سانحات کا تسلسل……دشمن ایک بار پھر پاکستان کے خلاف متحرک ہوگیا
(عابد محمود عزام, Lahore)
وطن عزیز میں دہشت گرد ایک مرتبہ پھر سرگرم
ہوگئے ہیں۔ دہشتگردی کی نئی لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پانچ
دنوں میں دہشتگردی کی نو کارروائیوں میں سو سے زاید افراد شہید اور سیکڑوں
زخمی ہوچکے ہیں۔ ان کارروائیوں میں سب سے خطرناک اور افسوسناک سیہون میں
معروف بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر خودکش دھماکا ہے، جس میں اب تک
76 افراد شہید، جبکہ 300 سے زاید زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا عفریت جس طور
پر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، وہ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔
دشمن نے محض ایک ہفتے میں اس پورے ماحول اور کامیابیوں کے تاثر کو تاراج
کردیا ہے، جو سلامتی کے اداروں اور عام شہریوں نے سوا دو سال کی لازوال
قربانیوں کے ذریعے استوار کیا تھا۔ دہشت گردی کی حالیہ دنوں میں رونما ہوئی
وارداتیں چند سر پھرے افراد کی کارستانی ہرگز نہیں ہے، اس میں دشمن ممالک
کے زرخیز ذہن کارفرما ہیں، جنہیں منصوبہ سازوں کی خدمات حاصل ہیں۔ گزشتہ
چند روز کے دوران ملک دشمن عناصر کی جانب سے کی گئی کارروائیوں نے دہشت
گردوں کی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا ہے۔ رواں ہفتے دہشتگردی کی لہر
نے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں متعدد افراد کے جاں بحق ہونے سے جنم لیا اور
پھر دہشت گردوں نے لاہور کو نشانہ بنایا، جہاں 13 فروری پیر کے روز چیئرنگ
کراس کے مقام پر خودکش حملہ ہوا، جس میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس
ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 13 افراد شہید اور 85زخمی ہوئے۔13 فروری کو
ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیز مواد کو ناکارہ
بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2 افراد شہید ہوگئے
تھے۔ 15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی
میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد
شہید ہوگئے تھے۔ 15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی
گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور شہید ہوگیا تھا۔
جمعرات کے روز (16 فروری) کو صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہباز
قلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 75 سے
زاید افراد جاں بحق اور تقریباً 300 افراد زخمی ہوئے۔ خود کش دھماکوں کے
ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکورٹی فورسز کے قافلوں کو بھی نشانہ
بنایا جارہا ہے۔ جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کے علاقے آواران میں سڑک
کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایک کیپٹن سمیت 3 اہلکار شہید
ہوگئے تھے۔
لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر دھماکے کے بعد پاکستان کی سویلین و ملٹری
قیادت کی طرف سے سخت بیانات آئے ہیں۔ وزیراعظم نے اس حملے کو پاکستان کے
مستقبل پر حملہ قرار دیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشتگردوں سے
فوری انتقام لینے کا اعلان کیا ہے۔ دھماکے سے پہلے بھی آرمی چیف کا اہم
بیان سامنے آیا تھا جس میں افغانستان کے حوالے سے خاص فوکس نظر آتا ہے۔
باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں دورے کے دوران آرمی چیف کا کہنا تھا کہ دہشتگرد
افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں دوبارہ منظم ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ
فوجی ترجمان کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان میں دہشتگردی افغانستان میں
موجود دشمن قوتوں کی ایما پر کی جارہی ہے، ہم اس کا دفاع بھی کریں گے اور
بھرپور جواب بھی دیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی
کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں
ہورہی ہے، لیکن ہم ملک کا تحفظ کرتے ہوئے ان حملوں کا بھرپور جواب دیں گے۔
سیہون میں واقع درگاہ قلندر لعل شہباز میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد
سیکورٹی فورسز نے ملک کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے 30 سے زاید
مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جبکہ پاکستان کی جانب سے افغان سفارتخانے
کے اعلیٰ حکام کو جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کرکے افغانستان میں
چھپے ’’انتہائی مطلوب‘‘ 76 دہشت گردوں کی فہرست حوالے کردی گئی اور مطالبہ
کیا گیا کہ یا تو ان دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے یا پھر
انہیں پاکستان کے حوالے کردیا جائے۔
ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی نئی وارداتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن
نے مکمل منصوبہ بندی کے بعد یلغار کی ہے۔ حکومت اب تک یہی کہتی آئی ہے کہ
دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ یہ تاثر بڑی حد تک درست بھی تھا، یوں
محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے مطمئن ہوگئے تھے کہ دہشت گردی اب دوبارہ سر
اٹھانے کے قابل نہیں رہی، لیکن قابل نفرین واقعات کی تازہ لہر نے ان کے اس
اطمینان کو غلط ثابت کردیا ہے اور دشمن ایک بار پھر پوری تیاری کر کے بے
گناہ لوگوں کا خون کرنے کے لیے میدان میں اتر چکا ہے۔ پاکستان کی ترقی، اس
کی اقتصادی بہتری اور اہم ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری دشمنوں کو
ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھارت کو تو پاکستان کا وجود ہی گوارا نہیں ہے، اس کے
لیے یہ تصور ہی سوہان روح ہے کہ معاشی طور پر مستحکم پاکستان ہمیشہ اس کے
پڑوس میں موجود رہے گا اور اس کے سینے پر مونگ دلتا رہے گا۔ چین، پاکستان
اقتصادی راہداری کا منصوبہ وضع کیا گیا تو اس کی بھنک پڑتے ہی بھارت نے
اپنے خفیہ دہشت گرد ادارے ’’را‘‘ میں اسے سبوتاژ کرنے کے لیے خصوصی ڈیسک
قائم کردیا جس کی صوابدید پر اربوں ڈالر دے دیے گئے۔ ملک میں جنم لینے والی
دہشتگردی کی نئی لہر کا اندازہ تو اسی وقت ہورہا تھا، جب بھارت سے آنے والے
بعض بیانات میں پاک چائنا اکنامک کاریڈور کو ہر قیمت پر سبوتاژ کرنے کے
مذموم عزائم کا اظہار کیا جارہا تھا۔ دبئی میں پاکستان سپر لیگ کے شاندار
انعقاد ہونے اور لاہور میں اس کا فائنل منعقد کیے جانے کے فیصلے سے پاکستان
دشمنوں کو اپنے وہ مذموم مقاصد خاک میں ملتے نظر آئے، جو کرکٹ ورلڈ کپ کا
اس مملکت خداداد میں انعقاد روکنے کے لیے کیے گئے۔ تیس سے زاید ممالک کی
فورسز کی پاکستان بحریہ کے ساتھ پانچ روزہ مشترکہ امن مشقیں بھی بھارت کے
لیے تکلیف کا باعث ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی استقامت نے بھارت
کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے، جس کا غصہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی
کروا کر نکالنا چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھرپور عوامی تحریک سے حواس
باختہ نئی دہلی کے حکمرانوں نے بعض ایسی ریاستوں سے بیانات دلواکر پاکستان
کو تنہا کرنے کے دعوے کیے، جہاں بیرونی مداخلت و تسلط کے نتیجے میں نئی
دہلی کو اثر و نفوذ قائم کرنے کا موقع ملا۔ اب جبکہ بھارتی آرمی چیف نے
مقبوضہ کشمیر میں عوامی جدوجہد کو داخلی شورش تسلیم کرکے اپنی بے بسی کا
اظہار کیا ہے تو ہمیں آنے والے دنوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے نئے
واقعات سے نمٹنے کے لیے اپنی تیاریاں فزوں تر کرنا ہوں گی۔ ان حالات میں جب
ایک پڑوسی دشمن کے ہاں ایسی منصوبہ بندی جاری ہو، ہمارا کسی تساہل کا شکار
ہونا یا اپنی چوکسی کو کم کردینا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ حکومت پاکستان
کو اس معاملے میں سخت ایکشن لینا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو افغانستان اور
بھارت کو سخت وارننگ دینی چاہیے اور عالمی سطح پر ان کی پاکستان میں
دہشتگردی کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ بھارت میں اگر کوئی ایک آدھ دہشتگردی کا
واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو بھارت اس کو بنیاد بنا کر برسوں پاکستان کے خلاف
پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے، عالمی سطح پر بھی پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش
کرتا ہے، لیکن پاکستان میں آئے روز دہشتگردی کی کارروائیاں ہوتی ہیں، جن
میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل جاتے ہیں، لیکن
پاکستان اس کے باوجود ان کو عالمی عدالت میں کھڑا نہیں کرسکتا۔
اگرچہ گزشتہ دو سال میں ملک میں دہشتگردی میں خاطر خواہ کمی ہوئی،ا لیکن اب
معاملات پھر بگڑ رہے ہیں۔ جب بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، میڈیا کی
جانب سے اعتراضات کیے جاتے ہیں،حکومت کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف لڑنے
کاعزم دہرایا جاتا ہے، لیکن چند دن کے بعد معاملات پھر معمول پر آجاتے ہیں
اور جوخامیاں اور کوتاہیاں دور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، اْس طرف کوئی توجہ
نہیں دی جاتی اور پھر ایک نیا دہشتگردی کا واقعہ رونما ہو جاتا ہے اور پھر
کئی جانوں کی شہادت کا دکھ قوم کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دسمبر 2014ء کے
واقعے کے بعد سامنے آنے والے نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی کے انسداد کے
قومی ادارے (نیکٹا) کو مکمل فعال بنانے کے عزم کے باوجود یہ ادارہ اب تک
مکمل فعال نہیں کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا
کہ نیکٹا کو دوبارہ فعال بنایا جائے گا، لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی
زمینی صورتحال یہ ہے کہ نیکٹا میں 700 اسامیوں پر صرف 130 لوگ کام کر رہے
ہیں۔ دہشتگردی کی کارروائیوں کے بعد ملک میں فوجی عدالتوں کی اہمیت بھی بڑھ
جاتی ہے۔ جمہوری معاشرے میں خصوصی فوجی عدالتوں کا قیام یقیناً مشکل تجویز
ہے،لیکن موجودہ حالات میں اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ موجودہ
حکومت نے اقتدار میں آتے ہی جن مقاصد کو نصب العین کا درجہ دیا تھا، ان میں
دہشت گردی کو ختم کرنا اور امن وامان کی صورتحال کو سدھارنا سرفہرست تھا۔
اس ضمن میں بے شمار قربانیوں کے بعد قابل لحاظ کامیابی حاصل ہوئی، ضرورت اس
امر کی تھی کہ اس کامیابی کو مزید مستحکم کیا جاتا، لیکن یہاں دوسری طرح کے
سیاسی بحث مباحثے شروع ہوگئے۔ وہ سیاسی ہم آہنگی اور یک رائیگی جو آرمی
پبلک اسکول پشاور میں قتل عام کے تناظر میں پیدا ہوئی تھی، دہشتگردوں کے
خاتمے تک اسے برقرار رہنا چاہیے تھا۔ جس طرح قوم نے سانحہ پشاور کے بعد
دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف متحد ہوئی تھی، آج بھی ایک بار
پھر ضروری ہے کہ پوری قوم، قومی قیادت اور سلامتی کے ادارے ایک لحظے کی
تاخیر کے بغیر ایک مرتبہ پھر سرجوڑ کر بیٹھا جائیں اور پہلے سے زیادہ کارگر
اور موثر لائحہ عمل مرتب کرکے پاکستان دشمنوں کو نیست و نابود کردیا جائے۔ |
|