راستے بندہیں سب، کوچہ قاتل کے سوا؟

کانگریس،ایس پی اتحادمیں مسلم ایشوز دوردورتک نہیں ہیں اورنہ وہ ان مسائل پربات کر نے کوتیارہیں ۔جملہ بازسماجوادی کے چکرویو میں مسلمانوں کو پھنسنے اورخواہ مخواہ بیگانہ کی شادی میں دیوانہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں جن نشستوں پربی ایس پی کے امیدوارکمزورہوں اورسماجوادی اتحادکے نمائندے مضبوط پوزیشن میں ہوں توانہیں یکطرفہ ووٹنگ کرکے کامیاب بنادیناچاہئے ۔ٹھیک ہے مایاوتی، اس سے قبل بی جے پی سے اتحادکرچکی ہیں،لیکن اب وہ اس ’غلطی کے نہ دوہرا نے ‘ کاوعدہ کررہی ہیں توایک بارپھرانہیں آزمانے میں کیاقباحت ہے ۔ووٹوں کی تقسیم سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،دہلی سے سبق لیجئے ۔کانگریس بھی میدان میں تھی لیکن دوسر ے متبادل کے حق میں متحدہوکرووٹنگ کی گئی توتقسیم کہاں ہوئی ۔مغربی بنگال میں کانگریس اورلیفٹ کے باوجود ووٹ کہاں تقسیم ہوا؟۔سانپ بھی مرگیا،لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔بی ایس پی نے معقول تعدادمیں مسلم امیدواربھی اتارے ہیں۔اگرمایاوتی مسلم ایشوزکوسنجیدگی سے لیتی ہیں تو متحدہوکران کی حمایت کرکے سماجودی اتحادجواب مسلم ووٹروں کوبندھوامزدورسمجھ بیٹھاہے،کی عقل ٹھکانے لگائی جاسکتی ہے۔ دلت،مسلم اتحادکے ایک دورکی شروعات ملکی سیاست پربھی اثراندازہوگی۔جب آزماناہی مقدرٹھہراتوکوئی ضروری نہیں ہے کہ دوبارہ بھی ایک کوہی آزمایاجائے۔کوچہ قاتل کے سواسب راستے بندنہیں ہیں،کچھ کھلے بھی ہیں۔ضرورت ہے کہ ذاتی اغراض سے اوپراٹھ کرانہیں تلاش کیاجائے۔
یوپی میں مہاگٹھ بندھن نہیں بن سکا،البتہ کانگریس،ایس پی اتحادکے بعدیوں باورکرایاجارہاہے کہ مسلمانوں کاٹینشن ختم ہوگیا۔یہ پوچھنے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے کہ گذشتہ الیکشن میں سماجوادی کی طرف سے کیے گئے ریزویشن سمیت چودہ وعدوں کاکیاہوا؟۔بے قصورنوجوانوں کی رہائی کاوعدہ وفاکیاہوتا،سماجوادی کی سرکارمیں خالدمجاہد کی پراسرارموت ہوگئی۔یہاں تک کہ اکھلیش حکومت نوجوانوں کی رہائی کے خلاف عدالت تک چلی گئی، ضیاء الحق، اخلاق اورتنزیل مارے گئے،مظفرنگرفسادات کے علاوہ پوری ریاست میں مسلمانوں کوتحفظ دینے میں اکھلیش ناکام اورنرم ہندوتواکی پالیسی پرگامزن رہے۔حدتویہ ہوگئی کہ مظفرنگرکے حالات ابترتھے ،ملائم پریوارسیفئی فیسٹول میں بدمست تھا۔جی ہاں ایس پی حکومت نے ایک احسان کیاہے ۔ دہلی کے اوکھلامیں عین الیکشن کے وقت قبرستان کی زمین دے دی جس کی سپردگی کے کئی اہم قانونی مراحل باقی ہیں ۔مسلمان بے چارہ کوقبرستان سے زیادہ اوردیابھی کیاجاسکتاہے ۔تاکہ پھر کسی مظفرنگر میں قتل عام کرائیں اور دہلی میں دفن۔کھلادھوکہ دینے کے باوجود بے شرم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سارے وعدے پورے کرلیے۔حالیہ منشور،مسلم ایشوزپرخاموش ہے ،اقلیتوں کی بات کہہ کرجملہ بازی کی گئی ہے جس سے نیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔سماجوادی پارٹی نے قومی ایکتادل کا انضمام کردیا ،جب ٹکٹ دینے کی بات آئی تو مختارانصاری اورافضال انصاری کو دھوکہ دیاگیا۔اگراکھلیش یادو،کرمنل شبیہ کوپسندنہیں کرتے ہیں توراجابھیاکووزیربناتے وقت کون سی شرافت ان میں نظرآگئی تھی۔اسی طرح یہ کہناسراسرحماقت ہے کہ اب باپ کی نہیں، بیٹے کی چل رہی ہے،باپ بیٹے کے تنازعہ سے متعلق پورا میچ فکس ہے۔ بہارمیں ایس پی کی فرقہ پرستوں سے سازبازکی پول کھل جانے،مظفرنگرفسادات اورریاست بھرمیں مسلمانوں کے تحفظ میں ناکام رہنے کے بعدمسلم ووٹ کھِسکتے دیکھ کر ملائم سنگھ کاچہرہ سامنے سے ہٹایاجاناضروری تھاتاکہ جب مظفرنگر،تنزیل،اخلاق اورضیاء الحق پرسوال پوچھے جائیں توآسانی سے کہاجاسکے کہ وہ ملائم کادورتھا،اب اکھلیش کاعہدہوگا۔یہ سب جملہ بازی ہے۔اگروالدمحترم کی اب نہیں چل رہی ہے توشیوپال اور اکھلیش کے سوتیلے بھائی کی بیوی کو ٹکٹ مل سکتاتھا ، انصاری برادران کو نہیں ۔اسی طرح سارے مسائل کی جڑتو کانگریس ہے ۔اس کے اتحادمیں شامل ہوجانے سے خوش فہمی پال لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

الیکشن کے ماحول میں مختلف سمتوں سے حکمت عملی کی بات کی جارہی ہے ۔معلوم نہیں ،حکمت عملی کس چڑیاکانام ہے۔منصوبہ بندی کیاہونی چاہیے ،حکمت عملی ہوگی کیا۔یہ بتانے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے۔اسی طرح جب مسلم قیادت ووٹوں کے ارتکازکے خوف سے رائے دہندگان کی صوابدیدپرمعاملہ چھوڑدیتی ہے توبھی پریشانی ۔اورجب کسی ایک طر ف حمایت کرتی ہے توبھی اعتراض ۔حالیہ دنوں میں مولاناسلمان حسنی ندوی کی اپیل سامنے آئی ہے ۔تمام باتوں سے اتفاق مشکل ہے تاہم بعض دلائل پرغوروفکرکی گنجائش ہے ۔ مولاناسلمان حسنی ندوی نے کم ازکم ایک واضح موقف پیش توکیاہے۔جس پرسنجیدگی کے ساتھ اپنے تمام ذاتی مفادات کوبالائے طا ق رکھ کرغوروفکرکرناچاہیے۔گذشتہ دنوں متحدہ ملی مجلس نے بھی اکھلیش یادوسے ان کے انتخابی وعدوں کے متعلق سوالات اٹھائے ہیں۔اس نے ان پرغرورمیں چوررہنے کی بات بھی کہی۔اس کاکہناہے کہ مسلمانوں سے ایک منہ بات کرنے تک کوان کااتحادتیارنہیں ہے کیونکہ کانگریس ،ایس پی کے لیڈران سمجھتے ہیں کہ ایس پی ،کانگریس کے ساتھ آجانے کے بعدمسلمان بی جے پی کے خوف سے مجبورِمحض ہوگئے ہیں۔اس نے تنبیہ کی ہے کہ یوپی کے حالات کوبہارکے حالات پرقیاس نہ کیاجائے۔لہٰذااکھلیش کوسخت پیغام دینے کی ضرورت ہے۔یہ درست ہے کہ اس اتحادکے بعداکھلیش یادو مسلمانوں کوبندھوامزدورسمجھ رہے ہیں۔انہیں تقسیم کاڈردلاکرووٹ سمیٹنے کی کوشش میں ہیں ۔لیکن بس مطلب ووٹ تک ہے۔چودہ نومبرکے کالم میں راجیہ سبھا کے سابق ایم پی اورمعمرلیڈرنے بعنوان ’’نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن‘‘لکھاکہ’’جب ہم سیکولرسیاسی پارٹیوں کاجائزہ لیتے ہیں توصرف دوہی پارٹیاں ہمیں ایسی دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے کسی بھی حال میں فرقہ پرست پارٹیوں سے اقتدارحاصل کرنے کیلئے سمجھوتہ نہیں کیاہے۔ایک لالوپرسادیادکی پارٹی اوردوسرے ملائم سنگھ یادوکی پارٹی‘‘۔انہوں نے دانشوران کوسرجوڑکربیٹھنے کی دعوت دی ہے۔ بین السطوراورعبارت کے سیاق وسباق سے واضح ہے کہ وہ کس کی دلالی کررہے ہیں اورکیوں کررہے ہیں۔ان کااعتراف ہے کہ انہوں نے زندگی بھرمسلم پارٹی بنانے کی مخالفت کی۔ بلکہ یہی وہ محترم ہیں جنہوں نے بہارالیکشن کے وقت اویسی کے محدودسیٹوں پرالیکشن لڑنے کے اعلان کے باوجودانہیں خط لکھ کر بازرہنے کامشورہ دیاتھا۔لیکن بہی خواہ ملت ،رفیق الملک ملائم سنگھ یادوکوپورے بہارمیں الیکشن لڑنے سے روکنے کیلئے سامنے نہیں آئے۔کیونکہ ان کی تصورمیں ملائم سنگھ کے تئیں اتناتقدس ہے کہ وہ کبھی فرقہ پرستوں سے سازبازنہیں کرسکتے۔حیرت ہے کہ ’ان ہی بزرگ‘نے جب آزادلوک سبھاالیکشن لڑکرووٹ تقسیم کرایاتوانہیں ملت یادنہیں آئی ۔محترم سے درخواست ہے کہ آپ سیکولرزم بچاتے رہئے،راجیہ سبھاکی لذت سے لطف اندوزہوچکے ہیں ۔خداراپھرراجیہ سبھاکی ایک سیٹ کے لیے ہمدردی کی آڑمیں چھپ کر گمراہ مت کیجئے ۔اب قبرمیں پاؤں لٹک رہے ہیں ،خداکے پاس جاکرحساب دیناہے۔اپنے ضمیرکی آوازکوسنئے اگرضمیرہوتو۔سیکولرزم بچانے کی اسی فکرنے یہاں تک پہونچادیاہے کہ ’’ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن‘‘۔کنفیوژن آپ جیسے لوگوں نے پھیلارکھاہے ۔ اس کاخدشہ پہلے ہی ظاہرکیاگیاتھاکہ بہی خواہان ملت ،پردوں میں چھُپ کرسماجوادی کے حق میں بھرپوروکالت کریں گے۔اب اسی کانمونہ دیکھنے کومل رہاہے۔

گذشتہ ماہ ایک میٹنگ میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے پرزوردیاجارہاتھا۔میرے خیال میں اسمبلی اورپارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کی وکالت بے سودہے۔کیونکہ مسلم نمائندے اگراکثریت میں بھی آجائیں تووہ اپنی اپنی پارٹیوں کے مصرف کے ہوں گے،قوم کے مصرف کے نہیں ہوسکتے۔متعدد مثالیں ہمارے سامنے موجودہیں۔اس بے وقعتی کے لیے اپنوں پرشبہ اورغیروں پریقین کی بیماری کوئی کم ذمہ دارنہیں ہے۔اگراس ماحول میں آپ نے سماجوادی کی مخالفت کردی توآپ فرقہ پرستوں کے ایجنٹ ہوگئے۔لیکن جوحق ہے ،کہنا چاہیے۔ سیکولرزم کے تحفظ کی ساری ذمہ داری مسلمانوں ہی کی نہیں ہے۔ساٹھ برسوں سے سیکولرزم کوکاندھے پرڈھونے کانتیجہ ہے کہ جنازہ اٹھانے کی تیاری ہے۔چلئے مان لیا،یوپی میں کانگریس،سماجوادی کی سرکاربن گئی تومسلمانوں کوکیاملا؟۔پھراگلے پانچ برسوں تک عدم تحفظ کے ماحول میں زندگی گذارتے رہیے ،پانچ برسوں تک روٹی کاایک ٹکراتک دینے کوکوئی سماجوادی لیڈرسامنے نہیں آئے گا۔اورایشوزپربات کرناتوبہت دور۔مسلمانوں کاحشروہی ہوگاجوبہارمیں ہورہاہے۔جس طرح مکمل ووٹ پانے کے باوجودبہارکے مہاگٹھ بندھن نے انہیں کنارہ لگارکھاہے،وزارت کی تقسیم کے وقت ہی بدنیتی صاف جھلک رہی تھی۔ڈیڑھ برس میں مسلمانوں کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ایک لفظ راجداورجدیولیڈران بولنے کے لیے تیارنہیں ہیں۔چونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب مسلمان صرف ان کے غلام ہیں،کچھ نہ بھی کیاجائے توووٹ پردعویداری برقراررہے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ این سی پی کے جنرل سکریٹری طارق انور’سیکولرزم بچانے‘ کے لیے ایس پی،کانگریس اتحادکے ساتھ جانے کوبے چین تھے جب کہ ان کی پارٹی کے صدرمہاراشٹرمیں بی جے پی کی سرکاربچانے کے لیے تیارہیں۔اسمبلی الیکشن کے بعدطارق انورنے صاف صاف کہاتھاکہ ہم شیوسیناکے ساتھ نہیں جاسکتے جب کہ اس وقت بھی پارٹی صدرشردپوارشیوسیناسے ہاتھ ملا نے کوبیتاب تھے۔یہ الگ بات ہے کہ کسی نے گھاس نہیں ڈالی۔اندازہ لگالیجیے کہ سیاسی پارٹیوں میں مسلم عہدیداروں کی اوقات کیاہے؟۔اورسیکولرزم کے ہمدردوں کے دورخ کس طرح سامنے ہیں۔یعنی فرقہ پرستوں کے ڈرسے سیکولرزم کے بچانے کی فکرصرف مسلمان کریں،اس کے لیے ہربارانہیں ووٹ دیتے رہیں،مگرایشوزپران سے بات نہ کی جائے ،ہاں وہ جہاں چاہیں سمجھوتہ کرسکتے ہیں۔تجزیہ نگاروں کی اس بات سے اتفاق کی گنجائش ہے کہ اب بی جے پی کے خوف کے مدعے پرنہیں،بنیادی مسائل اورایشوزپرحق رائے دہی کااستعمال کیاجائے۔یوپی کے حالات بہارسے مختلف ہیں۔بہارمیں مہاگٹھ بندھن کاکوئی متبادل نہیں تھا،یوپی میں جب متبادل ہے تواکھلیش کی وکالت کیوں؟۔کانگریس،ایس پی اتحادمیں مسلم ایشوز دوردورتک نہیں ہیں اورنہ وہ ان مسائل پربات کر نے کوتیارہیں ۔جملہ بازسماجوادی کے چکرویو میں مسلمانوں کو پھنسنے اورخواہ مخواہ بیگانہ کی شادی میں دیوانہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ہاں جن نشستوں پربی ایس پی کے امیدوارکمزورہوں اورسماجوادی اتحادکے نمائندے مضبوط پوزیشن میں ہوں توانہیں یکطرفہ ووٹنگ کرکے کامیاب بنادیناچاہئے ۔ٹھیک ہے مایاوتی، اس سے قبل بی جے پی سے اتحادکرچکی ہیں،لیکن اب وہ اس ’غلطی کے نہ دوہرا نے ‘ کاوعدہ کررہی ہیں توایک بارپھرانہیں آزمانے میں کیاقباحت ہے ۔ووٹوں کی تقسیم سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،دہلی سے سبق لیجئے ۔کانگریس بھی میدان میں تھی لیکن دوسر ے متبادل کے حق میں متحدہوکرووٹنگ کی گئی توتقسیم کہاں ہوئی ۔مغربی بنگال میں کانگریس اورلیفٹ کے باوجود ووٹ کہاں تقسیم ہوا؟۔سانپ بھی مرگیا،لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔بی ایس پی نے معقول تعدادمیں مسلم امیدواربھی اتارے ہیں۔اگرمایاوتی مسلم ایشوزکوسنجیدگی سے لیتی ہیں تو متحدہوکران کی حمایت کرکے سماجودی اتحادجواب مسلم ووٹروں کوبندھوامزدورسمجھ بیٹھاہے،کی عقل ٹھکانے لگائی جاسکتی ہے۔ دلت،مسلم اتحادکے ایک دورکی شروعات ملکی سیاست پربھی اثراندازہوگی۔جب آزماناہی مقدرٹھہراتوکوئی ضروری نہیں ہے کہ دوبارہ بھی ایک کوہی آزمایاجائے۔کوچہ قاتل کے سواسب راستے بندنہیں ہیں،کچھ کھلے بھی ہیں۔ضرورت ہے کہ ذاتی اغراض سے اوپراٹھ کرانہیں تلاش کیاجائے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36980 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.