مولانا
اشرف علی تھانوی کا نفسیاتی طریقہِ علاج
مولانا اشرف تھانوی (1943ء۔1863ء)عالمِ دین،حکیم ا الاُمت،مجددِ ا لملت
تھے۔ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ اسلامی دُنیا میں اُنکی پہچان اُنکی
مشہورِزمانہ تصنیف " بہشتی زیور" ہے۔ اُنکا سب سے بڑا کارنامہ قرآنِ حکیم
کا ترجمہ و تفسیر ہے۔ اُنکی دینی کُتب کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔
جدید مسلم مفکرین میں مولانا اشرف علی تھانوی پہلے شخص ہیں جنہوں نے ذہنی
طور پر معتصب لوگوں کیلئے نفسیاتی طریقہِ علاج ترتیب دیا۔انکا طریقہِ علاج
دوسرے نفسیاتی طریقوں سے تقریباً بالکل مختلف ہے۔لیکن چند ایک پہلوؤں میں
یہ" روجر" کی Self Theory سے مشابہ ہے۔ان دونوں طریقہ کار میں مریض کے
تجربات و احساسات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ان دونوں ماہرین کے مطابق
مریض اپنے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔ماہرینِ نفسیات کا کام صرف
مریض کو ایسا ماحول مہیا کرنا ہے جس میں وہ اپنے بارے میں آسانی سے اور جلد
از جلد بتا سکے۔اسلیئے ماہرِ نفسیات اور مریض میں دوستانہ تعلقات کا ہونا
ضروری ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے ذہنی اُلجھن کے شکار لوگوں کو علم سکھا کر
تندرست کیالیکن پھر بھی انکا کوئی طریقہ علاج نہیں ہے۔وہ مختلف طریقے زیرِ
عمل لائے۔اُنھوں نے مختلف لوگوں کی مشکلات اور مسائل کے جواب میں ان کو
خطوط تحریر کیئے۔ ان خطوط میں وہ پڑھنے کیلئے مختلف کتابیں تحریر کرتے تھے۔
اس لیئے اس طریقہ کار کو ریڈنگ تھیراپیReading Therapy کا نام دیا گیا
ہے۔جو خالصتاً اسلامی فلاسفی کا نتیجہ ہے۔یعنی انسان کو ایک اکائی Unit
تصور کیا جاتا ہے۔یا ملت کا ایک خاص جُز جو کہ زندگی میں ایک خاص مقصد کے
ساتھ داخل ہو۔لیکن ہر انسان کا مقصدِ حیات دوسروں سے مختلف ہے۔انسان کی
تشویش صرف اپنے مقصدِ حیات کو منتخب کرنے اور پھر اُسکو پایہ تکمیل تک
پہنچانے تک محدود ہے۔تمام اضافی سرگرمیاں ایک خاص مقام کی طرف رواں دواں
ہیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی کے طریقہ علاج کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے
ہیں۔
1 ) خطوط کے ذریعے علاج کرنا: Reading Therapy
2 ) مریض کے ساتھ بیٹھ کر علاج کرنا:Communication Therapy
مولانا تھانوی صاحب نے دوسرے ماہرینِ نفسیات کی طرح سامنے بیٹھ کر علاج
کرنے والے طریقے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔اگر بیماری معمولی نوعیت کی ہے تو
خط و کتابت کو کافی سمجھا جاتا۔یعنی" کلائنٹ" مولانا کو خط کے ذریعے اپنے
مسائل کی تفصیل بیان کرتا اور مولانا اُس خط کو پڑھنے کے بعد جواب دیتے اور
ضرورت کے مطابق چند سوالات بھی پوچھتے۔
دوسرے طریقے پر عمل تب کیا جاتا جب خط وکتابت کے ذریعے یہ محسوس ہو جاتا کہ
مرض شدید نوعیت کا ہے۔اس صورت میں مریض کو "خانقاہ" پر بُلا کر دوسرے لوگوں
کے ساتھ قیام کرنے کو کہتے۔لیکن اس صورت میں مریض کو آنے سے پہلے یہ جاننا
ضروری ہوتا کہ مولانا کے طریقہِ علاج میں:
) کشف و معجزات ضروری نہیں ہیں۔
) آخرت کے دن بخشش کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
) بیماری کو رسومات کی مدد سے روکا نہیں جا سکتا۔
) پیشن گوئی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
) ماہرِ نفسیات کی صرف توجہ ہی مریض کو تندرست نہیں کر سکتی ہے اور نہ ہی
عبادت و ریاضیت خود بخود حاصل ہو تی ہے۔
) ارادے و قوت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے۔
مولانا اشرف صاحب کی خانقاہ پر ہر صبح ایک یا دو گھنٹے کی مجلس منعقد ہوتی
تھی۔خانقاہ پر قیام کے دوران ہر فرد کو ایک دوسرے سے محبت اور ساتھ ملکر
کام کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔اگر مولاناضروری سمجھتے تو مریضوں کو علیحدہ
علیحدہ وقت دیتے۔مریض کو اجازت ہوتی تھی کہ وہ جب چاہے خانقاہ کو چھوڑ سکتا
تھا۔مولانا صاحب مریضوں کو سوچ اور عمل میں فرق سے پریشان ہونے سے منع کرتے
اور مریض کو اپنے اعمال میں ہر طرح کی آزادی دیتے تھے۔ان کے خیال میں نیک
ارادے اعمال سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
مولانا اشرف صاحب جو کُتب پڑھنے کیلئے تجویز کرتے تھے ان میں سے بعض اوقات
اپنی اور بعض اوقات دوسرے علماء کی ہوتی تھیں۔لیکن ااکثر اوقات امام غزالی
کی کتاب" کیمیاِ سعادت" تجویز فرماتے۔وہ گفتگو میں حالات کے مطابق مشکل اور
آسان زبان استعمال فرماتے۔بعض اوقات مولانا جان بوجھ کر مریض کے سامنے نہیں
جاتے تھے۔کیونکہ خطوط کے ذریعے مریض اپنے مسائل بغیر جھجک کے تحریر کر سکتا
تھا۔
ریڈنگ تھیراپی کے اہم نکات:
اس تھیراپی میں بعض نکات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔اس طریقہِ علاج کا سب سے
اہم جُز یہ ہے کہ مولانا کسی مریض کو ماضی کے تجربات بیان کرنے کی ترغیب
نہیں دیتے تھے۔ان کے خیال میں ماضی کے واقعات کا دوبارہ ذہن میں تازہ ہونا
نقصان دہ ہے۔لیکن کیونکہ بیماری کا تعلق ماضی کے تجربات سے ہوتا ہے اسلیئے
ان کے مطابق وہ اپنی حرکات پر توبہ کرے ۔
یہ طریقہِ علاج سادہ ،آسان اور کم وقت لیتا ہے۔خطوط اورمصمم ار ادہ اس
طریقہِ علاج میں اہم کردار ادا کرتے ہے۔مریض کو اس کے اپنے ارادے و قوت سے
تندرست کیا جاتا ہے نہ کہ ماہرینِ نفسیات کے۔
حد یں:Limitations
یہ طریقہِ علاج بہت محدود ہے۔یہ صرف اُن لوگوں کیلئے ہے جو لکھ پڑھ سکتے
ہیں۔دوسرا اُن لوگوں کیلئے جو ذاتِ باری تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں۔
دورِ حاضر کے ماہرینِ نفسیات اور مولانا اشرف تھانوی :
آج دُنیا کی آبادی میں روز بروز اضافہ اوربڑھتے ہوئے پیچیدہ مسائل نے فردِ
واحد ہی نہیں بلکہ عوام الناس کو نفسیاتی اُلجھنوں میں مبتلا کر دیا
ہے۔"خواہشات کی کثرت میں جائز وناجائز حاصل کرنا ہے بغیر کسی کے خلل ڈالے"
آج انسانی بے اعتمادی کا باعث بن چکا ہے اور اسکی وجہ سے اخلاقی سطح پر بھی
انتہائی برائی" کرپشن Corruption "معاشرے کا ناسور بن چکی ہے۔ بلکہ "کرپشن
کی نفسیاتی" حد کا تعین ناممکن ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ لہذا ان حالات میں
انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جدید ماہرین نفسیات موجودہ معاشرے کے سلجھاؤ
کیلئے ہر پہلو سے فردِ واحد کے نفسیاتی مسائل و امراض پر تحقیق کر کے اُسکی
ذہنی پس ماندگی دُور کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ یعنی اخلاقی قدروں کی
اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے حل بتائے جا رہے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ
حقیقت میں صرف ذاتِ باری تعالیٰ ہی کی طرف دل سے رجوع انسان کی معراج ہے
اور اسکی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے مولانا اشرف تھانوی کا طریقہِ علاج
پیش کرنا اسلامی فکر کو اُجاگر کرنا ہے۔
بس ان حالات میں اگر ایک نفسیاتی شخص اپنی اصلاح کرنے کیلئے اچھے افراد اور
اچھی صحبت کا تعین کر لے تو اُسکو مولانا کے مطابق اپنے اندر سے ہی وہ"
قوت" میسر آ جائے گی جو اُسکے" ارادے" کی مضبوطی کا باعث بن جا ئے گئی اور
وہ معاشرے کا ایک "با اخلاق فرد" بن جائے گا۔یہی ترتیب سینکڑوں،ہزاروں اور
لاکھوں میں ہو تی چلی جائے گی ۔ |