تحریر:فاطمہ
نور
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اﷲ تعالیٰ نے انسان کی سرشت میں اختراح و ایجاد کا مادہ رکھا ہے جس کو
بروئیکار لا کر وہ صدیوں سے اپنی زندگی میں جدت اور تنوع لاتا رہا ہے ۔غاروں
سے نکل کر گروہوں کی صورت مل کر رہنا ہو یا چقماق پتھر سے گھاس پھونس جلانے
سے لے کر،جانوروں کی چربی سے بنے دیوں تک یا پھر نقل و حمل کیلئے پتھر اور
لکڑی سے بنے پہییکی ایجاد تک ایجادات اور اختراعات کا ایک لمبا نا رکنے
والا،طویل سلسلہ ہے جو تاحال جاری ہے ۔سائنس کا میدان ہو یا الیکڑانک،صنعت
و زراعت،طب یا پھر دفاعی آلات و سازوسامان ہر میدان میں نئے طریقے کار اور
اختراعات کو اپنا کر ترقی کی منازل طے کی جا رہی ہیں۔یہی حال ابلاغ اور
مواصلات کا ہے جس کی بدولت دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج کی صورت اختیار کر گئی
ہے ۔چند صدی قبل کا کوئی باشندہ اگر بھولے بھٹکے اس جدید صدی میں آ نکلے تو
یہ سب کچھ اس کیلئے کسی طلسم کدہ سے کم نا ہو گا اور محوِحیرت سے وہ
جادونگری کو تکتا رہ جائے گا۔
جو قومیں اس ٹیکنالوجی کی بانی ہیں یا اسے تیزی سے اپنا رہی ہے آج وہ ترقی
کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جاپان،چین، امریکہ
روس،تائیوان،کوریا جیسے ملکوں نے دنیا کو نئی نئی ایجادات اور تکنیک سے
یکسر بدل کر رکھ دیا ہے ۔آئے دن کسی نا کسی فیلڈ میں نئی اور پہلے سے بہتر
ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہوتی ہے_
ذرائع نقل و حمل کو ہی لیجئے کسی زمانے میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانا بعید
از قیاس تھا مگر بیل گاڑیوں سے شروع ہونے والا سفر اسٹیم انجن، الیکٹرک
انجن، بحری جہاز سے ہوتا اب ہوائی جہاز تک وسیع ہو چکا ہے جس میں وقت کے
ساتھ ساتھ جدت اور سہولت پیدا کی گئی ہے،اب تیز رفتار ذرائع نقل وحمل
دستیاب ہیں_
اگر مواصلات کی بات کی جائے تو آئی ٹی ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ پوری دنیا کو
سمیٹ کر ایک محور پر لے آیا ہے اور اسیگلوبل ولیج میں بدل دیا ہے۔گھر بیٹھے
دنیا جہاں کی معلومات،سیروتفریح،کاروبار اس ایک سہولت اور ٹیکنالوجی سے ہر
فرد کی دسترس میں ہے چاہے وہ دوردراز گاؤں یا قصبے میں بیٹھا کوئی عام فرد
ہو،درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ افراد یا کاروباری اشخاص……محض اس ایک
سہولت یا ٹیکنالوجی میں آئے دن رونما ہونے والی نت نئی تبدیلیوں کی بدولت
لوگوں کے درمیان روابط بڑھ رہے ہیں۔اب کسی دوسرے ملک میں بیٹھے شخص سے
ملنا،اس سے بات چیت کرنا یا اسے چلتے پھرتے دیکھنا محض ایک بٹن کو حرکت
دینے کی دوری پر ہے ۔یہ سب کرشمہ انٹرنیٹ کی جدید ٹیکنالوجی کے مرہون منت
ہے ۔اسی کی بدولت گھر بیٹھے کسی بیرون ملک درسگاہ سے آن لائن تعلیم حاصل
کرنا ممکن ہو گیا ہے ۔وہیں آن لائن کاروبار،تجارت کا تصور بھی ممکن ہوا ہے
۔بڑے بڑے کاغذی کھاتوں کے بجائے آن لائن ڈیٹارکھنے اور محفوظ کرنے کی سہولت
کے ساتھ چند منٹوں میں آن لائن منی ٹرانسفر نے تجارت کے شعبے کو کہاں سے
کہاں پہنچا دیا ہے․
صرف نصف صدی پہلے تک جب کمپیوٹر کا وجود بھی ناممکن تھا۔پھر
گنتارا(abacus)کی ایجاد اور اس کے بعد،1940ئمیں ایلن ٹیورنگ نے کمپیوٹر
مشین نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی ساخت کارکردگی اور تکنیک میں جدت کو اپناتے
ہوئے اپنی ہیت تبدیل کی،ایل سی ڈی(LCD) سے ایل ای ڈی(LED) کا سفر،پھر
موبائل کمپیوٹر کی اصلاح میں لیپ ٹاپ کی صورت اختیار کر گئے ۔جو چھوٹے ہوتے
کبھی نوٹ بک شکل اختیار کر گیا تو کبھی (Roll on Laptop) میں جدت اختیار
کرتا چلا گیا جس کے ہارڈوئیرز اینڈ سافٹ ویئرز میں بھی اختراعی پہلو کارفر
رہا ہے۔تار اور خط سے شروع ہونے والے روابطی ذرائعے ٹیلی فون میں تبدیل
ہوئے۔پھر ضرورت ایجاد کی ماں ہے جیسے محاورے کو حقیقت کا روپ دیتے ہوئے
ٹیلی فون کو موبائل فونزصرف چند دہائی قبل کی یہ ایجاد اتنے قلیل وقت میں
اتنی شہرت اور جدت حاصل کر گئی ہے کہ آئے دن نئی سے نئی سہولت سے مزین
موبائل فونز مارکیٹ میں متعارف کروائے جاتے ہیں جن کا سائز اور کارکردگی
وقت کے سات بہتر سے بہترین ہوتی چلی گئی ہے۔نئے نئے سمارٹ فونز اور آلات کی
مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔بات تھرڈ جنریشن سے بڑھ کر ففتھ جنریشن(G5) تک
پہنچ چکی ہے۔وہیں سمارٹ واچ رابطے کے ذرائع میں ایک خوبصورت اور کارآمد
اضافہ ثابت ہوئی ہے۔صارفین کی ضروریات اور تفریح کے پیش نظر ان لیپ ٹاپس
اور سمارٹ فونز کیلئے نئے نئے ایپس(Applications) متعارف ہوتی رہتی ہیں۔
انسان نے جہاں ہواؤں اور پانی کو مسخر کر کے اس سے توانائی پیدا کر کے بجلی
بنائی وہیں سورج کو مسخر کر کے اب شمسی توانائی حاصل کی جا رہی ہے۔ اور یہ
سب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہو سکا ہے جس کے ذریعے اس توانائی کو سٹور
کر کے گھریلو اور تجارتی ضروریات کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی جدید
ٹیکنالوجی نے طب کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دے کر دکھی انسانیت
کے درد کا درماں کیا۔دل،گردے کا ٹرانسپلانٹ،مصنوعی اعضاء اور ہڈیوں کی
پیوندکاری، سماعی و بصری آلات اور مہلک بیماریوں کا علاج اسی کی بدولت ممکن
ہوا ہے۔آٹومیٹک آلات کے علاوہ مختلف شعبوں کیلئے میں روبوٹ کی ایجاد اور
استعمال کے ذریعے استعداد کار کو بہتر بنایا گیا ہے۔اور مختلف افعال کی
انجام دہی میں اِن کو بروئیکار لایا جا رہا ہے۔
انسان نے صرف اس دنیا تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکے خلائنوردی کے ذریعے
کہکشاں،ستاروں اور سیاروں تک ناصرف رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ان پر کمند بھی
ڈالی چاند اور مریخ تک رسائی اسی جدید ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے……وہیں
خلاء میں سیٹلائٹ کی تنصیب اس کا منہ بولتا ثبوت بھی۔ ہائی ٹیک دوربینوں
راکٹ(Spaceships) کے ذریعے نئی کہکشاؤں،سیاروں کو دریافت کیا جا رہا ہے،اور
ان کے سربستہ رازوں سے پردہ بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
دفاعی پس منظر سے دیکھا جائے تو اس میدان میں ٹیکنالوجی کی بدولت بہت
تبدیلی واقعہ ہوئی ہیں۔تلواروں،منجنیق،بعد میں بندوقوں اور توپوں جیسے حربی
سازوسامان نے جدت اپناتے ہوئے وقت کے ساتھ مختلف شکلیں اختیار کیں جو بحری
بیٹروں،آبدوزوں،طیاروں،ٹینکوں، مشین گنوؤں سے بدلتی بدلتی اب گائیڈڈ بموں
ڈرون سے بڑھ کر کیمیائی اور نیوکلیر ویپنزجیسے مہلک ہتھیاروں تک پہنچ چکی
ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اسی سمت اور مقصد کے تحت کی جائے
جس سے انسانیت کی فلاح و بہبود کا مقصد حاصل ہو بصورت دیگر انجام کار
انسانیت کی ہلاکت اور معاشرے کے بگاڑ کی صورت سامنے ہو گا۔
|