لاہور
اور کشمیر کی جنگ بندی لکیر پر دہشتگردی اور بھارتی جارحیت کے دو واقعات
ایک دن میں ایک ساتھ پیش آئے۔ جن میں ایک پولیس ڈی آئی جی، ایک ایس پی سمیت
9سیکورٹی اہلکار اور 7شہری شہید ہو گئے۔ زخمیوں کی تعداد 100سے زیادہ ہے۔
بعض کی حالت نازک ہے۔لاہور میں مال روڈ پر خود کش حملہ آور کا نشانہ ڈی آئی
جی ٹریفک کیپٹن(ر)احمدمبین زیدی اور ایس پی آپریشنز زاہداکرم گوندل بنے۔ ڈی
آئی جی کے ساتھ ان کا آپریٹر چار کمسن بچوں کا باپ محمد امین اورایک باڈی
گارڈ بھی تھا۔ خود کش حملہ آور کا اصلی نشانہ کون تھا۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں
شہباز شریف نے بھی چیئرنگ کراس آنا تھا۔ کراچی کے بعد لاہور میں بھی ٹی وی
چینل کی ڈی ایس این جی وین دھماکہ میں تباہ ہوئی۔کیوں کہ مال روڈ پر پنجاب
اسمبلی کے باہر کیمسٹ اور فارمسٹ احتجاج کر رہے تھے۔ یہ احتجاج جعلی ادویات
کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے خلاف تھا۔ جعلی ادویات کے خلاف مہم کا جاری
رہنا عوام کے مفاد میں ہے۔ تا ہم یہ مطالبہ درست ہے کہ اس مہم کی آڑ میں بے
گناہ لوگ متاثر نہ ہوں۔ ایس ایس پی زاہد گوندل سی سی پی او لاہور کے حکم پر
مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہے تھے۔ آئی جی پی پنجاب مشتاق احمد
سکھیرا اور سی سی پی او کیپٹن(ر)محمد امین وینس بھی حملے سے چند منٹ قبل
وہاں سے گزرے تھے۔ اس حملے کا ٹارگٹ اعلیٰ پولیس افسران کو بنایا گیا ہے۔
جب کہ ملک میں دہشت گردی کم ہو رہی ہے۔ پاک فوج کے کامیاب آپریشنز نے
دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ تا ہم پنجاب کے دل لاہور کو دہشت گردی کا
نشانہ بنانانئی حکمت عملی سمجھی جاتی ہے۔ اس سے ایک دن پہلے کراچی میں
پولیس اور میڈیا کے وینوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کراچی میں پولیس پر حملے کے
بعد لاہور میں پولیس پر حملہ کسی نئی سازش کا پتہ دیتے ہیں۔ پولیس نے 1996ء
میں کسی دوسرے ادارے کی مدد کے بغیر کراچی آپریشن کیا۔ اس آپریشن میں شامل
تما م افسروں اور اہلکاروں کو چن چن کر شہید کر دیا گیا۔ اس کا اعتراف آئی
جی پی سندھ اے ڈی خواجہ بھی کر رہے ہیں۔ جنھوں نے پہلی بار بغیر کسی سیاسی
مداخلت کے 10ہزار اہلکار پولیس میں میرٹ پر بھرتی کئے ہیں۔ اس وجہ سے انہیں
انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ یہ ان کی خوبی تھی جسے خامی کے طور پر پیش
کیا گیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حملے کا مقصد پاکستان سوپر لیگ(پی ایس ایل) کے
فائینل کو لاہور میں منعقد ہونے سے روکنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی
کھلاڑی خوف کا شکار ہوں جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کا آنا
مفید ہے ۔ اگر وہ نہیں مانتے تو پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ فائینل لاہور
میں کرانا زیادہ بہتر ہو گا۔یہ فائینل 7مارچ2017کو ہو گا۔ سوپر لیگ کا
افتتاح 9فروری کو دوبئی میں ہوا ہے۔ حملہ سے ایک دن قبل دوبئی میں لاہور
اور پشاور کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا گیا۔میچز دوبئی اور شارجہ میں
کھیلے جا رہے ہیں۔ پی ایس ایل میں پشاور، اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ، کراچی
کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ صرف فائنل لاہور میں رکھا گیا ہے۔ 15سے 20فروری
تک میچز شارجہ میں کھیلے جائیں گے۔ منتظمین نے فائینل لاہور میں رکھ کر
احسن کام کیا ہے۔ اس لئے فائنل کو ہر صورت میں لاہور میں ہی منعقد کیا جانا
چاہیئے۔ اس سے پہلے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کو پاکستان میں منعقد ہونے سے روکنے
کے لئے دہشتگردی کا سہارا لیا جا چکا ہے۔ اس دہشتگردی کا مقابلہ ان کے خلاف
ڈٹ جانے سے ہو گا۔ اگر پی ایس ایل کا فائینل لاہور میں نہ ہوا تو یہ ملک
دشمن دہشتگردوں کی جیت ہو گی۔
جس دن لاہور میں دہشت گردی ہوئی اسی دن جنگ بندی لائن پر بھمبر کے تھوب
سیکٹر مین بھارتی فوج نے بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ سے تین پاکستانی
فوجیوں کو شہید کر دیا۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے شعبہ تعلقات عامہ نے اس کی
تصدیق کی ہے۔ ترجمان نے کہا ہے کہ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں بھارتی
فوج کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ کشمیر کی جنگ بندی لکیر کے آر پار بھارتی
گولہ باری1989سے 2003تک جاری رہی ۔ بھارتی گولہ باری سے آزاد کشمیر کے
ہزاروں معصوم لوگ شہید ہوئے۔ جن میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل تھی۔
اس گولہ باری میں پاک فوج کے اہلکار بھی شہید ہوئے۔ پاک فوج نے دشمن کی
جارحیت کو روکنے کے لئے جوابی کارروائی کی۔ جس سے بھارت کو بھی جانی نقصان
ہوا۔ لیکن بھارت اپنی ریاستی دہشت گردی سے باز نہ آیا۔ اس نے جنگ بندی
معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی
بھارت جب بھی موقع ملے ، دہشتگردی کراتا ہے۔ بھارتی حکمران اور فوج کھل کر
پاکستان اور آزاد کشمیر مین دہشت گردی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ جب سے
اوڑی میں فوجی کیمپ پر نا معلوم افراد نے حملہ کیا ہے تب سے بھارت کے
پاکستان کے خلاف الزامات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان
کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ 24نومبر2016کو بھارت نے جنگ بندی لکیر پر بلا اشتعال
گولہ باری کی۔ اس جارحیت سے تین پاک فوجی اور 7شہری شہید ہوئے۔ بھارت نے
مسافر گاڑی کو نشانہ بناتے ہوئے درجن شہریوں کو زخمی بھی کیا۔ بھارت جب بھی
جارحیت کرتا ہے تو وہ پاکستان پر الزام عائد کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
بھمبر میں بھارتی گولہ بار ی اور لاہور میں خود کش حملہ ایک دن میں ہوئے۔
لاہور حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی گئی ہے۔ اگر حملہ آور کی شناخت
ہو گئی ہے تو اس نیٹ ورک کو منظر عام پر لایا جانا ضروری ہے۔ گنگا رام، میو،
جناح اور سروسز ہسپتالوں میں زیر علاج زخمی بھی خود کش حملے کے بارے میں
شاید کچھ معلومات فراہم کر سکیں۔ فارینزک رپورٹ سے بھی دہشت گرد نیٹ ورک تک
رسائی ممکن بن سکتی ہے۔ معصوم انسانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے والوں
کو دنیا کے سامنے بھی بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک مارچ2016میں لاہور
میں ہونے والی دہشت گردی کی رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی ہے۔ گلشن اقبال میں
ہونے والے دھماکے میں74شہری شہید ہو گئے تھے۔ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے
کہ کراچی کی طرح لاہور حملہ بھی نجی ٹی وی چینل ڈی ایس این جی وین کے قریب
ہوا۔ دھماکے میں وین تباہ ہو گئی۔ کراچی میں اس سے قبل کے حملے میں معاون
کیمرہ وین شہید ہو گیا ۔ خود کش حملے کا نشانہ میڈیا، پولیس، وزیراعلیٰ یا
کوئی اور تھا۔ یہ شاید کبھی پتہ نہ چل سکے۔ تا ہم یہ حملہ پاکستان پر حملہ
تھا۔ لاہور پاکستان کا دل ہے۔ مقصد افراتفری، خوف اور دہشت پھیلانا ،
سرمایہ کاروں کو ملک سے فرار کرنا، پاکستان سوپر لیگ کے فائینل کو یہاں
منعقد ہونے سے روکنا ہو سکتا ہے۔ یہ حملہ جس نے بھی کیا، مقصد صرف پاکستان
دشمنی ہے۔ اس لئے ہمیں پاکستان کے دشمنوں سے پہلے سے زیادہ الرٹ رہنے کی
ضرورت ہے۔ |