وزیراعظم میاں نوازشریف کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔؟

پانامہ لیکس کا فیصلہ اگر وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف آیا تو اس بات پر انحصار ہوگاکہ اس میں میاں نوازشریف کے متعلق کیافیصلہ سنایا گیاہے ؟اگر ان پر پانامہ لیکس کے بارے میں واضح طور پر الزام لگ گیاتو نہ صرف ان کے ہاتھ سے وزارت عظمی کا عہدہ نکل سکتاہے بلکہ ان پر آئندہ کے الیکشن لڑنے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے ۔جہاں تک پابندی کی بات کی جائے تو نواز شریف صاحب کے لیے الیکشن میں پابندی والا معاملہ زیاہ دکھ کا باعث بن سکتاہے وہ اس طرح کے ابھی میاں نواز شریف کی صحت بلکل ٹھیک ٹھاک ہے اور سب سے بڑھ کے ان کے اندر اگلی باری بھی وزیراعظم بننے کی خواہش مستحکم ہے لہذا وہ اس منصب کے لیے اگلے الیکشن میں بھی کوشاں رہنا چاہتے ہیں ،اس کے برعکس ہم میڈیا میں بیٹھے کچھ معروف تجزیہ نگاروں ،اینکر پرسن اور ان کے درمیان موجود شیخ رشید اور دیگر جوتشیوں کا زکر کریں تو وہ یقیناً اپنایہ تجزیہ نکال باہر کرچکے ہونگے کہ میاں نواز شریف مریم نواز کو وزیراعظم لاسکتے ہیں یا پھر چودھری نثار!مگر میرا ماننا یہ ہے کہ وزیراعظم اس عہدے کو اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو بھی اس عہدے کااہل نہیں سمجھتے مسلسل تین بار کی وزارت عظمیٰ یقیناً چوتھی اور پانچویں بار کیوں نہیں مل سکتی ؟ خیر اس بات کا فیصلہ پانامہ لیکس کے فیصلے پر منحصر ہے !! فی الحال اگر وزیراعظم اس کیس میں مجرم ٹھرے تو ہوسکتاہے ہے کہ انہیں 2012میں اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے طرزپر تاریخ کو دھرانا پڑے ؟ اور انہیں اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے اور اس سلسلے میں اگر نواز لیگ کی پارٹی نے کوئی احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش کی تو انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوگی اور اگر پانامہ کا فیصلہ نواز شریف کے حق میں آگیا تو یقینا ان کامستقبل محفوظ ہوجائے گا پھر ان کے لیے الیکشن جیتنا بلخصوص پنجاب میں بہت آسان ہوگا!۔ اس فیصلے میں ان دونوں کاموں کے علاوہ عدالت اگر اس نتیجے پر پہنچی کے وہ دونوں فریقین میں سے کسی کے بھی حق میں یا خلاف نہ پہنچی اور کوئی درمیانی صورت نکلی تو اس کا فائدہ بھی میاں نواز شریف کی حکومت مختلف طریقوں سے اٹھا سکتی ہے ،اب جبکہ ہم بات کررہے ہیں میاں نواز شریف کے مستقبل کی کہ فیصلہ اگر ان کے الیکشن کو ثبوتاژ نہیں کرتا تو اس صورت میں یہ ہی کہا جاسکتاہے کہ اس وقت پنجاب میں ریاستی وسائل کی بنیادوں پر ایک ایسا موثر نظام بنادیا گیاہے کہ اب پنجاب میں بزنس مینوں،ٹھیکیداروں درمیانے اور بڑے دکانداروں کا مفاد مسلم لیگ نواز کے ساتھ اس انداز میں جوڑا کاچکاہے کہ انہیں مسلم لیگ نواز کے متبادل دور دور تک شاید کوئی دکھائی نہ دیتے ہیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی کوششیں شاید میرے اس تجزئے سے کوسوں دور ہیں مجھے پنجاب میں90 فیصد سیٹیں اگلے انتخابات میں اب بھی مسلم لیگ نواز کی ہی دکھائی دے رہی ہیں ،اس سلسلے میں جہاں شریف بردارن نے اپنے پونے چار سال تک پنجاب کو ترقی کا گڑھ بنا ئے رکھاوہاں ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی اب یہ ذمہ داری بھی ہوگی کہ وہ آئندہ انتخابات میں نہ صرف پیسے کو خرچ کریں بلکہ ان کو عام شہریوں سے ووٹ بھی لیکر دیں ۔اس وقت میں جہاں نواز لیگ کے ووٹ کو صرف پنجاب تک محدود کرنے کا کہہ رہا ہوں وہاں پیپلزپارٹی بھی سندھ سے آگے جاتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے ،پنجاب سندھ اوردیگر صوبو ں کے نسبت زیادہ بڑا ہے اور اس میں سیٹیں بھی زیادہ ہیں اس لیے نواز شریف کی حکومت کی بھرپور توجہ پنجاب پر ہی مرکوز ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں نکال کر چھوٹے چھوٹے شہروں اور صوبوں کی نشستوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور پھر سے حکومت بنا لی جائے یہ ہی وجہ ہے کہ نواز لیگ والے دوسرے صوبوں میں جاکر وقت ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتی وہ صرف پنجاب کو ہی قابو میں رکھنا چاہتے ہیں اس سلسلے میں پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا سلسلہ میرے اسی تجزیے کاعکاس ہے اس طرح ضرورت پڑنے پر مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کا ساتھ بھی دے سکتے ہیں ،اس وقت جہاں ہم میاں نوازشریف کے سیاسی مستقبل کی بات کررہے ہیں وہاں ان کی مشکلات کا زکر بھی کررہے ہیں جس انداز میں عمران خان نے پانامہ لیکس کے معاملے میں ان کا پیچھا دبا رکھاہے وہاں کچھ غلطیاں وزیراعظم کی بھی ہیں اﷲ نے ان کودھن دولت سے خوب نواز رکھاہے کیا ضرورت ہے مزید دولت کے پیچھے بھاگنے کی ؟ یعنی میں سمجھتاہوں کہ عمران خان صاحب تو ویسے ہی اپنا موقف چوبیس گھنٹے میں بدلنے کے ماہر ہیں اپنے قول و فعل سے عاری شخص کسی ایک شخص کو پریشان تو کرسکتامگر اپنے اس عمل سے قوم کو بے وقوف نہیں بناسکتا،اس لیے اصل نقصان وزیراعظم کو ان کے وزراء ،مشیروں اور ان کے اردگرد کے بیوروکریٹس نے پہنچایاہے ان کے وزیروں کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر چلنے والی پریس کانفرنسوں میں اس قسم کی گفتگو کی جاتی ہے جس سے یہ وزیراعظم کے کم اور اپوزیشن کے لوگ زیادہ دکھائی دیتے ہیں ہر وقت چہرے پرغم وغصے میں بھرے ہوئے وزیر خود ہی حکومت کی تباہی کی وجہ بنے رہے یہ تمام وزیرایسے ہیں جنھوں نے ایک دن بھی اپنی وزراتوں میں جھانک کر نہیں دیکھا کہیں آئے روز ریل گاڑیاں ٹکرارہی ہے تو اس کا وزیر پانامہ لیکس اور وزیراعظم کی مداح سرائی کے گیت گارہاہے تو کہیں ملکی اداروں میں طرح طرح کے اسیکنڈل سامنے آرہے ہیں اور ان کے وزراء ٹی وی چینلوں میں بیٹھ کر اپنے ناکردہ ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں ،یعنی دیکھا جائے تو وزیراعظم کو اصل نقصان ان کے وزرا نے ہی پہنچایاہے اس میں تھوڑا نہیں بہت زیادہ قصور وزیراعظم کا بھی ہے کہ وہ وزراتیں دیکر اپنے وزرا کو پوچھتے تک نہیں ہیں ایسا لگتاہے کہ وزیراعظم نے ان کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ اپنی وزراتوں میں بیٹھ کر کام کریں یا نہ کریں پیسہ بنائیں یا نہ بنائے انہیں مکمل آزادی ہے !ایسے میں بہت سے وزرا جن کے سڑکوں پر گزرنے کے عمل میں آدھا شہر بند کردیا جاتاہے جو پیسے سے بھی خوب لت پت ہیں وہ اکثر وزیراعظم سے ملنے کی خواہش میں ایسے دربدر ہوتے ہیں جسے خود ان کی وزارتوں میں ان کے دروازے پر عوام دربدر ہوتی ہے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلاح وزیربہت طاقتورہے اور وہ ہی حکومت ہے مگر حقیقت میں ان کی حقیت یہ ہے کہ جب وزیراعظم ان سے کئی کئی روز تک نہیں مل پاتے تو وہ وزرااپنی کہانیاں سنانے کے لیے جمعہ کے روز پرائم منسٹر ہاؤس ضرور آتے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ اپنے عہدوں میں سیاہ و سفید کے مالک ہونے پر کا شکر بجالانے کے لیے اﷲ کے گھر میں سجدہ کرینگے بلکہ اس لیے کہ وہاں میاں نواز شریف صاحب خود بھی نماز کے لیے آتے ہیں وگرنہ مسجدیں تو اسلام آباد کی سڑکوں پر ڈھیروں کی تعداد میں موجود ہیں اور اس طرح پرائم منسٹر ہاوس میں جمعہ نماز کی ادائیگی کے بعد بہت سے وزیر او رمشیر نماز ختم ہونے کے بعد ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پرائم منسٹر ہاؤس میں اپنی بپتا وزیراعظم کو سنا ڈالتے ہیں قائرین کرام وزیراعظم بھی شاید کہ اس فلسفے پر رہے کہ: ساڈھے نال رہو گے تو عیش کروگے :یہ تمام وہ چیزیں جو وزیراعظم کے لیے سب سے زیادہ نقصان کا باعث بنی رہی ایسے میں یہ تما م وزیر اپنی اپنی وزارتوں کی کارکردگی کو بہتر بناتے تو یقینا نواز شریف کی یہ حکومت ایک مثالی حکومت میں تبدیل ہوسکتی تھی مگر ایسا نہیں ہو پایا اب بات جہاں وزیراعظم کے سیاسی مستقبل کی جارہی ہے امید ہے کہ پانامہ لیکس کا فیصلہ جلد ہی آجائے گا میں نے اس تحریر میں ساری باتیں وہ کی ہے جو اس ملک کی سیاسست میں پانامہ لیکس کے مختلف انداز میں آنے والے فیصلوں سے پیدا ہوسکتی ہیں ، میری تمام گفتگو ،میں وزیراعظم کا سیاسی مستقبل جو بھی ہو ہمیں جلد ہی معلوم ہوجائے گافی الحال ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ پانامہ کاعدالتی کیس کس طرف جاتاہے اس میں وزیراعظم کو مجرم بھی ٹھرایا جاسکتاہے اور وہ اس کیس میں لگے الزامات سے نکل بھی سکتے ہیں ختم شد۔
Rao Imran Salman
About the Author: Rao Imran Salman Read More Articles by Rao Imran Salman: 75 Articles with 67552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.