ایک شخص درخت کے نیچے منہ کھولے گہری نیند
سو رہا تھا کہ ایک سپولیہ اس کی جانب بڑھا۔ دریں اثنا ایک گھڑ سوار وہاں آ
پہنچا۔ وہ پھرتی سے گھوڑے سے نیچے اترا۔ اس کے نیچے اترتے اترتے سپولیہ
سوئے ہوئے شخص کے منہ میں گھس گیا۔
وہ بڑا پریشان ہوا۔ اچانک اسے کچھ سوجھا اور اس نے سوئے ہوئے شخص کو زور
زور سے چھانٹے مارنا شروع کر دیے۔ سویا ہوا شخص گھبرا کر جاگ اٹھا اور اس
نے گھڑسوار سے چھانٹے مارنے کی وجہ پوچھی‘ اس نے کہا وجہ چھوڑو اور تیز
رفتاری سے بھاگو ورنہ اور زور سے ماروں گا۔
اس شخص نے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب رکنے لگتا تو وہ چھانٹے مارنا شروع کر
دیتا۔ رستے میں ایک ندی آ گئی۔ گھڑسوار نے کہا پانی پیو۔ اس نے پیا۔ اس نے
چھانٹا مارتے ہوئے کہا اور پیو۔ اس نے اور پیا اور کہا اب مزید نہیں پی
سکتا۔ اچھا نہیں پی سکتے تو بھاگو۔
وہ بھاگتا جا رہا تھا اور ساتھ میں وجہ بھی پوچھے جاتا۔ گھڑسوار وجہ نہیں
بتا رہا تھا ہاں البتہ بھاگنے کے لیے کہے جاتا تھا۔
تھوڑا آگے گئے تو ایک سیبوں کا باغ آ گیا۔ گھڑ سوار نے کہا نیچے گرے ہوئے
سیب کھاؤ۔ اس نے کھائے اور کہا مزید نہیں کھا سکتا۔ گھڑسوار نے زوردار
چھانٹا مارتے ہوئے کہا‘ میں کہتا ہوں اور کھاؤ۔ اس نے کھانا شروع کر دیا۔
پھر کہنے لگا اور نہیں کھا سکتا مجھے قے آ رہی ہے۔ ہاں ہاں کھاتے جاؤ جب تک
قے نہیں آ جاتی تمہیں سیب کھاتے رہنا ہوگا۔
وہ سیب کھاتا رہا کہ اسے زوردار قے آ گئی۔ قے کے ساتھ ہی سپولیہ بھی باہر آ
گیا۔ تب اس پر اصل ماجرا کھلا۔ وہ گھڑسوار کا شکرگزار ہوا اور اس نے معافی
مانگی کہ وہ بھاگتے پانی پیتے اور سیب کھاتے ہوئے جی ہی جی میں اسے گالیاں
اور بددعائیں دے رہا تھا اور اس مصبیت سے چھٹکارے کے لیے دعائیں کر رہا
تھا۔
تمہاری بددعائیں مٹی ہوئیں ہاں البتہ دعائیں کارگر ثابت ہوئیں۔۔
اسے قطعاً معلوم نہ تھا کہ اس ظاہری برائی میں خیر چھپی ہوئی ہے۔ گھڑسوار
مسکرایا اور اپنی منزل کو چل دیا۔ |