سانحہ لاہور

آنکھوں میں بے بسی کے آنسوبھی ہیں، اور غیظ وغضب کے انگارے بھی۔ افسوس بھی ہے، غصہ بھی اور نفرت بھی۔ سوالات بھی بے شمار سر اٹھا رہے ہیں، ہر کوئی سوال پر سوال کئے جارہا ہے، جواب کسی کے پاس نہیں، زبانیں گُنگ ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں، یہ بھی خبر ہے اور وزیر قانون نے اس کی تصدیق کر دی ہے کہ دہشت گردی کی اطلاع پہلے سے تھی۔ اگر پہلے سے تھی تو اس کا سدّباب کیا کیا گیا؟ اس کو روکنے کے لئے کیا بندوبست ہوئے؟ اتنی اہم جگہ تک دہشت گردوں کا پہنچنا بھی سوالیہ نشان ہے، یقینا زیادہ رش میں اور چلتی ٹریفک میں چیکنگ ممکن نہیں، مگر نظام کو بہتر کرکے نقصان تو کم کیا جاسکتا تھا۔ ایک احتجاجی پروگرام تھا، اہمیت اس کی اتنی تھی کہ وہاں پولیس کے دو اعلیٰ افسر موجود تھے، مگر سکیورٹی کے بندوبست کم تھے۔ اسی احتجاجی مظاہرے میں کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لئے ایمبولینس وغیرہ کا خیال نہیں رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ دھماکہ ہونے پر جو قیامت برپا ہوئی، اس کو سمیٹنے کے لئے موقع پر ریسکیو کا اہتمام نہیں تھا۔

سوال یہ بھی ہے کہ اس احتجاج کی نوبت کیوں آئی؟ کیا معاملہ یکطرفہ تھا، کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات نا قابلِ قبول تھے؟ کیا حکومت اس ضمن میں کوششیں کر کر کے مایوس ہو چکی تھی؟ شاید ایسا نہیں تھا، کیونکہ احتجاج نئے ڈرگ ایکٹ پر کیا جارہا تھا، جس میں سزاؤں کا عالم یہ تھا کہ میڈیکل سٹور پر کوالیفائیڈ شخص کے موجود نہ ہونے پر ایک ماہ سے پانچ سال تک قید اور پانچ لاکھ سے پچاس لاکھ روپے جرمانہ رکھا گیا ، اسی طرح ڈرگ انسپکٹر سے جھگڑا کی صورت میں بھی چودہ یوم سے ایک سال تک قید کے ساتھ پانچ سے دس لاکھ جرمانہ رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے جھگڑے کا فیصلہ تو یقینا انسپکٹر موصوف کے حق میں ہی ہوگا۔ دیگر معاملات میں بھی کروڑوں روپے کے جرمانے رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی خبر ہے کہ محکمہ صحت کے حکام نے مذاکرات کو فیصلہ کن صورت تک لے جانے میں بھی کوتاہی کی ہے، ورنہ نوبت ہڑتالوں، دھرنوں اور ریلیوں تک نہ جاتی۔ حکومت نے اسی دوپہر بھی زبردستی سٹور کھلوانے کی دھمکی دی ۔ یوں معاملات بگڑ گئے اور بات یہاں تک پہنچ گئی۔ بات چیت کے ذریعے قوانیں میں لچک پیدا کی جاسکتی تھی، یعنی سزاؤں میں کمی کا سوچا جاسکتا تھا۔

سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ غیر معیاری اور جعلی ادویات کا دھندہ کب اور کیسے ختم ہوگا؟ کیا یہ کاروبار دہشت گردی سے کم ہے؟ کیا یہ مرے ہوئے لوگوں کے مارنے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ بے حسی کی انتہا نہیں کہ پریشان حال مریض کو دو نمبر یا غیر معیاری دوا دے دی جائے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی، دوائیں غیر معیاری اور جعلی ہیں اور قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جس غریب کو علاج کی سہولتیں مفت ملنی چاہیئں تھیں، وہ اپنا سامان فروخت کر کے دوائی خریدتا ہے۔ انہی قیمتوں سے دوا ساز کمپنیاں خود اور متعلقہ ڈاکٹروں کو کس قدر سہولتیں خرید کر دیتی ہیں یہ راز کسی سے پوشیدہ نہیں۔ گویا وہ غریب وامیر عوام سے مال نچوڑ کر ایک خاص طبقے پر لگا دیتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کا کردار بھی افسوسناک ہے، کہ وہ عوام کو علاج کی سہولت مفت نہیں دے سکی، دعوے ضرور ہوتے ہیں، مگر عمل کی نوبت نہیں آتی ، یہاں ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور مشینوں کی کمی کا مسئلہ بھی مستقل موجود ہے، اول تو مشینری موجود نہیں، اگر ہے تو قابلِ استعمال نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا بڑے شہروں کی بڑی شاہراہوں کو آئے روز کے احتجاجوں سے نجات نہیں دلائی جاسکتی؟ جس کو کوئی پریشانی ہوتی ہے، وہ کسی بڑی شاہراہ پر آکر بیٹھ جاتا ہے، اس بلاکنگ سے مسافروں کو جو پریشانی ہوتی ہے، اس کی کسی کو پرواہ نہیں۔ مگر ساتھ ہی دوسرا پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی بھی تنظیم، گروہ یا طبقہ اس وقت تک سڑک پر نہیں آتا، جب تک وہ زِچ نہ آجائے، وہ پہلے تمام تقاضے پورے کرتا ہے، جب اسی کی کوئی نہیں سنتا تو وہ مجبور ہو کر سڑک پر آتا ہے، درخواستوں، مطالبوں وغیرہ سے حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ درجن بھر سے زائد بے گناہ لوگوں کی شہادت پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے، دو پولیس افسر بھی اس سانحہ میں کام آگئے، اﷲ تعالیٰ ان تمام شہدا کے درجات بلند کرے،ان کے لواحقین کو صبر عطا فرمائے اور حکومت کو معاملہ فہمی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472772 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.