انوکھی موت
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
شبینہ
کا تعلق ایک بہت غریب گھرانے سے تھا ۔ وہ کل دو بہنیں تھیں ۔ بڑی بہن کی
شادی ہو چکی تھی ۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا ۔ ماں سلائی کڑھائی اور دیگر
گھریلو ہنر مندی اور دستکاری وغیرہ سے متعلق کام کر کے جیسے تیسے گھر کا
خرچ چلاتی تھی ۔ بہن بیچاری خود ایک سفید پوش گھرانے میں بیاہی گئی تھی پھر
بھی حسب مقدور چھوٹی بہن اور بیوہ ماں کا خیال رکھنے کی کوشش کرتی تھی ۔
کچھ رشتہ دار بھی مدد کر دیا کرتے تھے ۔ اس طرح گزر بسر چل رہی تھی ۔ شبینہ
گاؤں کے واحد پرائمری اسکول سے پانچویں پاس کرنے کے بعد گھر کے کام کاج کے
علاوہ ماں کی محنت مزدوری میں بھی ہاتھ بٹا دیا کرتی تھی جسے روزی روٹی کے
حصول کے ساتھ بیٹی کے رشتے کی بھی فکر دامن گیر رہتی تھی کیونکہ اسے گھر
بیٹھے اب کافی سال ہو چکے تھے غربت کی وجہ سے کوئی ڈھنگ کا رشتہ آتا ہی نہ
تھا یا پھر بات بنتے بنتے رہ جاتی تھی ۔ بس انہی حالات میں دن گزر رہے تھے
۔ پھر اچانک ہی شبینہ کی طبیعت خراب رہنے لگی ۔ ڈاکٹر ہو یا حکیم صاحب ،
کسی کو بھی اس کی بیماری کے بارے میں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ۔ کوئی
دوا اس پر اثر نہیں کر رہی تھی ۔ جب اس کی صحت دن بدن جواب دیتی چلی گئی
اور وہ بالکل ہی بستر سے لگ گئی تو کچھ مخیر خدا ترس حضرات کے مالی تعاون
سے شہر میں اس کے علاج کا بند و بست کیا گیا ۔ ٹیسٹ وغیرہ ہوئے تو یہ روح
فرسا رپورٹ سامنے آئی کہ شبینہ کو بلڈ کینسر کی آخری سٹیج چل رہی ہے اور اب
بیماری لا علاج ہو چکی ہے ۔ ڈاکٹروں نے اس کی رپورٹس کی روشنی میں اس کی
باقی کی زندگی کے صرف تین ماہ کا امکان ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اب
بچی کو گھر پر ہی رکھ کر دوا اور دعا کی جائے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں
ہے ۔ پھر یہ حال ہؤا کہ شبینہ کو بیڈ سورز ہو گئے ۔ جگہ جگہ سے جسم اُبلے
ہوئے آلو جیسا ہو گیا کہ ہاتھ لگنے سے دھنسنے لگتا ۔ پیپ اور خون بہنے لگتا
۔ پورا گاؤں اسے دیکھنے آیا کرتا اور معصوم نوجوان بچی کی اذیتناک حالت
دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتا ۔
ایک روز شبینہ نے صبح جاگنے کے بعد ماں کو بتایا کہ " رات کو کسی آہٹ سے
اچانک اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ پائینتی کی طرف دو بندے کھڑے ہیں ۔ کمرے
میں نیم تاریکی کے باعث ان کے چہرے واضح نہیں تھے ۔ ہاں ان کے سر سے پیر تک
سفید لباس کا پتہ چل رہا تھا ۔ جب وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو ایک نے اپنا
ہاتھ اٹھا کر اسے اپنا پنجہ پھیلا کر دکھایا ۔ بس اس کے بعد اسے پھر نیند
لگ گئی "
اور اس واقعے کے ٹھیک پانچ روز بعد شبینہ کا انتقال ہو گیا ۔ شکل صورت تو
اچھی ہی پائی تھی بیماری کے باعث مرجھا گئی تھی مگر مرنے کے بعد پھر سے تر
و تازہ ہو گئی ۔ کفن میں لپٹی ہوئی وہ کوئی شہزادی لگ رہی تھی ۔ یہ ایک بہت
ہی روح پرور اور ایمان افروز منظر تھا ۔ عورتیں اسے دیکھنے کے لئے ٹوٹی پڑ
رہی تھیں ۔ دیکھے جاتی تھیں مگر ان کا دل بھرتا نہیں تھا ۔ بمشکل اس کا
جنازہ اٹھایا گیا ۔ اور ایک عرصے تک گاؤں میں اس انوکھی موت کا چرچا رہا ۔
|
|