ارشد غازی کے الزامات ۔۔۔ بات کرنی مجھے ایسی کبھی مشکل تو نہ تھی

قارئین آج کا کالم بغیر کسی تمہید کے آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اسے ایک متوقع مقتول کی عائد کی جانے والی فرد جرم کہہ لیجئے یا دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا خون دل اور آنسو ؤں سے لکھا اور مٹا ہوا وہ خط کہہ لیجئے جس میں انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے دستانہ بدوش ان ہاتھوں کی نشاندہی کر دی تھی جو انکے متوقع قاتل تھے ۔

قارئین چند روز قبل سابق وزیر صحت اور مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما ارشد محمود غازی نے راقم کو آزاد کشمیر کے سب سے پہلے ٹیلی ویژن جے کے نیوز ٹی وی کے لیے ایک انٹرویو دیا اس انٹرویو سے قبل انہوں نے فیس بک پر اپنے پیج کے اوپر ایک تحریر پوسٹ کی جس میں انہوں نے لکھا کہ کیا وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود میرپور کا دورہ کرنے سے قاصر ہیں ،کیا وجہ ہیکہ میرپور کے پڑھے لکھے غریب طلبہ و طالبات نوجوانوں کا حق مارتے ہوئے سینئر وزیر چوہدر طارق فاروق جو راجہ فاروق حیدر خان کی غیر موجودگی میں قائمقام وزیر اعظم کے مقدس عہدے پر بھی براجمان رہے وہ میرپور کی نوکریوں پر اپنے ضلع کے لوگوں کو ناجائز طریقے سے تعینات کر وا رہے ہیں ،کیا وجہ ہیکہ محکمہ تعلیم ، جنگلات ،صحت اور دیگر محکمو ں کے وزراء میرپور ضلع کی گریڈ ایک سے لیکر گریڈ پانچ تک کی آسامیوں کو اغواء کر کے اپنے اپنے من پسند اپنے اضلاع کے لوگوں کو غیر قانونی طور پر نواز رہے ہیں انکی اسی تحریر کے تناظر میں راقم نے انکے دو طویل انٹرویوز کیے ان انٹرویوز میں عظیم رہنما غازی الہٰی بخش مرحوم کے صاحبزادے سابق وزیر صحت ارشد محمود غازی نے انتہائی کھلے الفاظ میں سینئر وزیر جناب چوہدری طارق فاروق اور دیگر وزراء پر سنگین الزامات بھی لگائے اور وزیر اعظم راجہ فارو ق حیدر خان کو دعوت دی کہ وہ ایک کمیٹی بنا کر خود اسکے چیئرمین بن جائیں اور چند سینئر بیوروکریٹس ،صحافیوں اور میرپور شہر کی تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو اس کمیٹی میں شامل کر یں اور میں اپنی کہی گئی ایک ایک بات اور ایک ایک الزام کو دستاویزی ثبوتو ں کے ساتھ ثابت کروں گا اگر میں سچا نکلا تو وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان مجرم وزراء کے خلاف کاروائی کریں اور اگرمیں جھوٹا نکلا تو میں ہر سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں ۔راقم نے ارشد محمود غازی سے پوچھا کہ عالی جاہ آپ کے پاس ایسے کیا ثبوت ہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ آپ کی تنقید کا ہدف بننے والے وزراء کسی قسم کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں اس پر ارشد محمود غٖازی نے براہ راست سینئر وزیر جناب چوہدری طارق فاروق کا نام لیکر الزام عائد کر دیا کہ انکا خاندانی بیک گراؤنڈ شرافت اور غربت سے عبارت ہے اور انکے والد گرامی میرے والد غازی الہٰی بخش مرحوم کے انتہائی قریبی دوست تھے تین کمروں کے کچے گھر سے بڑے بڑے محل آخر کیسے تعمیر ہوئے اور باب کشمیر کے ساتھ مبینہ طور پر انکے بھائیوں نے ہزاروں کنا ل زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اس پر راقم نے صرف اتنا تبصرہ کیا کہ الزامات آپ لگا رہے ہیں اور آپ کے مخاطب راجہ فارو ق حیدر خان وزیر اعظم آزا دکشمیر ہیں اس لیے عقلی طور پر انکا جواب دینا راجہ فاروق حیدر خان کا ہی فرض بنتا ہے یہ دونوں انٹرویوز جے کے نیوز ٹی وی ، بول کشمیر نیوز اور میرپور نیوز کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا میں نشر ہوئے اور لاکھوں لوگوں نے یہ انٹرویوز دیکھ کر اپنے اپنے لحاظ اور اپنی اپنی فہم اور سیاسی وابستگی کے مطابق ان پر کمنٹ کیا اور یہ بات آزا د کشمیر سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی اسی دوران وزیر اعظم آزا د کشمیر راجہ فاروق حیدر خان اسلام آباد سے نکل کر دھان گلی پل کے راستے ڈڈیال میں داخل ہوئے اور عوامی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے چکسواری اور اسلا م گڑھ سے ہوتے ہوئے میرپور آ پہنچے ۔راقم نے PWD ریسٹ ہاؤس میں ان سے مصافحہ کرتے ہوئے ان سے اچھے تعلقات کے زعم میں مسکراتے ہوئے پوچھا کہ جناب انٹرویو کے لیے مجھے کب وقت دیں گے اس پر انہوں نے خلاف معمول تھوڑا غصے میں فرمایا کہ ضرور وقت دوں گا لیکن آپ تھوڑی بات کو بہت بڑھا دیتے ہیں راقم پہلے تو انکی بات ہی نہ سمجھا کہ وہ کیا فرما رہے ہیں اور خوشدلی سے جواب دیا کہ مائی لارڈ آئندہ غلطی نہیں ہو گی ۔ہم انکا ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر ایک بگلے کی مانند چار گھنٹے انتظار کرتے رہے کہ وہ ہمیں کب وقت دیں گے لیکن مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی غصیلی اور گرماگرم گفتگو کے بعد وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان ہم سے چھ انچ کے فاصلے سے جان بوجھ کر نظرانداز کر کے چلے گئے ہم نے حسب معمول اپنی سادگی نما بیوقوفی اور حماقت سے کام لیتے ہوئے اسے انکی مصروفیت کا نام دیا اور دل میں کوئی میل نہ لائے اگلے دن صبح آٹھ بجے ہم محترمہ بینظیر بھٹو شہید میڈیکل کالج میرپور پہنچے جہاں انہوں نے ساڑھے نو بجے تشریف لانا تھی انکی آمد سے قبل ہم نے وزیر صحت و خزانہ و پلاننگ ڈاکٹر نجیب نقی ، وزیر جنگلات سردار میر اکبر خا ن ، سیکر ٹری ہیلتھ جنرل خالد اسد ،ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر بشیر چوہدری ، پرنسپل میرپور میڈیکل کالج پروفیسر میاں عبدا لرشید ،راولا کوٹ میڈیکل کالج پروفیسر ضیاء اور پرنسپل مظفرآباد میڈیکل کالج کے انٹرویوز جے کے نیوز ٹی وی کے لیے ریکارڈ کر لیے بوجوہ مصروفیت وزیر اعظم گیارہ بجے کے قریب تشریف لائے فوٹو سیشن کے فوراً بعد ہم اپنے سادگی اور حماقت نما خلوص کے ساتھ انکے پاس پہنچے اور ہاتھ ملا کر پوچھا جنا ب انٹرویو کے لیے کب وقت دیں گے اس پر انہوں نے تھوڑا سا مسکرا کر فرما یا وقت دیں گے ضرور دیں گے ۔
 
قصہ مختصر تقریباً 14 گھنٹے کی خوفناک مشقت میں ہم وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے شاہی قافلے کے ہمراہ سٹیٹ کالج آف نرسنگ ، میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، امور منگلا ڈیم ، ایم ڈی اے ، ایم ڈی ایچ اے ، پی ایم یو کی بریفنگز ، رٹھوعہ ہریام پل کے جائزے ، ریڈیو آزاد کشمیر ایف ایم 101 کے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کے پاس انٹرویو کے لیے برادرم بلال رفیق کے ساتھ سٹوڈیو میں بھی موجود رہے اور ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھتے رہے حضور ہماری انٹرویو کی با ری کب آئے گی اور ہر بار راجہ فاروق حیدر خان یہی جواب دیتے رہے باری آئے گی ضرور آئے گی’’ چھکا مارکہ وزرات ‘‘ رکھنے والے چوہدری محمد سعید وزیر ایم ڈی اے ، ایم ڈی ایچ اے ، امور منگلا ڈیم ، سپورٹس یوتھ اینڈ کلچر نے رات کے وقت مقامی ہوٹل میں راجہ فاروق حیدر خان اور وزراء کے اعزاز میں عشائیہ رکھا ہو ا تھا اس عشائیہ میں تقریب کے بعد ہم فوراً لپک کر وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے پاس پہنچے اور اپنا سوال سوالی نے پیش کر دیا وزیر اعظم نے کمال مہربانی کرتے ہوئے فرمایا آپ فرسٹ فلوروالے ہال میں پہنچیں اوروہاں سیٹ لگا لیں میں انٹرویو دوں گا ہم نے فوراً جے کے نیوز کی ٹیم کے ہمراہ سیٹ تیار کیا وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان دیگر وزراء راجہ مشتاق منہاس، محترمہ نورین عارف، چوہدری محمد سعید ، سردار میر اکبر خا ن اور ممبران اسمبلی چوہدری مسعود خالد ،ڈاکٹر ڈار ،چوہدری رخسار اور دیگر کے ہمراہ سیٹ کے ساتھ ہی لگی کھانے کی میز پر تشریف لائے اور کھانا کھانے لگے ہم نے دیکھا کہ سینئر وزیر چوہدری طارق فاورق تشریف لا رہے ہیں ہم مودبانہ انداز میں انکے پاس پہنچے اور مصا فحہ کے لیے ہاتھ آگے کیا انہوں نے ہمارا ہاتھ تھام کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی آتشیں لہجے میں کہا ’’ میری زندگی کا یہ ریکارڈ ہے کہ میں نے کسی کا بھی حساب آج تک باقی نہیں رکھا بہت جلد آپ کا حساب بھی چکا دوں گا ‘‘ اس پر ہماری ہنسی نکل گئی اور ہم نے عرض کیا کہ جناب آپ کے اوپر الزامات ارشد محمود غازی نے لگائے ہیں آپ نے اگر حساب چکانا ہے یا بات کرنی ہے تو ان سے جا کر کیجیے ہماری جان ناتواں پر یہ برہمی کیسی ۔ اس پر چوہدری طارق فاروق فرمانے لگے کہ آپ کی زبان بھی بہت شیریں ہے اور کافی زیادہ چلتی ہے اسکا علاج کر نا بھی ضروری ہے ہم نے ادب سے عرض کیا عالی جاہ ’’ ست بسمہ اﷲ ‘‘
دل ہی دل میں چچا غالب کے یہ اشعار گنگناتے رہے
"ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز ِ گفتگو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
بنا ہے شاہ کا مصاحب اور پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے "

قارئین ہم نے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ، وزیراطلاعات اور ہمارے استاد گرامی راجہ مشتاق منہاس اور وزیر ایم ڈی اے چوہدری سعید کو ایک کھلا خط بھیج کر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا کہ ہمیں اس قسم کی دھمکی سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے ہمارا ہاتھ تھام کر بالمشافہ عنائیت فرمائی ہے اور اس بات کا نوٹس لیا جائے ابھی تک نوٹس نہیں لیا گیا ۔ اس لیے مجبوراً یہ کھلا خط اور کالم تمام احباب کی نظر کر رہے ہیں ۔ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان انتہائی صاف ستھرے اور صاحب ِ کردار انسان ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری اس گزارش پر کوئی نہ کوئی توجہ ضرور دیں گے ۔ رہی بات سابق وزیرصحت ارشد محمود غازی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تو اس کا جواب درجہ بدرجہ ان سب لوگوں کا دینا فرض ہے جن پر الزامات لگائے گئے ہیں ۔ اپنے مربی و محسن جناب چوہدری طارق فاروق سینئر وزیر سے ہم یہی عرض کریں گے کہ ہم اب بھی اپنے دل میں آپ کیلئے بے پناہ احترام رکھتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ آپ نے اپنا نزلہ ارشد محمود غازی پر گرانے کی بجائے عضوِ ضعیف جنید انصاری پر گرا دیا ۔ باقی ایک بات کا اظہار ہم ضرور کرتے چلیں کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں اور جو باہر وہ قبر میں نہیں ۔میڈیا چاہے پرنٹ ہو یاالیکٹرانک صرف اظہار ِ رائے کا ذریعہ ہے ۔ سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق اگر اپنا موقف دینا چاہتے ہیں تو ہمارا اخبار ، ریڈیو اور ٹی وی تینوں حاضر ہیں ۔ ذریعے کو برا بھلا کہنا مناسب بات نہیں ۔
آخر میں حسب معمول لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک پاگل اونچے کھمبے پر چڑھ گیا درجنوں لوگوں نے کوشش کی کہ بات چیت کر کے ، لالچ دیکر اسے نیچے اترنے پر آمادہ کر لیں لیکن پاگل رضا مند نہ ہوا
اتنے میں ایک اور پاگل وہاں آیا اور اوپر بیٹھے پاگل سے مخاطب ہو کر کہنے لگا
"نیچے اتر آؤ ورنہ یہ کھمبا میں قینچی سے کاٹ دونگا"
پاگل فوراً نیچے اتر آیا لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے ہماری بات نہ مانی اس کی کیسے مان لی
پاگل نے جواب دیا
"او بھائی یہ پاگل آدمی ہے یہ کھمبا کاٹ بھی سکتا ہے ۔ "

قارئین کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یا تو یہ دنیا پاگل ہے اور یا پھر ہم دیوانے ہیں ۔ اﷲ سب کے حال پر رحم فرمائے آمین!
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336114 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More