پانامہ کیس کی سماعت اور ھماری اخلاقیات

جوں جوں پانامہ کیس کی سماعت آگے بڑھ رہی ھے، اسی طرح اس کے فیصلے کا وقت قریب آ رہا ھے۔ اسی طرح حکمران جماعت کی مشکلات بڑھ رہی ھے۔ کسی بھی لیڈر یا سیاستدان کے لئے بنیادی چیز یہ ھوتی ھے، کہ اس کی اخلاقی طور پر کیا قوت ھے۔ اور پانامہ لیکس معاملے میں نواز شریف صاحب کی اخلاقی قوت ختم ھو چکی ھے۔ انھوں نے تیس سال تک دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھائیں، پہلی دفعہ کسی مناسب فورم پر ان کے خلاف انگلی اٹھی ھے ۔ جمہوری حکمران اخلاقی طور پر حکمرانی کرتا ھے، صرف ڈکٹیٹر طاقت کے زور پر حکومت کرتا ھے۔

ویسے اخلاقی طور پر ھم عوام بھی اپنے حکمرانوں سے کم نہیں ۔ پانامہ کیس کی سماعت نے انفرادی طور پر وزیر اعظم کے لئے اور اجتماعی طور پر ھماری قوم کے اخلاقیات پر سوالیہ نشان لگا دیا ھے ۔ حکمرانوں کے اوپر سب سے زیادہ پریشر عوام رکھتی ھے، جب ایک حکمران لوگوں کے ٹیکس کے پیسے کو غلط استعمال کرتا ھے، تو کس نے اس کے خلاف آواز بلند کرنی ھے، لوگوں نے کرنی ھے۔ جن کا پیسہ چوری ھو رہا ھے۔ ھمارے یہاں اربوں روپے کی کرپشن ھو رہی ھے، اور قوم سو رہی ھے۔ اس کی ساری ذمہ داری ھماری پروفیشنل کلاس ھے۔ پڑھے لکھے لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اور جب پڑھے لکھے لوگ ظلم اور نا انصافی کو مان لیتے ہیں اس معاشرے کا کؤئی مستقبل نہیں ھے۔ جو چیز ھمیں ایک قوم کے طور پر اٹھائے گی، وہ ھماری اخلاقیات ہیں۔ غریب لوگوں نے نہیں اٹھنا کرپشن کے خلاف، ایک بیچارہ مزدورصبح سے شام تک اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئےمحنت کرتا ھے، وہ کیا کرپشن کے خلاف سڑکوں پر نکلے گا۔؟

دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کا حال دیکھ لیں، برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون صرف اس بات پر اپنے عہدے سے مستعفی ھو گئے، کہ ایک عوامی ریفیرنڈم میں عوام کی رائے ان کے خلاف آئی تھی۔ 48٪ عوام کی رائے ان کے ساتھ تھی، اور 52٪ کی رائے ان کے خلاف۔

جنوبی کوریا کی صدر پر اپنی ایک دوست کو حکومتی معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار دینے کا الزام لگا، تو وہاں کی عوام صدر کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی۔ وہاں کسی پولیٹیکل پارٹی نے لوگوں کو سڑکوں پر نہیں نکالا۔ مسلسل ایک مہینے تک لاکھوں کی تعداد میں وہاں کی عوام سڑکوں پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی رہی، ہر دفعہ عوام کی تعداد پہلے سے زیادہ ھوتی، آخر کار صدر کو اپنے عھدے سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہی پانامہ لیکس کو ہی دیکھ لیجئے، جب آئس لینڈ کے وزیر اعظم کا نام اس میں آیا، تو وہاں کی عوام باہر نکل آئی، اور وزیر اعظم کو اپنے عہدے سے مستعفی ھونا پڑا۔

۔پانامہ کا یہ مقدمہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور فرد کی حکمرانی کے درمیان ھے۔ اب سپریم کورٹ کو چاہئے، کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے، تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ھو جائے۔
ABDUL REHMAN
About the Author: ABDUL REHMAN Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.