آج اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

کل کسی کام کیلئے اردو یونیورسٹی گیا تو وہاں بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اس یونیورسٹی میں گزارے اپنے دو سالوں کے احوال پر کچھ لکھوں، پھر خیال آیا کہ کیا لکھوں۔ طلبہ تنظیموں کے آئے دن کی مار دھاڑ اور نعرے بازیوں پر، کسی پولنگ اسٹیشن کا منظر دیتی مرکزی راہ داری پر، طلبہ تنظیموں کے کارکنوں پر، اوپن بک امتحانات پر، خراماں خراماں اساتذہ پر، کالج کو کولج بولنے والے کچھ ساتھیوں پر، اپنے چھ رکنی دل جلے گروپ پر، شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈمنسٹریشن پر، بی ایس ای بلاک کی خستہ حال اور مخدوش عمارت پر، جنات اور بھتوں کے قصوں پر، سینٹر لائبریری اور اسکے خوش اخلاق نگہبان پر، کینٹین کے سموسوں پر، اپنے کلاس کی آنٹیوں پر، دوسری کلاسوں اور شعبوں کی طالبات پر، رجسٹرار صاحب کی شفقت پر، وائس چانسلر صاحب کی مصروفیات پر، صدر شعبے پر، ضمنی امتحانات پر، بیس بیس روپے میں کام کرنے والے چپراسیوں پر، دروازے پر کھڑے چوکیداروں پر یا جرنیٹر پر۔ اسی شش و پنج میں میری نظر ایک مدت سے بند شعبہ ترجمعہ و تالیف کے بورڈ کے نیچے جلی حروف میں لکھے ایک فقرے پر پڑی، میں نے اسے پڑھا، پھر پڑھا اور پھر پڑھتا رہا۔ لکھا تھا آج اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔

واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں نے 2007 میں جامعہ کراچی سے ملحق پاکستان شپ اونرز کالج سے بی کام کیا اور اسکے بعد والد گرامی کے مشورے پر ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایم بی اے کرنے کے لئے کراچی میں دو درجن سے زائد نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن سرکاری شعبے میں صرف دو ادارے ہیں ایک جامعہ کراچی اور دوسری وفاقی اردو یونیورسٹی۔ ان دنوں والد گرامی کی شدید علالت کی وجہ سے ہمارے معاشی حالات کافی تنگ تھے اس لئے کسی نجی تعلیمی ادارے میں داخلہ لیکر ستر اسی ہزار سمیسٹر فیس ادا کرنا میری دسترس سے باہر تھا۔ چنانچہ میں نے سرکاری جامعات کے بارے میں معلومات اکھٹی کیں۔ جامعہ کراچی میں ایم بی اے کے ایک سمیسٹر کی فیس چوبیس ہزار اور اردو یونیورسٹی میں ساڑھے سولہ ہزار تھی۔ والد گرامی، ہمشیرہ، اساتذہ اور دوستوں کے مشورے پر میں نے اردو یونیورسٹی کا ہی انتخاب کیا۔

دراصل وفاقی یونیورسٹی یا اردو یونیورسٹی یا وفاقی اردو یونیورسٹی انجمن ترقی اردو کی قائم کردہ اردو کالج کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اس ادارے کی بنیاد 1962 میں رکھی تھی اور اسکا مقصد اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا اور سائنس، متنظمیات اور تجارت کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے لئے اردو زبان کو قابل استعمال بنانا تھا۔ سال 2002 میں ڈاکٹر عطاء الرحمن اور جمیل الدین عالی کی گراں قدر کوششوں سے اس کالج کو جامعہ کا درجہ مل گیا، اگلے برس ایم ایس سی اور 2005 میں ایم بی اے اور ایم کام کے پروگرامز کا بھی آغاز کردیا گیا جبکہ اسلام آباد میں اسکا ایک اور کیمپس بھی قائم کیا گیا۔ اسوقت منصوبہ یہ تھا کہ چاروں صوبوں میں اس یونیورسٹی کے ایک ایک کیمپس قائم کئے جائیں گے۔ لیکن باتیں اور اعلانات کے برخلاف ہوا کیا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی اردو کالج کی نیک نامی کو بھی کھا گئی۔ اردو کی ترویج و اشاعت تو درکنار حال یہ رہا کہ اسکا اپنا برانڈ نام ہی مکمل طور پر اردو میں نہیں ہے اور یہ اپنے تمام تر فائلوں، ریکارڈ اور اشتہارات میں جامعہ کی جگہ یونیورسٹی کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ میں نے جب اردو ویکیپڈیا پر جب جامعہ اردو کے بجائے اردو یونیورسٹی کا عنوان باندھا تو وہاں کے منتظمین اتنے آگ بگولہ ہوئے کہ اس صفحے کو ہی مٹانے پر تل گئے لیکن کمال کی بات ہے جمیل الدین عالی ایسے بزرگوں کو یہ بات اب تک سمجھ نہیں آئی۔

یونیورسٹی کے انتظامی معاملات الگ قابل بحث ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں جامعہ کو اب تک کوئی ایک بھی مستقل وائس چانسلر نہیں مل سکا۔ ڈاکٹر قیصر جنہوں نے ساری زندگی شعبہ نباتیات جامعہ کراچی میں گزار دی اب بڑھاپے میں یہاں لاکر وائس چانسلر بنا دئے گئے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آخر کس بنیاد پر انہیں وائس چانسلر بنایا گیا ہے، اردو کے لئے انکی کیا خدمات تھیں؟ تدریس کے شعبے میں انکا کیا مقام ہے؟ اور انتظامی معاملات میں انکی کیا پہچان ہے؟ آئے دن کے تنظیمی جھگڑوں نے بھی اس یونیورسٹی کو مادر علمی کے بجائے سیاسی و لسانی اکھاڑے میں تبدیل کردیا ہے۔ اوپن میریٹ سسٹم کی وجہ سے آپکو یہاں پاکستان کے ہر حصہ کے لوگ وافر مقدار میں نظر آئیں گے۔ اس ماحول میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تمام زبان بولنے والے طالبانِ علوم مل کر باہمی اخوت کا عملی مظاہرہ کرتے نظر آتے لیکن اسکے برخلاف یہاں تعصب، عصبیت اور لسانی منافرت اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے۔

انجمن ترقی اردو کا خواب یہ تھا کہ اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے یہ ادارہ ایک کامیاب مثال ہوگا، لیکن موجودہ حال کیا ہے۔ ماسٹرس کی سطح پر تمام مضامین انگریزی میں پڑھائے جارہے ہیں۔ شعبہ ترجمہ و تالیف اور شعبہ نشر و اشاعت کے نام سے شعبہ اور دفاتر موجود ہیں لیکن کام اب تک رتی برابر بھی نہیں ہوا۔ میں دو سال تک پوری بے ادبی سے کوئی بزم ادب ہی دھونڈتا رہا، کسی ترجمان مجلے کا انتظار ہی کرتا رہا اور کسی تحقیقی کام کو دیکھنے کے لئے متجسس ہی رہا۔

چونکہ گریجویشن کے بعد مجھے بھی اکیڈمک ماحول میں پڑھنے کا کچھ شوق یا یہ کہیں کہ بخار چڑھ گیا تھا اس لئے میں اپنی آنکھوں میں کئی خواب اور آرزو سجا کر اس یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا۔ میں میرٹ لسٹ دیکھ کر مطمئین ہوگیا تھا کہ تمام داخلے ساٹھ فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے امیدواروں کو دئے گئے ہیں۔ لیکن جلد ہی میری یہ خوش فہمی ختم ہوگئی کیونکہ جس انوکھے اصول کے مطابق داخلہ کمیٹی والوں نے اوسط نمبر لگائے تھے وہ ایک پوری مزاحیہ کہانی ہے۔ دوسری بار میرے تمام ارمان پر اس وقت پانی پھرا جب پوری داخلہ لسٹ میں زنانہ ناموں کی سخت خشک سالی پائی گئی، اس وقت تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے جب میں نے اپنے کئی ہم جماعتوں سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اساتذہ سے ملاقات کر کے تو بس مت پوچھیں۔ چار ابتدائی دن کے بعد پہلی دفعہ کلاس میں کوئی زنانہ آواز گونجی۔ اوف، یہ ایک ڈینٹسٹ آنٹی تھیں۔ اسکے بعد ایک انجینئر نانی اور ایک سندھی میں انگریزی بولنے کی شوقین استانی ہمارے سر کا درد بنیں۔ اچھی بات یہ تھی ہم احساس کمتری اور بدنصیبی کے مارے چھ لڑکوں کا ایک گروپ بن گیا تھا جو کافی حد تک ہم عمر، ہم زبان اور ہم آہنگ تھے اسلئے میں اس گروپ میں کافی فٹ ہوگیا تھا اور شاید انہی دوستوں کی مہربانی سے نہ نہ کرتے دو برس گزر گئے۔ میں ان دیگر دوستوں کے مقابلے میں پہلے سمسٹر میں سب سے زیادہ حاضر اور آخری تین سمسٹر میں سب سے زیادہ غیر حاضر رہا۔ کلاس ختم ہونے کے بعد ہمارے گروپ کا صرف ایک ہی کام ہوتا تھا بی بی اے اور دوسرے شعبوں کی طالبات پر اپنے اپنے گر آزماتے اور اس میدان میں ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش کرتے۔ یونیورسٹی میں پی ایس ایف سب سے مضبوط تنظیم تھی جس کا ایک ہی نعرا تھا "نہ پڑھو نہ پڑھنے دو"، دوسرے نمبر پر آئی ایس او تھی جن کا پیغام تھا "اردو یونیورسٹی کا مطلب کیا، حسن نصراللہ حسن نصراللہ"، تیسرے نمبر پر تھی جمیعت جن کا کہنا تھا "جامعہ اردو کے خلاف سازش بند کرو، امریکہ چلو امریکہ چلو" اور سب سے پیچھے تھی اے پی ایم ایس او جن کا فرمانا تھا "علم سب کیلئے اور کلاشنکوف صرف ہمارے لئے"۔ بہرحال اصل داداگیری پی ایس ایف کی تھی اور اس لئے ان ساتھیوں نے یونیورسٹی کا نام بدل کر باچا خان یونیورسٹی رکھا ہوا تھا۔

اردو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبہ بہت اچھی جگہوں پر بھی ہیں، کچھ لوگ آئی بی اے اور لمس کے پروفیشنلز سے زیادہ کامیاب ہیں لیکن مجموعی صورت حال کیا ہے، صاحب انتہائی غیر تسلی بخش۔ اردو کی ترویج و اشاعت کی بات تو ایک طرف کریں شہر کی اس دوسری سب سے بڑی یونیورسٹی نے باقی معاملات میں بھی کیا تیر مار لیا۔ کوئی ڈاکٹر قیصر سے جا کر پوچھے کہ انکی پراڈیکٹ کی مارکیٹ پوزیشن کیا ہے۔آہ! مولوی عبدالحق کی روح کتنی تڑپتی ہوگی۔
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 15684 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.