مشہور
مقولہ ہے کہ (Justice Delayed is Justice Denied)نیب کا ادارا اسی لیے
خصوصی طور پر بنا یا گیا تھا تاکہ ملزمان جلد ازجلد کیفر کردار تک پہنچیں
اور محتسب اعلیٰ کو براہ راست اپیلیں بھی اسی لیے کہ حقداران کی حق رسی جلد
ازجلد ممکن ہوسکے ۔مگر نیب میں مقدمات کئی سال سے زیر التوا ہیں اس طرح دیر
سے فیصلہ ہو نا حق داران کا اصل حق مارنے کے مترادف ہے بڑے بڑے مگر مچھوں
پر نیب ہاتھ بھی نہیں ڈالتی اور حکمران ان کے لواحقین یا ان کے لے پالک نا
جائز کاروبار کرنے والے موثرسفارشیں ہوجانے کی وجہ سے ویسے ہی دندناتے
پھرتے رہتے ہیں ۔کبھی کبھار کوئی بڑی مچھلی پھنس بھی جائے تو پھر پلی بار
گین فارمولہ پر فوراً عمل در آمد کیا جاتا ہے یعنی کھربوں کے فراڈی سے دو
چار کھرب لیکر اس کی واضح رہائی بھی ایسی کہ مقدمہ سمجھ لیں یہیں ختم ہو
گیاکالا دھن والوں کی تو چاندی ہوگئی ہے اربوں کے فراڈ کرو دسواں حصہ دے کر
چھوٹ جاؤ ۔اب قوانین تبدیل کردیے گئے ہیں مگر بیورو کریسی کے راج میں ایسے
قوانین بھی اپنی حیثیت برقرار نہ رکھ سکیں گے پھر وہی چھوٹ چھاٹ شروع ہو
جائے گی ہاں اگر پانامہ لیکس ،بہاماس لیکس زرداری والی وکی لیکس اس کے سوئس
اکاؤنٹس سرے محل لندنی اور دبئی فلیٹس محلات کا حساب لے لیا ہو تا تو شکنجے
کی سختی کی وجہ سے نئے ملزمان جنم نہ لیتے۔مگر یہاں تو بڑوں کی رہائی اور
غریبوں کی شامت آئی ہے انوکھی مثال آج کے دور میں موجود ہے ۔احمد علی جتوئی
نامی شخص اسٹیل ملز سے دوسال سے زائد عرصہ قبل ریٹائرڈ ہوچکا وہ وفاقی
محتسب کودر خواست ہائے بھیجتا رہا ایک درخواست 477/6جنوری2016سے وفاقی
محتسب کے دفتر میں گھوم چکریوں کا شکا ر ہے۔ملز کی بیورو کریسی اور ان کا
اکاؤنٹ دفتراس کے پراویڈنٹ فنڈزسے مسلسل سود کھا رہی ہے۔کئی پیشیاں بھگت
چکا ۔آخری سماعت چوبیس اکتوبر2016کو بھی ہو چکی عمومی طور پر وفاقی محتسب
کے ادارہ کے قوانین کی رو سے ساٹھ دن کے اندر فیصلہ سنا دینا ضروری ہے
مگر115روز گزر جانے کے باوجود فیصلہ نہ دارد بیچارا کئی بار فون کرکے چیخا
چلایا ای میل بھیجے سیکریٹری ادارہ وفاقی محتسب سے بھی تحریری رابطے کیے
حکومتی پالیسی کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات جلد از جلد ادا کیے جائیں ۔کا
تیاپانچا ہو چکا۔پراویڈنٹ فنڈ کو ملنا تھا نہ آج تک ملا در اصل ریٹائرڈ
ملازمین کو انھی فنڈات کی وصولی کے بعد کوئی چھوٹا موٹا گھر بنانا اور
نوجوان بچے بچیوں کی شادی کرنی ہوتی ہے ان ذمہ داریوں سے فار غ ہو کر باقی
بقیہ رقم کسی چھوٹے موٹے کاروبار میں لگا کر اپنی باقی ماندہ زندگی کے دنوں
کا گزارا کرنا ہوتا ہے کیا ہی احسن ہوتا کہ وفاقی محتسب کا ادارا اس کی
اپیل پر جلد انصاف مہیا کرکے اسے پراویڈنٹ فنڈ فراہم کروا دیتا ۔تاکہ وہ
اور اس کے مظلوم بچے فاقہ کشیوں کا شکار ہونے سے بچ جاتے اور وہ بھی
مایوسیوں کا شکارہو کر اگلی دنیا کو سدھار جانے کے لیے زندہ درگور نہ ہو تا
ایسے ریٹائرڈ ملازمین کے بہت سارے مقدمات زیر التوا ہونے کی جہ سے بہت نا
چیز بوڑھے عمر رسیدہ پنشن یافتہ بے یا ر و مددگار احمد علی جتوئی جیسے
افراد کے گھروں میں ان کے بچے دو وقت کی دال روٹی کو ترس رہے ہیں اور حکومت
کو ڈھیر ساری بد دعائیں دیتے رہتے ہیں کہ کوئی اﷲ کا بندہ آئے اور ہمیں اس
اذیت سے نجات دلوائے سٹیل مل و دیگر اداروں کی بیورو کریسی کو غریب پنشنروں
کے پراویڈنٹ و دیگر فنڈز پر سود جیسی حرام خوری سے منع کر سکے۔ |