربی جامعہ کراچی کی سربراہ کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد دوبئی چلی گئیں۔آپ کی پہلی شادی افتخار عظیمی سے ہوئی مگر نباہ نہ ہو سکا۔دوسری شادی سید محمد اویس سے ہوئی جو کراچی میں ایڈیشنل کمشنر تھے۔آپ کی کتب میں محمد الرسول اﷲ(توفیق الحکیم کی کتاب کا اردو ترجمہ)،راشدالمکتوم کی کتاب پر تبصرہ(عربی زبان میں)،المضلیات(پہلی صدی ہجری کی عربی شاعری کا تحقیقی جائزہ) اورسایہ ہے کہ تم ہو(اردو شعری مجموعہ)شامل ہیں۔آپ نے ۴ جنوری کودبئی میں وفات پائی۔
مختار جاوید:آپ معروف شاعر تھے اور جہلم سے تعلق تھا۔آپ نے ۷جنوری کو جہلم میں وفات پائی اور اسی روز جہلم میں تدفین ہوئی۔
صاحبزادہ عطا المصطفٰی نوری :آپ معروف عالم دین ،مصنف ،مترجم اورسماجی شخصیت تھے۔آپ کے والدکا نام شاہ عبدالقادر نوری تھا جو معروف عالم دین اور شیخ الحدیث تھے۔عطاالمصطفٰی ۱۸،مارچ ۱۹۵۵؁ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے ایم اے اسلامیات وتاریخ کیا۔دوران تعلیم آپ انجمن طلبہ اسلام صوبہ پنجاب کے ناظم رہے۔۱۹۹۷؁ء میں مولانا محمد معین الدین شافعی ؒکی وفات کے بعدجامعہ قادریہ رضویہ(ٹرسٹ) فیصل آباد کی نظامت سنبھالی۔آپ نے جامعہ رضویہ قادریہ کے علاوہ مصطفائی کالج برائے خواتین اورایمز کیمبرج سسٹم جیسے ادارے قائم کئے۔آپ فلاحی تنظیم المصطفٰی ویلفیئر سوسائٹی پنجاب کے صدر بھی تھے۔آپ نے بیس(۲۰) سے زائد کتب کی تالیف کی ۔آپ نے ۱۰،جنوری کو وفات پائی۔
نورین انجم بھٹی:آپ اردو اورپنجابی زبان کی معروف ادیبہ وشاعرہ تھیں۔آپ ۲۶جنوری ۱۹۴۳؁ء کو کوئٹہ (بلوچستان) میں پیدا ہوئیں۔ابتدائی تعلیم کا آغازکوئٹہ میں ہوا لیکن بعدازاں آپ کے والدین جیکب آباد (سندھ)آگئے اور تعلیم کا سلسلہ یہاں چلتا رہا۔آپ نے لاہور کالج سے فائن آرٹ میں بی اے اور اورنٹیئل کالج لاہور سے۱۹۷۰؁ء میں ایم اے اردو کیا ۔ ایم اے کرنے کے بعد۱۹۷۱؁ء میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بحیثیت پروڈیوسر عملی زندگی کا آغاز کیا اور ڈپٹی کنٹرولر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔آپ شاکر علی میوزیم لاہور کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر بھی رہیں۔آپ نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران پنجابی زبان میں بھی ایم اے کر لیا۔آپ نے ۹سال کی عمر میں پہلی نظم لکھی جو ’’تعلیم وتربیت‘‘ میں شائع ہوئی۔دوران تعلیم آپ کالج میگزین کی ایڈیٹر بھی رہیں۔زمانۂ طالب علمی کے دوران آپ ریڈیو پر طلبا کے لئے پروگرامز کرتی رہیں۔آپ کی شادی لاہور میں معروف ادیب اور صحافی زبیر رانا سے ہوئی۔آپ کا پہلا شعری مجموعہ’’نیل کرائیاں نیلکاں‘‘۱۹۷۹؁ء میں منظر عام پر آیا۔ آپ کی دیگرتصانیف میں’’موراتم بن جیارا اداس ہے‘‘ ،’’مٹی دی واشنا‘‘ اور’’اٹھے پہر تراہ‘‘(۲۰۰۹؁ء)بھی شامل ہیں۔آپ کی۲، اردو کتب’’بن باس‘‘ اور ’’ترا لہجہ بدلنے تک‘‘ زیر اشاعت ہیں۔ ۲۰۱۱؁ء میں حکومت پاکستان نے آپ کو ’’تمغۂ امتیاز‘‘سے نوازا۔آپ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں۔سی ایم ایچ لاہور میں زیر علاج رہنے کے بعد وفات سے دو ماہ قبل بھائی کو دیکھنے کراچی گئیں۔آپ نے ۲۶ جنوری کوکراچی میں وفات پائی۔آخری رسومات آل سینٹ چرچ کراچی میں ادا کرنے کے بعدآپ کوگورا قبرستان کراچی میں دفن کیا گیا۔
پروفیسرعبدالحنان:آپ۱۹۳۷؁ء میں پیداہوئے۔۱۹۶۱؁ء میں پاک فوج کی میڈیکل کورمیں بحیثیت کمشنڈ افسر بھرتی ہوئے اور ۱۹۹۶؁ء میں ریٹائر ہوئے۔آپ نے آرمی میڈیکل کالج راول پنڈی،شفا انٹر نیشنل اسلام آباد،کنگ فہد ملٹری میڈیکل کمپلکس سعودی عرب،اسلام آباد میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج اسلام آباد،مارگلہ انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹسٹری راول پنڈی،فاطمہ میموریل ہسپتال کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری لاہور اوریونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنس لاہورمیں بھی خدمات انجام دیں۔آپ نے طب پر ۶۰ سے زائد کتب لکھیں۔طبی تحقیق آپ کا خاص میدان تھا۔آپ نے ۲۶ جنوری کو لاہورمیں وفات پائی اوروہیں دفن ہوئے۔
محمد اعظم خان:آپ معروف افسانہ وناول نگار تھے۔۵،اپریل ۱۹۶۱؁ء کولاہور میں پیدا ہوئے۔میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول باغبان پورہ لاہور سے اور ایم اے پنجاب یونی ورسٹی لاہورسے کیا۔وفات سے قبل واک گیس کمپنی لاہورمیں مینیجر فنانس کے طور پر کام کر رہے تھے۔
آپ نے ۲۶جنوری کو جوہر ٹاؤن لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کی کتب میں’’بارش‘‘(افسانے)،’’سمندر آنکھیں‘‘(افسانے)،’’بازی گر‘‘(ناول)،’’پرایا آسمان‘‘(ناول)،’’برائے فروخت‘‘(افسانے)،’’خالی دامن‘‘(ناول)اور’’مجازی
خدا‘‘(ناول)شامل ہیں۔
غلام مصطفی بسمل:آپ پنجابی زبان کے شاعر اور ادیب تھے۔۴،اپریل ۱۹۵۲؁ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔آپ ممتاز شاعر،ادیب اور نقاد امین خیال کے شاگرد تھے۔ ۲۷،جنوری کو گوجرانوالہ میں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے۔آپ پچاس سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔آپ کی شعری کتب میں بیلا پیراں دا،اُڈاریاں،گیتاں دے پرچھاویں اوراکھیاں وچ اُتری شام اور نثری کتب میں ہسدیاں سولاں(کہانیاں)،روپ خوشبوواں دا(گوجرانوالہ کے اہل قلم کا تذکرہ)،اکھر اکھر چانن(تنقید)،چن حرا دا(پنجابی نعتوں کا انتخاب)،تاریخِ پنجاب(اردو) شامل ہیں۔آپ کا حمدیہ اور نعتیہ کلام’’ساہواں دی تلاوت‘‘بھی زیرِ اشاعت ہے۔
ماجد خلیل :آپ معروف نعت گو شاعرتھے۔آپ کا مجموعہ’’روشنی ہی روشنی‘‘کے نام سے شائع ہوا۔آپ نے ۲۷جنوری کو کراچی میں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے۔
انتظار حسین:آپ اردو کے نامورافسانہ و ناول نگار،صحافی اور کالم نگار تھے۔۲۱ دسمبر ۱۹۲۵؁ء کو ڈبائی ضلع بلند شہر(بھارت) میں پیداہوئے۔میرٹھ کالج سے ایم اے کیااور قیام پاکستان کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرکے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور میں’’لاہور نامہ‘‘ کے عنوان کے تحت کافی عرصہ کالم نگاری بھی کی۔آپ کو نمونیہ کے باعث لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں ۲،فروری کو آپ نے وفات پائی۔آپ کی کتب میں آخری آدمی،شہر افسوس،آگے سمندر ہے،بستی،چاند گہن،گلی کوچے،خالی پنجرہ،خیمے سے دور،کچھوے،دن اور داستان،علامتوں کا زوال،بوند بوند،شہر زاد کے نام،زمیں اور فلک اور،چراغوں کا دھواں،دلی تھا جس کا نام،جستجو کیا ہے،قطرے میں دریا،جنم کہانیاں،قصے کہانیاں،شکستہ ستون پر دھوپ اور سعید کی پر اسرار زندگی شامل ہیں۔آپ کو ’’کمال فن‘‘ اور ’’ ستارۂ امتیاز‘‘ جیسے اعزازات عطا ہوئے۔آپ پہلے پاکستانی تھے جن کا نام ’’بکر پرائز‘‘ کے لئے شارٹ لسٹ ہوا۔
فرزند علی :آپ پنجابی زبان کے معروف افسانہ و ناول نگار تھے۔۱۹۴۴؁ء کو نبی پور(شیخوپورہ) میں پیدا ہوئے۔میٹرک کے بعد کاشتکاری میں لگ گئے۔محنت مزدوری سے پیٹ پالتے رہے۔آپ بہت عرصہ مزدور یونین سے بھی وابستہ رہے۔آپ استاد دامن سے۱۹۶۵؁ء میں ملے اور ان کی وفات تک ساتھ رہے۔فرزند علی نے ابتدا میں شاعری بھی کی مگر استاد دامن کے کہنے پر نثر میں اپنا مقام بنانے لگے۔آپ ہیپاٹائٹس کے مریض تھے۔۴،اپریل کو لاہور کے میو ہسپتال میں وفات پائی ۔آپ کے مشہور ناولوں میں تائی،اک چونڈھی لون دی(مسعود کھدر پوش ایوارڈ یافتہ)اور بھبھل(استاد دامن کی زندگی کے متعلق)شامل ہیں۔استاد دامن کے انتقال کے بعدجب استاد دامن اکیڈمی قائم ہوئی تو فرزند علی اس کے پہلے صدرمنتخب ہوئے۔آپ نے ریڈیو اور ٹی وی کے لئے پنجابی ڈرامے بھی لکھے۔
محی الدین نواب:آپ معروف ناول نگار تھے۔۱۹۳۰؁ء میں پیدا ہوئے اور۶،فروری کوکراچی میں وفات پائی۔آپ نے پچاس سے زائد ناول لکھے۔آپ کے ناولوں میں بند مٹھی، طلسم محبت، طاعون، جُوڑے کا پھول، خریدار وفا، شارٹ کٹ ، قصہ نصف صدی کا، کمبل، دیوتا(طویل ترین ناول)، قدیم رشتہ، کالا دل والا،انسان اور شیطان، آخری وعدہ،آبلہ بدن، بدی الجمع، انہونی ،زہریلا پھول،جلوہ نمائی،اندھیرنگری ،پتھر کا شیشہ، محبت کا عذاب،بدست زندہ،حیا کی سولی پر،علاج،عذابِ آگہی،ایمان والے،ہند سے یونان تک،پتھر،بے نام رشتے، سحرشب گذیدہ، پیاسے کو شبنم ، حالات ہائے برہم، راہ خار زار، نیک کمائی، گندی گلی، اجل نامہ، ایک رات کی ملکہ،چلمن،شجر ممنوعہ،خوش دامنی،اجنبی محبوب،ممتا کا عذاب،سپنے سب اپنے،کچے رشتے،کاغذی پیرہن، خالی سیپ،آنچل،واپسی،ایمان کاسفر،سرپرست اور نو سر باز شامل ہیں۔
عارف منصور:آپ کا اصل نام عارف تنویر خان تھا۔آپ ممتاز نعت گو شاعر تھے۔آپ نے۷ ،فروری کو وفات پائی۔
سومیہ کمال:آپ نو عمر شاعرہ تھیں اورنا مساعد حالات کی وجہ سے اپنی والدہ کے ساتھ کسی افسرکے گھرواقع اسلام آباد میں مقیم تھیں۔آپ ۴ ،فروری۱۹۹۵؁ء کو مٹھیال(ضلع اٹک)کے قریب واقع گاؤں سلمان آباد میں پیداہوئیں۔۱۰ فروری کو اسلام آباد میں زہریلی گولیاں کھا کر خو د کشی کی۔آپ کو اپنے آبائی گاؤں سلمان آباد میں دفن کیا گیا۔
فاطمہ ثریا بجیا:آپ اردو زبان کی نامور ادیبہ تھیں۔یکم ستمبر۱۹۳۰؁ء کوریاست حیدرآباد دکن (بھارت)کے ضلع رائچورمیں پیدا ہوئیں۔آپ کے داداقاضی مقصود حسین حمیدی اتر پردیش میں محکمۂ نمک میں سپریٹینڈنٹ تھے اور نانامزاج یار جنگ معروف شاعر تھے۔بجیاکے والد کا نام قمر مقصود حمیدی اور والدہ کا نام افسر خاتون تھا۔قمر مقصود حمیدی نے مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کر رکھی تھی اور افسر خاتون المعروف پاشی اردو اور فارسی کی نثر نگارو شاعرہ تھیں۔آپ احمد مقصود، انور مقصود،زہرہ نگاہ،زبیدہ آپااور سارہ نقوی کی بہن تھیں۔بجیا کی پرورش ایک خالص علمی وادبی ماحول میں ہوئی تاہم وہ خاندانی روایات کی پاسداری کی بناپرکسی باقاعدہ سکول میں پڑھنے کے لئے نہ گئیں۔ انہوں نے گھر میں اتالیق سے پڑھائی کا آغاز کیااورپی ای سی ایچ ایس کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر کام کرتی رہیں۔قیام پاکستان کے بعد خاندان کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئیں۔آپ پاکستان سمال انڈسٹریز میں چیف ڈیزائنر تعینات رہیں۔آپ نے ایڈوائزر ٹو چیف منسٹر سندھ کے عہدے پربھی کام کیا۔آپ نے ابتدائی عمر میں ہی اخبارات ورسائل میں افسانے اور ناول لکھنا شروع کردیے تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے کام کا آغاز ایک ڈرامے میں ساس کا کردار ادا کرنے سے کیااور پھر بحیثیت ڈرامہ نویس آپ پاکستان ٹیلی ویژن سے منسلک ہو گئیں۔آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے کئی ڈرامہ سیریلز تحریر کیں جن میں شمع (۱۹۷۶؁ء،آگہی(۱۹۷۸؁ء)، افشاں(۱۹۸۱؁ء)،انا (۱۹۸۴؁ء)،سپنے(۱۹۸۶؁ء)زینب(۱۹۸۸؁ء)،دریاکنارے(۱۹۸۸؁ء)چہاردرویش(۱۹۸۹؁ء)،عروسہ(۱۹۹۱؁ء)، بابر(۱۹۹۲؁ء)،گھر ایک نگر(۱۹۹۴؁ء)،اساوری(۱۹۹۶؁ء)،تصویر(۱۹۹۷؁ء)،کچھ ہم سے کہا ہوتا(۲۰۰۶؁ء)شامل ہیں۔حکومت پاکستان نے آپ کو ہلال امتیاز(۲۰۱۲؁ء) اور تمغہ برائے حسن کارکردگی جیسے اعزازات سے نوازا۔حکومت جاپان نے آپ کو اپنا اعلی ترین شہری اعزاز عطا کیا۔آپ گلے کے کینسر میں مبتلا تھیں۔آپ نے ۱۰،فروری کو کراچی میں وفات پائی اور۱۱،فروری کو وہیں دفن ہوئیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی:آپ معروف محدث،مدرس اورمصنف اورخطیب تھے۔۱۴ نومبر۱۹۳۷؁ء کو دہلی (انڈیا)میں محمد منیر کے گھر پیدا ہوئے۔اصل نام شمس الدین نجمی تھا۔قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔اپنی معاشی ضروریات کے پیش نظر۸ سال تک کراچی کے مختلف چھاپہ خانوں میں کمپوزنگ کا کام کیا ۔۲۱ سال کی عمر میں دینی علوم سیکھنے کا شوق ہوا تو جامعہ محمدیہ رضویہ ،رحیم یار خان میں مولانامحمد نوازاویسی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔انہوں نے آپ کومولانا عبدالحمید اویسی کے سپرد کیا جن سے آپ نے صرف ونحواور ابتدائی فقہ کی تعلیم حاصل کی۔بعد ازاں جامعہ نعیمیہ لاہورمیں زیر تعلیم رہے۔بندیال (سرگودھا) میں مولاناعطا محمدسے تین سال تک منطق اور فلسفہ پڑھا۔۱۹۶۶؁ء میں جامعہ نعیمیہ میں بطوراستادتعینات ہوئے۔۶جولائی ۱۹۸۵؁ء کو جامعہ نعیمیہ کراچی آگئے اور درس وتدریس کا سلسلہ جاری رہا۔دوسال (۱۹۹۱؁ءسے ۱۹۹۲؁ء)رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین رہے۔دوسال (۱۹۹۷؁ء سے ۱۹۹۹؁ء) کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔آپ کی معروف کتب میں مقالات سعیدی،تذکرۃ المحدثین،حیات استاذالعلماء،ذکر بالجہر،مقام ولایت ونبوت،توضیح البیان(چند اعتراضات کا جوب)،تبیان القرآن(تفسیر) شرح صحیح مسلم اور نعمتہ الباری (شرح بخاری اردو)شامل ہیں۔آپ نے ۵ فروری کو کراچی میں وفات پائی اوروہیں دفن ہوئے۔
ڈاکٹر احسن اختر ناز:آپ ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف ماہر تعلیم بھی تھے۔۱۹۹۳ء ؁سے آپ پنجاب یونی ورسٹی میں ابلاغیات کے شعبے میں بطور اُستادخدمات انجام دے رہے تھے۔۲۰۰۷؁ء میں آپ نے جرمنی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔۲۰۰۹؁ء میں آپ شعبے کے ڈائریکٹر بنا دیئے گئے۔ ’’صحافتی اخلاقیات‘‘ اور’’ترقی پسند تحریک اور صحافت‘‘ جیسی کتب کے مصنف تھے اور قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔آپ ذیا بیطس کے مریض تھے اور اس مرض کی وجہ سے آپ کو ایک ٹانگ سے محروم ہونا پڑا جو پنڈلی کے اوپر سے کاٹ دی گئی۔آپ کے گُردوں نے کام کرنا بند کر دیا تو آپ کو شیخ زاہد ہسپتال لاہور میں داخل کروا دیا گیا جہاں ۱۱،فروری رات ۹ بجے آپ نے انتقال کیا۔وفات کے وقت آپ کی عمر ۵۷ سال تھی۔۱۲،فروری کوپنجاب یونی ورسٹی نیو کیمپس لاہورکے قبرستان میں دفن ہوئے۔آپ کی نماز جنازہ جماعت اسلامی کے سینئررہنمالیاقت بلوچ نے پڑھائی۔
پروفیسر محمد فائق بدایونی:آپ اردو زبان کے نامور ادیب،ماہر تعلیم اور براڈ کاسٹر تھے۔آپ اردو کالج میں نفسیات کے استاد بھی رہے۔ریڈیو پاکستان کراچی کے ذہنی آزمائش کے پروگرموں کی نظامت بھی کی۔آپ نے ادب اور نفسیات پر کئی کتب تخلیق کیں۔آپ نے ۶مارچ کو کراچی میں انتقال کیا۔
ڈاکٹر انورسدید:آپ نامور ادیب،محقق،مترجم ،کالم نگاراور نقاد تھے۔آپ کا اصل نام محمد انوارالدین اور قلمی نام انور سدید تھا۔۴دسمبر۱۹۲۸؁ء کو قصبہ میانی،تحصیل بھلووال،ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔۱۹۶۶؁ء میں سول انجینئرنگ کی ڈگری لی۔بعدازاں ڈھاکہ یونی ورسٹی سے ایم اردو اورپنجاب یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔محکمۂ آب پاشی میں ملازمت کی اور ایگزیکٹو انجینئرکے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔آپ کی کتب میں اقبال کے کلاسیکی نقوش،اقبال شناسی اور ادبی دنیا،اقبال شناسی اور اوراق،اردو افسانے میں دیہات کی پیشکش،اردو ادب میں انشائیہ،اردو ادب میں سفر نامہ،اردو ادب کی تحریکیں،اردو ادب کی مختصر تاریخ،پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ،میر انیس کی اقلیمِ سخن،غالب کا جہاں اور،میر انیس کی قلمرو،غالب کے نئے خطوط(مزاح)فکروخیال(تنقید)،اختلافات(تنقید)،
کھردرے مضامین(تنقید)،نئے ادبی جائزے(تنقید)،شمع اردو کا سفر(تنقید)،برسبیل تنقید،محترم چہرے(خاکہ نگاری)ادبیان رفتہ،مولانا صلاح الدین ایک مطالعہ،وزیر آغا ایک مطالعہ،بانو قدسیہ شخصیت اور فن،مکالمات(وزیر آغا سے انٹرویوز)سخن ہائے گسترانہ(مشفق خواجہ کے کالم)اوراپنے وطن میں(سفرنامہ) شامل ہیں ۔ادبی خدمات کے عوض۲۰۰۸؁ء میں تمغۂ امتیاز حاصل کیا۔۲۰ مارچ کو لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
حسین شاہد:آپ اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر،افسانہ نگاراور نقاد تھے۔آپ طویل عرصہ ہالینڈ میں رہے۔گزشتہ ۱۳،ماہ سے لاہور میں اپنی بیٹی کے پاس مقیم تھے۔آپ نے ۷،اپریل کو لاہور میں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے۔آپ کا پنجابی شاعری کا مجموعہ’’عشق تے روٹی‘‘ کے نام سے مکتبہ فنون نے ۱۹۷۶؁ء میں شائع کیا۔آپ کا تنقیدی کام’’پورنے‘‘ کے نام سے ۱۹۷۲؁ء میں شائع ہو۔اس کتاب میں زیادہ مضامین شاہ حسین اور وارث شاہ کے بارے میں ہیں۔
ڈاکٹر شوکت علی قمر:آپ پنجابی زبان کے شاعر،ادیب،محقق،نقاد اور استاد تھے۔ایک طویل عرصہ درس وتدریس سے وابستہ رہنے کے بعد۲۰۱۰؁ء میں گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی فیصل آباد سے بطور صدر شعبہ پنجابی ریٹائر ہوئے۔آپ نے فیصل آباد میں۸،اپریل کو۶۶سال کی عمر میں وفات پائی۔آپ نے ۱۹۷۶؁ء میں شاعری کی ابتدا کی ،نادر جاجوی اور قمر لدھیانوی سے اصلاح لیتے رہے۔آپ کو ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے پہلے فیچر رائٹر اور ڈرامہ نگار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔آپ ایک طویل عرصے تک روز نامہ’’عوام‘‘ فیصل آباد کاپنجابی صفحہ مرتب کرتے رہے۔آپ نے صوفی شاعر حیدر علی پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔آ پ کی کتب درج ذیل ہیں:۔اکھ دی پیڑ،سمدے پانی،اٹھواں اسمان،درد نگینے،فجریں شاماں پئیا ں،حرف نمازاں
آغا خالد سلیم:آپ اردو،سندھی اور انگریزی زبان کے ادیب،صحافی اور براڈکاسٹر تھے۔۷،اپریل ۱۹۳۵؁ء کو شکار پور میں پیدا ہوئے۔عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا اور سٹیشن ڈائریکٹر بن کر ریٹائر ہوئے۔روزنامہ’’سچ‘‘ اور ’’جاگو‘‘ کی ادارت کی۔آپ نے ۱۲،اپریل کو کراچی میں وفات پائی۔آپ کی کتب میں روشنی جی تلاش( کہانیاں)،دھرتی روشن آہی،اندھی دھرتی روشن ہتھ(ناول)،ان پورو انسان،چند جا تمنائی،لذت گناہ،دردجو شہر،ہمہ اوست(ناول)،ڈھولا مارو،لالن لال لطیف کہے،بابِ فرید،صدین جی صدا،سندھ کی موسیقی اور بابا فرید جا دوہا شامل ہیں۔۲۰۰۳؁ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے آپ کی کتابMelody of Cloudsپرآپ کو شاہ عبدالطیف اور تصوف ایوارڈ سے نوازا۔حکومت پاکستان نے دو مرتبہ(۲۰۰۳؁ء اور ۲۰۱۳؁ء) آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری:آپ انگریزی زبان کے ادیب،مترجم اور ماہر علوم اسلامیہ تھے۔آپ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۲؁ء کوایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام مولانا ظفر احمد انصاری تھا۔آپ کراچی یونی ورسٹی میں زیر تعلیم رہے اور اسلامی جمیعت طلباء کے فعال رکن تھے۔آپ نے ۱۹۶۶؁ء میں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈی(میکگل یونی ورسٹی) مونٹریال (کینیڈا) سے علومِ اسلامیہ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی۔آپ کو اردو،انگریزی اور عربی کے علاوہ فارسی،فرانسسیسی اور جرمن زبان پر عبور حاصل تھا۔آپ نے عملی زندگی کا آغاز۱۹۶۶؁ء میں پرسٹن یونی ورسٹی امریکہ سے بحییثت جزوقتی استاد کے کیا۔ بعد ازاں آپ شاہ عبدالعزیز یونی ورسٹی جدہ سعودی عرب(۱۹۶۷؁ء تا ۱۹۷۰؁ء)، یونی ورسٹی آف ملبورن،آسٹریلیا (۱۹۷۶؁ء)یونی ورسٹی آف شکاگو(۱۹۷۹)اورانٹر نیشنل اسلامک یونی ورسٹی اسلام آباد(۱۹۸۶؁ء تا ۱۹۸۸؁ء)میں درس وتدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔۱۹۸۸؁ء میں آپ کو انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی کیادارہ تحقیقاتِ اسلامی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔آپ نے۲۴،اپریل کو اسلام آباد میں وفات پائی۔آپ نے کئی تحقیقی کتب تصنیف کیں جن میں مولانا مودودی کی تفہیم القران کاانگریزی زبان میں ترجمہTowards Understanding the Qur'an, vols. 1–10،Living Religions of World ,Taftazani’s Views on Taklif, Jabr and Qadar۔Muslims and the West اور Al-Ghazali and Islamic Government شامل ہیں۔
ملک زادہ منظور:آپ معروف شاعر تھے۔اکثر مشاعروں کی نظامت کیا کرتے تھے۔آپ نے ۲۲،اپریل کو وفات پائی۔
عارف رانا:آپ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف پروڈیوسر اور افسانہ نگار تھے۔معروف پروگرام ’’نیلام گھر‘‘کے پروڈیوسر بھی عارف رانا تھے۔آپ پی ٹی وی نیشنل ،اسلام آبادکے پہلے جنرل مینیجر بھی تھے۔آپ کے افسانوں کا مجموعہ’’آدھا کنواں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔آپ نے ۲۵،اپریل کو سڈنی ،آسٹریلیا میں وفات پائی۔
مصطفی کریم:آپ اردو زبان کے معروف ناول نگارتھے۔۱۹۳۲؁ء میں ،گیا،صوبہ بہار(بھارت) میں پیدا ہوئے۔عظیم آباد(بھارت) سے میٹرک کیا۔الٰہ آباد سے آئی سی ایس،مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے بی ایس سی اور ۱۹۵۷؁ء میں ڈھاکہ سے ایم بی بی ایس کیا۔ڈاکٹر بننے کے بعد چار برس فوج میں ملازمت کی۔بعدازاں استعفیٰ دے کر انگلستان چلے گئے۔آپ کی پہلی کتاب ۱۹۸۳؁ء میں گرم دن کے نام سے مکتبہ دانیال کراچی سے شائع ہوئی۔دیگر کتب میں گگلو(افسانے)،دوشاخیں لچکتی ہوئیں(افسانے)،ڈاکٹر بینر جی کی سیاسی تباہی(ناول)،طوفان کی آہٹ(ناول)،راستہ بند ہے(ناول)،روشن خیالی کی فکری اساس(مضامین)،نقش فریادی اور حسن(مضامین)شامل ہیں۔آپ نے ۱۳،جون کو لندن میں وفات پائی۔
ڈاکٹر اسلم فرخی:آپ معروف نقاد،شاعر،محقق ،خاکہ نگار،براڈ کاسٹراور ماہر تعلیم تھے۔۲۳،اکتوبر۱۹۲۴؁ء کو لکھنو(بھارت) کے محلے سبحان نگرکے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کا خاندان فتح گڑھ،ضلع فرخ آباد (یو پی ،بھارت)سے لکھنو منتقل ہوا تھا۔آپ کے والد کا نام احسن فرخی تھا۔آپ کے دادا، والد اور خاندان کے کئی افراد شاعراور ادیب تھے۔آپ کی بہنیں بھی شعر کہتی تھیں۹،اپریل ۱۹۵۵؁ء کو آپ کی شادی تاج فرخی (اردو کے عظیم ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کی پڑپوتی اور شاید احمد دہلوی کی بھتیجی )سے ہوئی۔آپ کے بیٹے آصف فرخی معروف نقاد،افسانہ نگار،مترجم اور اُستاد ہیں۔۵ستمبر۱۹۴۷؁ء کو پاکستان آنے کے بعداسلم فرخی نے جامعہ کراچی سے ایم اے اردو اور پی ایچ ڈی کی ۔ بعدازاں تعلیم وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔سندھ مسلم کالج کراچی،گورنمنٹ کالج کراچی اور جامعہ کراچی میں اردو کی تدریس میں مصروف رہے۔جامعہ کراچی میں آپ ناظم شعبہ تصنیف وتالف وترجمہ اور رجسٹرار کے منصب پر بھی فائز رہے۔آپ نے ۱۵،جون کو کراچی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔۲۰۱۲؁ء میں آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔آپ کی کتب
میں محمد حسین آزاد،حیات وتصانیف(تنقید۔۱۹۶۵؁ء)،گلشنِ ہمیشہ بہار(تذکرہ شعراء۔۱۹۶۷؁ء)نظام رنگ(تصوف۔۱۹۸۸؁ء) صاحب جی سلطان جی(تصوف۔۱۹۸۹؁ء)،فرید وفردِ فرید(تصوف۔۱۹۹۰؁ء)بابائے اردو مولوی عبدالحق(بچوں کے لئے۔۱۹۹۳؁ء)،ڈپٹی نذیر احمد(۱۹۹۳؁ء)،بچوں کے رنگا رنگ امیر خسرو(۱۹۹۳؁ء)،مرزا غالب(۱۹۹۳؁ء)،محمد حسین آزاد(۱۹۹۳؁ء)،قلفی والی سائیکل(۱۹۹۳؁ء)، گلدستۂ احباب(خاکے۔۱۹۹۴؁ء)،مولانا حسرت موہانی(۱۹۹۴؁ء)،میر امن(۱۹۹۴؁ء)،شبلی نعمانی(۱۹۹۴؁ء)،فرمایا حضرت سلطان جی نے(۱۹۹۸؁ء)،فرمایا خواجہ غریب نواز نے(۱۹۹۸؁ء)،فرمایا حضرت داتا گنج بخش نے(۱۹۹۹؁ء)،فرمایا حضرت غوث الاعظم نے(۲۰۰۰) ،سلطان جی(۲۰۰۰؁ء)،مولا بخش ہاتھی(۲۰۰۰؁ء)،فرمایا خواجہ فرید الدین گنج شکر نے(۲۰۰۱؁ء)آنگن میں ستارے(خاکے۔۲۰۰۱؁ء)،لال سبز کبوتروں کی چھتری(خاکے۔۲۰۰۵؁ء)،بزمِ صبوحی(۲۰۰۸؁ء)بزمِ شاہد(۲۰۰۹؁ء)موسم بہار جیسے لوگ(خاکے۔۲۰۱۰؁ء)،نگارستانِ آزاد(۲۰۱۰؁) ،سات آسمان(۲۰۱۱؁ء)رونق بزم جہاں(خاکے۔۲۰۱۴)،
حضرت موسیٰ علیہ السلام(۲۰۱۵؁ء)اوردبستان نظام شامل ہیں۔
سید عارف:آپ اردو اور پنجابی زبان کے معروف شاعر تھے۔۱۲،فروری ۱۹۴۹؁ء کو پیدا ہوئے۔روزنامہ جنگ راول پنڈی کے ادبی صفحے کے انچارج تھے۔آپ کی شعری کتب میں لہو کی فصلیں ،نغمۂ غم،زخم بھرتے نہیں،عکس میرے وجود کے اور ہم دیئے جلاتے ہیں شامل ہیں۔آپ نے ۱۸،جون کو راول پنڈی میں وفات پائی اوراسی روز میڈیا ٹاؤن اسلام آباد میں دفن ہوئے۔
ڈاکٹرطیب منیر:آپ اردو زبان کے نثر نگار،محقق اور ماہر تعلیم تھے۔۵جنوری ۱۹۵۱؁ءکو قصور میں پیدا ہوئے۔درس وتدریس سے وابستہ رہے۔مختلف کالجوں میں پڑھانے کے بعدبین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ،اسلام آباد نے آپ کی خدمات حاصل کیں۔آپ کا پی ایچ ڈی مقالہ چراغ حسن حسرت پر تھا۔اس مقالے کو ادارہ یادگار غالب نے ۲۰۰۳؁ء میں شائع کیا۔آپ نے مشفق خواجہ کے خطوط کو ’’خطوط ِمشفق ‘‘ کے نام سے مرتب کرکے ۲۰۰۶؁ء میں شائع کرایا۔چراغ حسن حسرت کے کلام کے بھی مرتب کیا اور ’’باتیں حسن یار کی‘‘ کے نام سے ۲۰۰۷؁ء میں شائع کیا۔آپ نے ۲۲ جون کو راول پنڈی میں سڑک کے حادثے میں جان دی۔
سلطان محبوب ساغر:آپ فتح جنگ (ضلع اٹک) کے معروف شاعرتھے۔حلقہ ارباب سخن فتح جنگ کے روح رواں تھے۔آپ فتح جنگ شہر کے معروف شاعر شاکر بیگ کے اولین شاگردوں میں سے تھے۔آپ نے ۲۵جون کو ۵۸ سال کی عمر میں ٖفتح جنگ میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
احسن سلیم:آپ اردو زبان کے شاعر اور ادبی رسالے سہ ماہی’’اجرا‘‘ کے مدیر تھے۔اس رسالے کے ذریعے آپ نے ’’ادب برائے تبدیلی‘‘کی تحریک چلائی۔اس ضمن میں وہ ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد بھی چاہتے تھے مگران کی بیماری کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔آپ کی کتب میں ست رنگی آنکھیں(شاعری)،منجمد پیاس(شاعری) اورپتوں میں پوشیدہ پوشیدہ آنکھ(خطوط)شامل ہیں۔آپ ٹی بی کے مرض میں مبتلا تھے اور اوجھا سینٹوریم کراچی میں زیرِ علاج تھے۔ آپ نے ۲۶جون کو کراچی میں وفات پائی اور پاپوش نگرکراچی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
ذکا ء الرحمن:آپ معروف افسانہ نگارتھے۔ایک عرصہ کراچی میں قیام کے بعد لاہور آ گئے۔حلقہ ارباب ذوق کے سرگرم رکن تھے۔۳جولائی کو لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی:آپ عربی اور اردو زبان کے اعلیٰ پائے کے مصنف،محقق اور ماہر تعلیم تھے۔۱۹۲۸؁ء میں رام پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا۔۱۹۴۵؁ء میں منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ندوۃالعلماء لکھنؤ میں خدمات انجام دیں۔۱۹۵۰؁ء سے ۱۹۵۵؁ء تک مکہ،مدینہ اور مصر کے علما سے استفادہ کیا۔۱۹۶۳؁ء میں کیمرج یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔کچھ عرصہ کراچی یونی ورسٹی سے بھی وابستہ رہے۔۱۹۶۳؁ء سے ۱۹۸۷؁ء تک مصر،شام،لیبیا اور سعودی عرب کی مختلف یونی ورسٹیوں میں پڑھاتے رہے۔۳۳ برس تک درس وتدریس سے وابستہ رہے۔آپ نے عربی زبان میں ۷ اور اردو زبان میں۵ کتب تصنیف کیں۔آپ نے ۶جولائی کو کراچی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
آغا ناصر:آپ معروف براڈ کاسٹر،ڈائریکٹر اور مصنف تھے۔۹ فروری۱۹۳۷؁ء کو میرٹھ (یو پی ،بھارت)میں پیدا ہوئے۔کراچی یونی ورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا۔۱۹۵۵؁ء میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔پروگرام پروڈیوسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے ریڈیو پر کام کیا۔۱۹۶۴؁ء میں پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو آغا ناصر ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔ٹی وی پر آپ نے بحیثیت پروگرام منیجر ،جنرل منیجر،ڈائریکٹر پروگرام اور منیجنگ ڈائریکٹر کام کیا۔آپ کو ۱۹۹۴؁ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور ۲۰۱۲؁ء میں ستارۂ امتیاز عطا کیا گیا۔آپ نے ۱۱،جولائی کو اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔آپ کی کتب میں سات ڈرامے(۱۹۷۵؁ء)،آغا ناصر کے ٹیلی ویژن ڈرامے(۹۸۸؁ء)،پچیس ڈرامے،گرہ نیم بازاور دوسرے ڈرامے،بیس افسانے،چند خاکے اور رپورتاژ،گم شدہ لوگ،گلشن ِیاد اور ہم جیتے جی مصروف رہے شامل ہیں۔
محمد احمد سبزواری:آپ پاکستان کے معمر ترین ادیب،کالم نگار اور مبصر تھے۔آپ ۱۶ جنوری ۱۹۱۳؁ء کوبھوپال (ہندوستان)میں پیدا ہوئے۔بھوپال سے میٹرک،اورنگ آباد سے انٹرمیڈیٹ اور جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن سے بی اے اور ایم اے کیا۔۱۹۳۱؁ء میں آپ کا پہلا مضمون ’’جنوں کی کہانیاں‘‘ رسالہ تہذیب نسواں لاہور میں شائع ہوا۔آپ کا تعلق معاشیات سے تھا اس لئے آپ کی پہلی کتاب’’موضع ملگ کی معاشی تحقیق‘‘ کے نام سے۱۹۳۸؁ء میں شائع ہوئی۔۱۹۴۲؁ء میں ’’ہمارے بنک‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی۔آپ نے ڈاکٹر گیڈ گل کی انگریزی کتاب کاترجمہ’’دور جدید میں ہندوستان کا صنعتی ارتقا‘‘کے نام سے کیا۔یہ کتاب ۱۹۴۵؁ء میں جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے ایم اے معاشیات کے نصاب میں شامل رہی۔قیام پاکستان کے بعدآپ نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے کہنے پر’’فرہنگ اصطلاحاتِ بینکاری‘‘مرتب کی۔آپ کی دیگر کتب میں’’اسلام میں بچت‘‘،’’اصطلاحاتِ عمرانیات‘‘،’’رضیہ حامدفن وشخصیت‘‘ اور ’’ہند میں اردو ساتویں صدی سے‘‘ شامل ہیں۔آپ روزنامہ جنگ میں معاشی موضوعات پر کالم بھی لکھتے رہے۔انجمن ترقی اردو کراچی کے رسالے’’قومی زبان‘‘میں آپ کے مختلف کتب پر لکھے گئے تبصرے شائع ہوتے رہے۔آپ نے۱۰۳ سال کی عمر میں۱۴جولائی کراچی میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
مسلم سجاد:آپ معروف ماہر تعلیم،دانشور اور ادیب تھے۔آپ سائنسی علوم میں مہارت رکھتے تھے۔آپ کا علمی وادبی کام کافی دقیع تھا۔آپ ’’چراغِ راہ‘‘(کراچی) کی مجلس ادارت کے رکن’’وائس آف اسلام‘‘(کراچی)کے مدیراور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے رسالے’’تعلیم:اسلامی تناظر میں‘‘کے شریک مدیر رہے۔آپ نے اسلامی نظام تعلیم،مخلوط تعلیم اور تعلیم کے زندہ مسائل پر بہت کچھ لکھا۔’’اسلامی ریاست میں نظامِ تعلیم‘‘اس سلسلے میں آپ کی اہم کتاب ہے۔آپ نے ۲۸،اگست کو منصورہ میں وفات پائی۔
رحمت اﷲ درد:آپ پشتو زبان کے نامور غزل گو تھے۔۴ دسمبر ۱۹۳۷؁ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔مختلف اداروں میں تدریسی فرائض سر انجام دینے کے بعدگورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج ،بنوں(خیبر پختون خواہ) سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔۳۱،اگست کو آبائی گاؤں مستی خیل تحصیل لکی مروت (خیبر پختون خواہ)میں وفات پائی۔آپ کے سات شعری مجموعے شائع ہوئے۔
زاہد ملک:آپ معروف صحافی ،مصنف،دانشور اور نظریہ پاکستان کونسل کے بانی تھے۔۵،اکتوبر ۱۹۳۷؁ء کو پیدا ہوئے۔۱۹۶۰؁ء میں ابلاغ عامہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ۔مختلف اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے بعدبحیثیت جائنٹ سیکرٹری ریٹائر ہوئے۔۱۹۷۶؁ء میں اپنا پبلیکیشن ہاؤس قائم کیا۔انگریزی روزنامہ پاکستان آبزرورقائم کیا اور تا دم مرگ اس کے ایڈیٹر ان چیف رہے۔آپ ایک درجن سے زائد کتب کے مصنف تھے ۔علاوہ ازیں آپ نے ۲۰۰سے زائد مضامین اور تجزیاتی مقالے قلمبند کئے۔۲۰۱۱؁ء میں آپ کو ستارۂ امتیاز عطا کیا گیا۔آپ نے یکم ستمبر کو اسلام آباد میں وفات پائی۔
کلیم شہزاد:آپ اردو اورپنجابی زبان کے معروف نقاد،محقق،شاعر اور ادیب تھے۔اصل نام فقیر محمد تھا۔آپ یکم مئی ۱۹۵۵؁ء کو بورے والا میں لال دین بھٹی کے گھر پیدا ہوئے۔بورے والا سے ایف اے کرنے کے بعد۱۹۷۵؁ء میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے بی اے کیا۔پنجاب یونی ورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی اوراسی پونی ورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم اے پنجابی کیا۔۱۹۸۱؁ء میں بورے والا میں وکالت شروع کی۔بورے والا سیشن کورٹ میں سپیشل پبلک پراسیکیوٹربھی رہے۔ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری
رہیں۔آپ ادبی تنظیم ’’لالہ اکیڈمی‘‘ کے چیئر مین بھی رہے۔آپ نے ۹ستمبر کو وفات پائی۔
عبداﷲ جان جمالدینی:آپ بلوچستان کے ممتازادیب اور دانشورتھے۔۸ مئی ۱۹۲۲؁ء کو نوشکی(بلوچستان)میں پیدا ہوئے۔۱۹۵۳؁ء میں تحصیل داری چھوڑ کربلوچستان یونی ورسٹی میں درس وتدریس سے وابستہ ہوگئے اور۱۹۸۶؁ء میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے یہیں سے ریٹائر ہوئے۔آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔آپ نے اپنی سوانح لٹ خانہ کے نام سے تحریر کی۔آپ نے۱۹،ستمبرکو کوئٹہ میں وفات پائی اور ۲۰ ستمبر کو کلی باتو،نوشکی میں دفن ہوئے۔
پرتو روھیلہ:آپ اردو زبان کے محقق،دانشوراور شاعر تھے۔اصل نام مختار علی خان تھا۔۲۳نومبر ۱۹۳۲؁ء کو روھیل کھنڈ ،یوپی کے شہربریلی(ہندوستان) کے ایک پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے۔حافظ رحمت خان والیٔ روھیل کھنڈ سے نسبی تعلق کی وجہ سے آپ اپنے نام کے ساتھ روھیلہ لکھتے تھے۔۱۹۵۰؁ء میں خاندان کے ساتھ آپ پاکستان آئے اور بنوں(خیبر پختون خواہ)میں سکونت اختیار کی۔اسلامیہ کالج پشاور سے بی اے آنرز اورلاء کالج پشاور سے ایل ایل بی کیا۔۱۹۵۷؁ء میں مقابلے کے امتحان میں منتخب ہو کرپاکستان ٹیکسیشن سروس میں ملازمت اختیار کی جہاں سے ۱۹۹۳؁ء میں ممبر سنٹرل بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔آپ نے ۲۹ستمبر کو اسلام آباد میں وفات پائی۔حکومت پاکستان کی طرف سے۱۹۹۴؁ء میں آپ کوصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ۲۰۰۸؁ء میں ستارہ امتیاز دیا گیا۔آپ کی شعری کتب میں ایک دیا دریچے میں،آواز،شکستِ رنگ،سفر دائروں کا،رین اُجیارا،نوائے شب اور پرتوِ شب شامل ہیں۔آپ کی کلیات دامِ خیال کے نام سے شائع ہوئی۔سفر گزشت کے نام سے آپ کا امریکہ کاسفر نامہ بھی شائع ہو چکا۔آپ نے ۲۴کتب تصنیف کیں جن میں سے ۱۱(گیارہ) کتب مرزاغالب پر ہیں۔
اسلم کولسری:آپ اردو اور پنجابی زبان کے شاعر اور ادیب تھے۔میٹرک کرنے کے بعد ۱۹۶۸؁ء سے ۱۹۷۸؁ء تک ایک لیبارٹری میں ملازمت کرتے رہے۔دوران ملازمت انٹرمیڈیٹ،گریجویشن اورماسٹر کیا۔روزنامہ مشرق لاہورسے بطور سب ایڈیٹر اور کالم نگار وابستہ رہے۔اردو سائنس بورڈ میں بطورریسرچ آفیسر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کام کرتے رہے۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج ،آرٹ اینڈ کلچر(PILAC)میں بھی ڈپٹی ڈائریکٹر رہے۔ترنجن اور معاصر انٹر نیشنل کے مدیر بھی رہے۔آپ نے بچوں کے لئے کہانیاں لکھیں اورسٹیج ڈرامے بھی تحریر کئے۔آپ کے شعری مجموعوں میں کاش،نیند،برسات،نخلِ جاں،جیون،ویرانہ،کوئی ،کیف،پنچھی اورایک نظر کافی ہے، شامل ہیں۔آپ نے۷نومبر کو لاہور میں وفات پائی اور اپنے آبائی گاؤں جمار،نزد اوکاڑہ کینٹ میں دفن ہوئے۔
سعید قیس:آپ اردو زبان کے معروف شاعرتھے۔اصل نام محمد سعید تھا۔آپ۲۸ مئی۱۹۲۸؁ء کو تکیہ سادھووالا،موچی گیٹ،لاہور میں پیداہوئے۔ ابتدائی تعلیم مشن ہائی سکول رنگ محل لاہور سے حاصل کی۔تلاش رزق کے لئے پہلے سعودی عرب اور پھر بحرین کا سفر کیا۔آپ کے پانچ اردو شعری مجموعے،حدیث غم(۱۹۶۸؁ء)،ہجر کے موسم(۱۹۸۰؁ء)،دیوار ود(ر۱۹۹۴؁ء)،محبت روشنی ہے(۱۹۹۷ء) عکس پڑتا ہے چاندکا(۲۰۰۶؁ء) اورایک پنجابی شعری مجموعہ کھاری مٹی(۲۰۱۲؁ء) شائع ہو چکے ہیں۔آپ نے ۱۳،دسمبر کو بحرین میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
انورقدوائی:آپ معروف صحافی اور کالم نگار تھے۔ روزنامہ جنگ میں قلم کی آواز کے عنوان سے طویل عرصے تک کالم لکھتے رہے۔روزنامہ نوائے وقت میں چیف رپورٹر رہے۔۲۳دسمبر کو لاہور میں وفات پائی اور ۲۴ دسمبر کو لاہور میں دفن ہوئے۔
رفعت قادرحسن:آپ معروف صحافی ،کالم نگاراور افسانہ وناول نگارتھیں۔روزنامہ نوائے وقت میں رپورٹنگ اورکالم نگاری کرتی رہیں۔ آپ ممتاز کالم نگار عبدالقادر حسن کی اہلیہ تھیں۔آپ کی پنجابی کہانیوں کے مجموعے ،اک اوپری کڑی(۱۹۶۸؁ء) ،بتی والا چوک اورامرت نواس کے نام سے شائع ہوئے۔آپ کے ناول ہسپتال(اردو) اور ویہڑے وچ پردیس(پنجابی) کے نام سے شائع ہوئے۔آپ نے ۲۴ دسمبر کو لاہور میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئیں۔
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 6 Articles with 15508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.