سات دہائیاں ہونے کو ہیں کہ ہم لاشیں اٹھا
رہے ہیں گزشتہ 15برسوں میں 70ہزار کے قریب ہم وطنوں کو ہم نے کھو دیا
‘ہمارے معاشی حب کو ہماری آنکھوں کے سامنے جلا دیا گیا مگر ہم خاموش
تماشائی بنے رہے‘بلو چستان اور خیبر میں جو لہو بہایا گیا وہ بھی ہمارے
دلوں پر کچھ اثر نہ کر سکا‘ ایک طویل جنگ ہم نے لڑی اس کے باوجود ہم وہاں
ہی ہیں جہاں پندرہ برس قبل تھے ۔مجھے یاد ہے آج سے دس بارہ برس قبل اگر بیس
پچیس دن کوئی دھماکہ نہیں ہوتا تھا تو مشرف کا بینہ داد وصول کرنے کی خاطر
کیمروں کے سامنے پہنچ جاتی تھی اور فوراََیہ اعلان بھی کر دیا جاتا تھا کہ
دہشتگردی کا قلع قمعہ کر دیا گیا اور آج بھی یہی سب کیا جا رہا ہے 15دن
پہلے تک جس دہشتگردی کے خاتمے کی آوازیں بلند ہو رہیں تھی آج وہی دہشتگردی
ہمارے مزید 200لوگوں کی نگل گئی‘ سوال یہ ہے امن دشمن کب تک ریاست کیساتھ
آنکھ مچولی کھیلتے رہیں گے اور ریاست کب تک عوام کی آنکھوں میں دھول
جھونکتی رہے گی․․․؟
ایک حقیقت جو سب سے زیادہ افسوس ناک ہے کہ ہم آج تک دہشتگردی کی
وجوہات‘محرکات اور سدباب سے متعلق کوئی ایسی پیش رفت کر ہی نہیں پائے جس کی
بدولت ہم اس لعنت سے نجات حاصل کر سکیں ‘دہشتگرد تنظیموں(طالبان سمیت وہ
تمام جماعتیں جو بد امنی میں حصہ ڈالتی رہیں ) کیخلاف بنائی جانے والی
پالیسیوں کو کبھی قومی پالیسی جیسی اہمیت حاصل نہ ہو سکی یہ پالیساں ہمیشہ
سے حکومتی پالیساں رہی جو بدلتی حکومتوں کیساتھ بدلتی رہیں‘ مشرف نے پہلے
زورِبازو سے دہشتگردی کے خاتمہ کی کوشش کی ناکامی پر مذاکرات کئے گئے لیکن
کوئی حکمت عملی نہ ہونے اور کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر دونوں اطراف سے
معاہدے توڑ دیئے گئے‘ امریکی ڈرون حملوں نے بھی میرے ملک کا امن تباہ کرنے
اور طالبان کو ریاست پاکستان سے متنفر کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ زرداری
دور میں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کوئی خاص کوشش ہی نہیں کی گئی فوج نے زور
بازو سے سوات کو کلیئر تو کرا لیا لیکن ضرب عضب کے شروع تک فوج کو وہاں
بیٹھنا پڑا‘نواز شریف دور میں بظاہر مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی سنجیدہ
کوشش کی گئی لیکن ڈرون حملے کے ذریعے حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت نے کیے کرائے
پر پانی پھیر دیاگزشتہ 15برسوں میں اگر دیر پا امن قائم ہوا تو وہ ضرب عضب
کے نتیجے میں قائم ہوا لیکن حالیہ واقعات نے ہر دل کو دکھی کر دیا ان
واقعات سے ثابت ہو گیا کہ ہماری حکمت عملی اب بھی ادھوری ہے اور کچھ اہم
پہلوؤں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جن میں سب سے اہم افغان پالیسی ہے ۔
اس حقیقت سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ پر امن افغانستان ہی پر امن پاکستان کی
ضمانت ہے افغانستان کے متعلق بھی ہماری پالیسی بدلتی رہی ‘ گزشتہ کچھ عرصے
میں بھارت کی افغانستان سے قربت بھی ہمارے لئے نقصان کا سبب بنی اس قربت کے
نتائج یہ ہیں کہ آج پاکستان مخالف سوچ افغانستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے‘
عسکری قیادت کی جانب سے بارہا افغان حکومت کو اعتبار میں لینے کی کوششیں کی
گئی لیکن سول قیادت اس معاملے میں وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہی جس کی
توقع سیاسی حکومتوں سے کی جاتی ہے ۔
افغان پالیسی کے بعد جو چیز اس آپریشن کی ناکامی کا سبب بنی وہ ہمارا
معاشرتی بگاڑہے نا انصافی ‘بے روزگاری‘ اداروں کی مجرمانہ غفلت اور بڑھتی
غربت ایک ایسا ایلیمنٹ ہے جس نے دہشتگردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا‘یہ
وہ مسائل ہیں جنہوں نے ہمارے نوجوانوں انتہاء پسندوں کا آلہ کار بننے پر
مجبور کیا لیکن ہمارے پالیسی ساز نہ تو اس حقیقت کو ماننے کیلئے تیار ہیں
اور نہ ہی ان مسائل کے سدباب کی کوشش کرتے ہیں ‘آج تک ملک میں جتنے بھی
دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ان ماسوائے چند کے سب میں پاکستانی ہی ملوث
رہے‘ برین واشنگ کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمارے معاشرے کا
المیہ یہی ہے کہ جب کوئی بچہ سکول جانے سے قاصر ہوتا ہے تو اسے قرآن حفظ کر
نے پر لگا دیا جاتا ہے ‘میٹرک کے بعد اگر کوئی اعلیٰ تعلیم افورڈ نہیں کر
سکتا تو اسے دینی تعلیم پر لگا دیا جاتا ہے ( میں اکثریت کی بات کر رہا
ہوں)کہنا میں یہ چاہ رہا ہوں کی برین واشنگ بھی اسی کی جا سکتی ہے جو ریاست
سے ناراض ‘جس کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہواگر اسے جنت کی بشارت سنادی جائے
تو وہ کیوں انکار کرے گا‘جس کے بھائی کا قاتل اس کے سامنے گھومتا ہوں اسے
دس لوگوں کے قتل کا موقع فراہم کیا جائے تو وہ کیسے انکار کر سکتا ہے․․․!
ایسے بہت سے پہلوں ہیں جو دہشتگردی کا سبب بنا رہے ہیں اگر تو ہمارے بڑوں
کو اگلے الیکشن تک امن چاہیے تو بندوق اٹھائیں اور اگر حقیقی امن چاہتے ہیں
تو معاشرتی مسائل خاتمے کا آغاز کریں ناراض شہریوں کو چاہے ان کے ہاتھ میں
بندوق ہی کیو ں نہ ہو ایک موقع دیا جائے کیونکہ یہ سب پر امن لوگ تھے جنھیں
بندوق اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا ان تمام شہریوں کو انصاف دیا جائے جن کی
مجرم ریاست ہے ‘ہمارے پاس دیر پا امن کیلئے اس کے سوا کوئی حل نہیں ۔ |