ایک ناقابل یقین اور محیرالعقول سچا واقعہ
(Rana Tabassum Pasha(Daur), Dallas, USA)
پینتیس
سالہ نظیر ایک شادی شدہ بال بچے دار غریب آدمی تھا ۔ گاؤں میں اس کی چھوٹی
سی پرچون کی دکان تھی جس کی آمدن سے گذر بسر مشکل سے ہی ہوتی تھی تو بیچارہ
موقع لگنے پر چھوٹے موٹے محنت مزدوری کے کام بھی کر لیا کرتا تھا ۔ ایک روز
اس کی گردن پر داہنی جانب ہنسلی کی ہڈی اور کندھے کے سنگم پر ایک پھوڑا نکل
آیا ۔ جو دو چار دنوں میں کافی بڑھ گیا اور تکلیف بھی بہت بڑھ گئی ۔ گھر کی
دوا دارو سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا ۔ جب پھوڑے کے سائز اور درد میں
بہت اضافہ ہو گیا وہ پھوٹنے کے قریب ہو گیا اور تکلیف بھی ناقابل برداشت ہو
گئی تو وہ وہیں گاؤں کے چھوٹے سے بازار کے ایک کونے پر واقع ایک اتائی
ڈاکٹر کے کلینک پر چلا گیا ۔ اس وقت تک گاؤں میں نہ کوئی سرکاری اسپتال یا
ڈسپنسری تھی اور نہ ہی کوئی کوالیفائیڈ ڈ اکٹر ۔ مگر اتائی ڈاکٹر کے ہاتھ
میں اللہ نے بڑی شفا رکھی تھی ۔چھوٹے موٹے عام امراض کے علاج کے علاوہ
چھوٹی موٹی سرجری بھی کر لیا کرتا تھا ۔ آس پاس کے دیہات وغیرہ سے مریض اس
کے پاس آیا کرتے تھے کلینک پر خوب رش لگا رہتا تھا ۔ یہ بھی چلا گیا ڈاکٹر
نے پھوڑے کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اسے چیرا لگا کر صاف کیا اور مرہم پٹی
کردی ۔ اور اسے ایک آدھ روز آرام کرنے کا مشورہ دیا ۔ مگر وہ اپنی دکان پر
چلا گیا ۔ پھوڑے کے زخم میں اب بھی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں جس سے اس کی آنکھیں
مُندھ رہی تھیں ۔
اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اسے جھپکی لگ گئی ۔ کسی کے جھنجھوڑنے پر آنکھ
کھلی تو ہر طرف ایک دھندلکا سا تھا اور سامنے دو بندے نظر آ رہے تھے اسے
جاگا دیکھ کر ایک نے کہا " ہم تمہیں لینے آئے ہیں ہمارے ساتھ چلو "
اس نے کہا " بھائی تم کون ہو کہاں سے آئے ہو اور مجھے کیوں لے جانا چاہتے
ہو؟
کہنے لگے " ہمارے سردار نے تمہیں بلایا ہے تمہیں اسی کے پاس لے جانے آئے
ہیں "
اس نے کہا " میں تمہیں جانتا ہی نہیں تو پھر میں تمہارے ساتھ کیوں چلوں؟
مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اسے پکڑ کر کھینچا تو پھوڑے کے زخم میں
ٹیسوں کا طوفان برپا ہو گیا ۔ وہ چکرا کے رہ گیا اور وہ دونوں نامعلوم
اشخاص اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے چلے ۔ نظیر پر درد کی شدت سے غشی سی
طاری ہو گئی ۔ اسے اپنے گرد و پیش کی کچھ خبر نہ تھی کہ اسے کن راستوں سے
گذارا جا رہا ہے ۔ جاگنے کے بعد سے اس نے کوئی منظر واضح نہیں دیکھا تھا
سوائے ایک دھند سی کے اور ان دو افراد کی شبیہیں سی ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا
کہ کب ان دونوں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر ایک جگہ کھڑا کر دیا ۔ اس نے ڈھلکی
ہوئی گردن اور نیم وا آنکھوں سے بس اتنا ہی دیکھا کہ ایک کافی اونچی مسند
نما کرسی پر ایک بہت تگڑا و توانا شخص براجمان ہے ۔ نظیر کو دیکھتے ہی ان
دونوں سے مخاطب ہو کے کہنے لگا ۔
" ارے ، یہ تم کسے اٹھا لائے ہو؟ میں نے نظیر نہیں نظیراں کہا تھا ۔ چلو
اسے واپس چھوڑ کے آؤ اور نظیراں کو لے کر آؤ "
اب وہ دونوں پھر نظیر کو کھینچتے ہوئے لے چلے اور اس کا دماغ تاریکیوں میں
ڈوبتا چلا گیا ۔ اور جب نظیر ہوش میں آیا اس کی آنکھ کھلی تو خود کو گھر کے
اندر ایک چارپائی پر پڑا ہؤا پایا ۔ وہ حیران ہو کر جھٹکے سے اٹھ بیٹھا تو
کیا دیکھتا ہے کہ بچے پاس کھڑے رو رہے ہیں بیوی نیچے چارپائی کی پائنتی
پکڑے نڈھال بیٹھی ہے ۔ کمرے میں کئی لوگ موجود تھے باہر صحن سے بھی لوگوں
کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ نظیر کو ہوش میں آتے دیکھ کر ایک ہنگامہ مچ گیا ۔
اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟
پوچھنےپر لوگوں نے بتایا کہ " تم دکان پر بیہوش پڑے ہوئے تھے لوگوں نے
تمہیں اس حالت میں دیکھا تو ڈاکٹر اور حکیم دونوں کو بلا لائے ۔ تمہاری نہ
تو نبض کا پتہ چل رہا تھا اور نہ ہی دل کی دھڑکن کا ۔ انہوں نے اعلان کیا
کہ نظیر کا آخری وقت آ گیا ہے اب اسے گھر لے جا کر اللہ سے دعا کرو کہ اس
کی مشکل آسان کرے ۔ پھر لوگ تمہیں اٹھا کر گھر لے آئے ۔ ابھی کچھ ہی دیر
پہلے "
نظیر کسی خیال کے زیر اثر بُری طرح چونک اٹھا ۔ نظیراں نامی ایک غریب محنت
کش عورت سب ہی کی جاننے والوں میں سے تھی ۔ اس نے کہا " نظیراں کا کیا حال
ہے؟ ذرا اس کی خیریت تو پتہ کرو "
کسی نے کہا " وہ بالکل ٹھیک ہے اسے کیا ہونا ہے؟ دوپہر میں ہی راستے میں
ملی تھی بات ہوئی تھی "
ایک دو اور نے تائید کی کہ " ان کی آج ہی نظیراں سے ملاقات ہوئی ہے بالکل
بھلی چنگی تھی کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے "
مگر نظیر بضد رہا کہ نظیراں کا احوال معلوم کر کے اسے بتایا جائے ۔ اور خبر
مل گئی کہ نظیراں کا انتقال ہو گیا ہے بالکل بھلی چنگی تھی زمینوں پر کام
کر رہی تھی کہ اچانک طبیعت بگڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے چٹ پٹ ہو گئی ۔
قارئین! یہاں نظیر کو اٹھا لے جانے والے ان دو بندوں کو نعوذ باللہ فرشتے
سمجھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا حالانکہ وہ بھی جسمانی طور پر اپنی
دکان پر موجود تھا عینی گواہان کے مطابق وہ وہاں سے غائب نہیں ہؤا تھا ۔
بیہوشی کی حالت میں پڑا ہؤا پایا گیا تھا ۔ اور اسی دورانئے میں اسے حالت
بیداری والا تجربہ ہؤا ۔ نظیر نے ساری تکلیف دہ کیفیات کو جسمانی طور پر
محسوس بھی کیا تھا اور سہا بھی تھا ۔ یہ یقیناً کوئی اور ہی مخلوق تھی غیر
انسانی مخلوق جس کی کارروائی کے نتیجے میں نظیراں اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھی ۔ اور بظاہر ایک طبعی موت سے ہمکنار ہوئی ۔ |
|