ماں
کی محبت کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چاند دکھانے والی بات ہے۔ یہ کسی
دلیل یا ثبوت کی محتاج نہیں ہوتی۔ ماں بچوں کے لیے جو مشقت اٹھاتی ہے کوئی
اٹھا ہی نہیں سکتا۔ اس کی سانسیں اپنے بچے کے ساتھ اول تا آخر جڑی رہتی ہیں۔
وہ اپنے بچے کے لیے کسی بھی سطع تک جا سکتی ہے۔ اس کا ہر کیا بلا کا حیرت
انگیز ہوتا ہے۔ ماں بچے کے لیے اپنی جان سے بھی گزر جاتی ہے۔ یہ محبت اور
شفقت اس کی ممتا کی گرہ میں بندھا ہوا ہوتا ہے اس لیے حیران ہونے کی ضرورت
نہیں۔ محبت اس کی ممتا کا خاصا اور لازمہ ہے۔
عورت اپنے پچھلوں کے معاملہ میں اولاد سے بھی زیادہ حساس ہوتی ہے۔ اس ذیل
میں اس کا قول زریں ہے کہ نہ ماں باپ نے دوبارہ آنا ہے اور نہ بہن اور
بھائی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کا دو نمبر بھائی بھی قطب نما اور باپ کو نبی
قریب سمجھتی ہے۔ ان کی کوئی کمی خامی یا خرابی اس کو نظر نہیں آتی یا ان سے
کمی کوتاہی سرزد ہوتی ہی نہیں۔ جب کہ خاوند کی ماں عموما ففے کٹن اور باپ
لوبھی اور لالچی ہوتا ہے۔ بہن بھائی تو خیر دو نمبری کی آخری سطع کو چھو
رہے ہوتے ہیں۔
کرم بی بی بھی اول تا آخر عورت تھی اور وہ بھی یہ ہی اصولی اطوار رکھتی
تھی۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بہن کی بیٹی لانا چاہتی تھی جب کہ اس کا خاوند
ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی میں کوئی کجی یا خامی نہ تھی۔ بس وہ
ادھر رشتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ان کے گھر میں کئی ماہ سے یہ ہی رگڑا جھگڑا
چل رہا تھا۔ جوں ہی گھر میں وہ قدم رکھتا کل کلیان شروع ہو جاتی اور یہ
اگلے دن اس کے کام پر جانے تک تھوڑے تھوڑے وقفے کے ساتھ چلتی رہتی۔
ایک دن اس نے اپنے ایک قریبی دوست سے معاملہ شیئر کیا، وہ ہنس پڑا
او یار اس میں پریشانی والی کیا بات ہے۔ بھابی کو اپنی ڈال دو سب ٹھیک ہو
جائے گا۔
اپنی کیا ڈالوں۔
یہ ہی کہ تم دوسری شادی کرنے والے ہو۔ عورت تم نے پسند کر لی ہے۔ اس نے کہا
یار میں پاگل ہوں جو ایک بار شدگی کے بعد کوئی عورت پسند کروں گا۔
تمہیں کس نے کہا ہے کہ یہ حماقت کرو‘ جعلی کردار تخلیق کرو۔
اسے اپنے دوست کا آئیڈیا پسند آیا۔ طے یہ پایا کہ وہ ٹیلی فون پر مس کال
کرے گا۔ اس کے بعد وہ جعلی عورت سے دیر تک رومان پرور باتیں کرتا رہے گا۔
پہلے ہفتے زبانی کلامی اگلے ہفتے سے ٹیلی فونک سلسلہ چلے گا۔
اس دن جب رشتے کی بات شروع ہوئی تو اس نے اپنی محبت کی کہانی چھیڑ دی۔ پہلے
تو اس کی بیوی کو یقین نہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے کون پسند کرے گی۔ اس
نے بتایا کہ وہ بڑے بلند مرتبہ شخص کی سالی ہے۔ اسے طلاق ہو گئی ہے۔ بڑی ہی
خوب صورت ہے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی دو بیٹیاں ہیں۔
کرم بی بی کچھ دن اسے لاف زنی خیال کرتی رہی ۔ اگلے ہفتے ٹیلی فون آنا شروع
ہو گئے۔ وہ دیر تک جعلی عورت سے جعلی رومان پرور باتیں کرتا۔ کئی بار باتوں
کے درمیان کہیں سے ٹیلی فون بھی آیا۔ کرم بی بی اتنی پیدل ہو گئی کہ اس نے
غور ہی نہ کیا کہ ٹیلی فون کرنے کے دوران ٹیلی فون کیسے آ سکتا ہے۔
کرم بی بی بھانجی کا رشتہ لانے کا مسئلہ بھول سی گئی اسے اپنی پڑ گئی۔ اسے
گھر میں اپنے وجود کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ گھر میں اکیلی دھندناتی تھی سوت کے
آ جانے کے دکھ نے اسے ادھ موا کر دیا۔ ان ہی دنوں لڑکے کا رشتہ آ گیا جیسے
سوت کے آنے سے پہلے کر لیا گیا مبادہ سوت کے آنے کے بعد کیا حالات ہوں۔ کرم
بی بی کے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی کہ سوت کے آنے کے بعد حالات برعکس ہو
جائیں گے۔
لڑکے کی شادی کو ابھی دس دن ہی گزرے ہوں گے کہ ولی محمد اپنے کمرے میں اداس
بیٹھا ہوا تھا۔ بات بات پر برہم ہوتا اور کبھی رونے لگتا۔ کوئی کچھ سمجھ
نہیں پا رہا تھا کہ اسے اچانک کیا ہو گیا ہے۔ اتنا اداس اور رنجیدہ کیوں
ہے۔ سب بار بار پوچھتے کہ آپ اتنے پریشان اور اداس کیوں ہیں۔ ہر کسی سے یہ
ہی کہتا کب پریشان ہوں۔ میں کیوں اور کس سے اداس ہونے لگا۔
آخر کرم بی بی ہی دور کی کوڑی لائی۔ کہنے لگی تمہاری ثمرین تو دغا نہیں دے
گئی ۔ ولی محمد نے حیرت سے پوچھا تمہیں کیسے پتا چلا۔ کوئی ٹیلی فون تو
نہیں ایا۔
کرم بی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگی کہتی تھی نا کہ تم سے عین غین بندے
سے کون نبھا کر سکتا ہے وہ میں ہی ہوں جو تمہارے ساتھ نبھا کر رہی ہوں ۔
کرم بی بی بلا تھکان بولتی رہی وہ موٹے موٹے آنسوبہاتا گیا۔ اس کی یہ کئی
ماہ اور خصوصا اس روز کی اداکاری دلیپ کمار بھی دیکھ لیتا تو عش عش کر
اٹھتا۔
اس گیم میں اسے تین نوعیت کے دکھوں سے پالا پڑا۔ سالی کی بیٹی کا بیٹے کے
لیے رشتہ نہ لینے کی وجہ سے عارضی سہی قیامت سے گزرنا پڑا۔ جعلی ثمرین کی
جعلی محبت کا ڈرامہ زبردست بےسکونی کا سبب بنا لیکن اصل مسئلہ حل ہو گیا۔
جعلی ثمرین آج بھی کنبہ میں اپنے حقیقی وجود کے ساتھ موجود ہے۔
آج جب وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ چلنے پھرنے سے بھی قاصر وعاجز ہے اسے ثمرین سے
دیوانگی کے ساتھ محبت کا طعنہ ملتا ہے۔ یہ طعنہ اسے اتنا ذلیل نہیں کرتا
جتنا کہ اس کے چھوڑ جانے کا طعنہ ذلیل کرتا ہے۔ کرم بی بی کہتی آ رہی ہے
اگر تم ساؤ پتر ہوتے تو وہ تمہیں چھوڑ کر کیوں جاتی۔ یہ میں ہی ہوں جو تم
ایسے بندے کے ساتھ گزرا کرتی چلی آ رہی ہوں کوئی اور ہوتی تو کب کی چھوڑ
کرچلی جاتی۔ خاندانی ہوں اور میں اپنے مائی باپ کی لاج نبھا رہی ہوں۔ |