2014 سے پہلے ملک میں ایک افرا تفری
کا ماحول تھا ہر طرف دھماکے ٹارگیٹ کلینگ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی مانند
کاٹھا جاررہا تھا ۔لسانیت کے نام پر فرقے کے نام پر صوبایت کے نام پر اور
دیگر معاملات پر ہونے والی دہشتگردی میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کو پاکستان
میں موت کی گھاٹ اُتارہ گیا،مرنے والے کو پتہ نہیں تھا کے میں کیوں مارا
جاررہا ہوں اور شاید مارنے والا بھی نہیں جانتا تھاکہ میں کیوں مار رہا ہوں
۔بس ایک ہو کا عالم تھا ،لیکن پھر اﷲ تعالیٰ کا کرم ہوا اور دہشتگردی کے
بادل چٹ نے لگے اور ملک میں امن اور سکون کی فضاء قائم ہونے لگی ،شہری بے
خوف کی عالم اپنے کام کاج پر جانے لگے غیر ملکی سرمایا دار ملک میں آنے لگے
روشنیوں کا شہر کراچی نے اپنا کویا ہوا حُسن دوبارہ حاصل کیا زندہ دل والوں
کے شہر لاہور کی عوام بھی بہت خوش تھے ، دہشتگردی میں سب سے زیادہ متاثر
پشاور کی عوام نے اس آفت سے نجات ملنے پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر ادا
کر رہے ہیں ،یہی حال کوئٹہ سمیت پورے ملک کی تھا، ملک بھر کی عوام اس خوشی
کو انجوائی کررہے تھے ، جو بڑی مشکل سے ملی تھی ،اسی ہی خوشی کیلئے پاکستان
کی افواج نے بڑی قربانی دی ،مگر یہ کیا ایک کے بعد ایک آٹھ دہشتگردی کے
واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ، سرکاری دفتر سے لیکر اہلکاروں تک چوکوں
سے لیکر کھیل کی میدانوں تک مزاروں سے لیکر بازاروں تک ہمارا سب کچ ایک
مرتبہ پھر دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔ ابھی تو دہشتگردی کے واقعات میں
زخمیوں کی زخم بھرے بھی نہیں تھے کہ دہشتگردوں نے پھر سے وار شروع کردیا ۔پہلے
کراچی ایک نیوز چینل کی ڈی سی این جی کو ٹاگٹ کیا گیا ،جس میں ایک نوجوان
جاں بحق ہوا ابھی تو ہم نے اس کو دفنا یا بھی نہیں تھا کہ لاہور میں پنجاب
اسمبلی کے باہرایک خود کش حملہ ہو جاتا ہے جس میں پندرہ سے زاید آفراد اپنی
جان کی بازی ہار گئے ۔جس میں دوبڑے جانباز پولیس افسران بھی شہید ہوئے ہیں۔
اور اس ہی دن کوئٹہ میں بھی ایک دل خراش واقع ہو جاتھا ہے ایک بھاری بم کو
ناکام بناتے ہوئے ایف سی کے دو جوان شہید ہو جاتے ہیں۔لاہور اور کوئٹہ کے
دھماکوں کہ شہداء کے گھروں پر ابھی تعزیت کا سلسلہ جاری و ساری تھاکہ
دہشتگردوں نے پشاور کو اپنا نشانہ بنا دیا اس بار دہشتگردں نے عدالت کو
اپنا نشانہ بنایا اور اس حملے میں بھی پانچ آفراد کی اموات ہوئی ،اور اس ہی
دن قبائل میں پاک فوج کو بھی دشمن نے اپنا نشانہ بنا یا ،چار دن پانچ
واقعات کئی شہادتیں اور سیکڑوں زخمی ہر پاکستانی شوک میں آگیا کہ یہ کیا ہو
راہا ہے ابھی ہماری سوچ لاہور ،پشاور اور کوئٹہ پر تھا کہ پانچویں دن تین
صوبوں میں دہشتگرد و ں نے 84 سے زاید پاکستانیوں کواپنی بربریت کا نشانہ
بنایا ڈیرا اسماعیل خان کے بعد بلوچستان کے علاقے آواران میں پاک فوج کو
نشانہ بناکر کیپٹن سمیت تین فوجی جوانوں کو شہید کیا گیااور اس ہی دن کا سب
سے بڑا سانحہ ۔ صوبہ سندھ کو ایک مرتبہ پھر سے نشانہ بنا دیا گیا ، اس
مرتبہ صوبائی دروالحکومت کو نشانہ نہیں بنایا گیا اس مرتبہ دہشتگردوں کا
پلین کُچ اور نکلا دہشتگردں نے سیہون میں حضرت عثمان مروندیؒ (لال شہباز
قلندر)کے مزار کو نشانہ بنایا جس میں 75سے زاید آفراد نے جان کی بازی ہاری
اور لگ بگ تین سو سے زاید آفراد زخمی بھی ہوئے ،جاں بحق آفراد کی تعداد ،ستمبر
میں شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والے بم دھماکے سے زیادہ ہیں ۔ ان سانحات
میں بہت سی ماو’ں کی گود کو اجاڑ گئے ۔ سب سے پہلے تو میں ان سوگوار
خاندانوں سے تعزیت کرتا ہوں جن کے بچے۔پیارے اور عزیزوں اقارب ان سے بچھڑ
گئے ہیں۔ اور ساتھ دعا کرتا ہوں کہ اﷲ پاک ان کو جوارِ رحمت میں جگہ دیے۔
اور لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اور جو لوگ زخمی ہوئے ہیں اﷲ پاک ان
کو اپنے خصوصی کرم سے شفا ء کاملِ عاجلا عطا فرمائے۔ان تمام سانحات کے بعد
ملک کا ہر شہری پریشان ہے کہ کیا ہورہا تھا اور کیا ہوگیا ،امن کے دشمن
دہشت گردوں نے پاکستان کے چاروں صوبائی مرکزوں سمیت سیہون پر وار کیا
ہے،پاکستان ایک بار پھر بیگناہوں کی لہومیں ڈوب گیا، ظلم و بر بریت کی
انتہا ہوگئی،ہر طرف کہرام مچ گیا، پورے پاکستان کی فضا سوگوار اور ہر آنکھ
اشکبار ہوگئی،دل خون کے آنسو رو رہا ہے،لاہور میں گزشتہ روز شام کے وقت
پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسو سی ایشن میڈیکل
اسٹورز ایسوسی ایشن کا احتجاج ہو رہا تھا۔ اورمظاہرین روڈ بلاک کر کے
احتجاج کررہے تھے کہ اس دوران اچانک ایک خود کش بمبار نے دھماکہ کردیا۔ چیف
ٹریفک آفیسر ٹریفک جام کے باعث کیمسٹ اینڈ ڈرگ ایسو سی ایشن کے مظاہرین سے
راستہ کھولنے کیلئے مذاکرات کیلئے ٹرک کے قریب موجود تھے اور ٹریفک کھلوانے
کیلئے ان سے بات چیت کر رہے تھے اور عین اسی وقت دھماکہ ہو گیا جبکہ ان کے
ساتھ متعدد ٹریفک پولیس افسر اور دیگر پولیس اہلکار بھی موجود تھے۔کوئٹہ
میں ایف سی کے اہلکاروں نے عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں
کانذرانہ پیش کیا ، سولہ فروری شام کو سندھ کے قدیم شہر سیہو ن میں ایک بڑی
والی حضرت عثمان مروندیؒ (لال شہبازقلندر) کے مزار کو اس وقت نشانہ بنایا
گیا جب ہوا پر زائرین کی کثیر تعداد موجود تھی،بتایا جاتا ہے کہ خودکش حملہ
وار گولڈن گیٹ سے داخل ہوا اور زائرین کے حجوم میں خود کو اُڑا دیا جس میں
ابتک 75 سے زاید آفراد جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں زخمی ،دہشتگردی تو ایک
المیہ ہے ہی پر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد دینے میں
سوستی کی گئی ،جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ،ایک تو سیہون میں کوئی
بڑا سرکاری ہسپتال نہیں ہے ،دوسری طرف حکومتی امدادی ٹیم بھی بروقت نہیں
پہنچ پائی جس پر زائرین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہیں ۔ اس وقت
پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سب سے بڑا مسلۂ دہشتگردی کاہے ۔یہ
دہشتگرد آتے کہا سے ہے اور ان کو سپورٹ کو ن کررہاہے ،یہ کو ڈھکی چھوپی بات
نہیں ہے ۔ حکومت اور اجنسیوں نے ان تمام سانحات کی کڑی افغانستان سے جوڑی
ہے،لیکن کیا ان سے اس باری میں احتجاج کیا جایئگا،افغانستان کا اصل
ٹھیکیدار امریکا ہے ۔ آئے روز کوئی نہ کوئی ان کا زمہ دار پاکستان کے خلاف
بکواس کررہا ہوتا ہے ۔کیا ہم ان سے جواب طلبی نہیں کرسکتے کہ اس نے اپنی
سرزمین ہمارے خلاف استعمال کرنے کیلئے بھارت کو کیوں چوٹ دی ہوئی ہے ۔ اس
وقت مجھ سمیت تمام پاکستانوں کو تلاش ہے اس گم شدہ پاکستان کی جہاں امن اور
بھائی چارگی ہوا کرتی تھی ،ہمیں تلاش ہے ایسے پاکستان کی جس میں امن کے
ساتھ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائیں ۔ہمیں تلاش ہے ایک
ایسے پاکستان کی جس کا ہر شہری بے خوف اور پرسکون زندگی گوذار سکے اور صبح
اپنے کام پر جائیں تو شام کو گھر پرسکون انداز میں لوٹیں نہ کہ کسی چوک ،بازار
یا مزار پر دہشتگردوں کے بھینٹ چھڑے ۔یا اﷲ ہمارے پیارے ملک پاکستان کو
اپنی حفظ و امان میں رکھیں( آمین ) |