ڈی ایس پی طغرل ضمیر نے اپنے ضمیر کی آواز
پر لبیک کہتے ہوئے ہمیں بتایا ہے کہ کانسٹیبل دین محمد پاگل شخص تھا اس کا
ذہنی توازن درست نہیں تھا اور اس کا کئی بار معائینہ بھی کروایا جا چکا
ہے۔یہ سارے الزامات انہوں نے جناب دین محمد کانسٹیبل کو پھینٹی لگوانے کے
بعد لگائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دین محمد ایک ذہنی مریض ہے۔
جناب کی ساری باتیں درست معلوم ہوتی ہیں قوم ایسے ہی نہیں پنجاب پولیس کو
پاگل اور جنونی پولیس کہتی ہے جس کا جی چاہے ترقیوں کی خاطر چودہ چودہ بندے
پھڑکا دیتی ہے جناب طغرل صاحب! ماڈل ٹاؤن سانحے میں شہید ہونے والے انہی
دین محمدوں نے پھڑکائے تھے۔ حضور کیایہ اس قسم کے پاگل ہیں کہ ضرورت پڑنے
پر اپنے ہی وردی پوش کی وردی تارتار کر دیتے ہیں۔
ویسے مجھے جناب ضمیر سے یہ پوچھنا ہے کہ خدا را ہمیں یہ بھی بتا دیں کہ کون
کون سے دین محمد اآپ نے ہاتھوں میں بندوقیں دے کر سڑکوں گلیوں قومی ادروں
میں میں تعنیات کر رکھے ہیں تا کہ ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آئت الکرسی پڑھ
لیا کریں۔ہم تو شروع ہی سے کہتے ہیں کہ عزت مآب وزیر اعلی انہی دین محمدوں
کے بل بوتے پر اپنے سنہری دور میں سال ہا سال کا اضافہ کر رہے ہیں۔دہائی
خدا دی بندہ پاگل ہی تو تھا جو سات ماہ کی تنخوا ہ نہ ملنے کا شکوہ کر رہا
تھا کوئی اس سے پوچھے سات ماہ تک اوپر کی کمائی سے گزارہ ہو رہا تھا؟ویسے
اس کو تسلی دینی چاہئے تھی کہ یہاں کئی ٹی وی چینیلز اور اخبارات کئی کئی
مہینوں کی تنخواہ نہیں دیتے اکثر تو یہ کہتے ہیں یہ ہے تقرر نامہ اور یہ ہے
کارڈ پریس لکھا ہوا ہے اس پر آپ وی کھاؤ تے سانوں وی کھواؤ۔لہذہ گزارہ کر
لینا تھا۔
یہ محمد دین ہیں جن پر پولیس گردی کی گئی ہے ایک لحاظ سے مجھے خوشی ہوئی کہ
ان دین محمدوں کو بھی پتہ چلا کہ کھل چاڑھنی تو آسان ہے برداشت کرنی مشکل
ہے اس لئے کے ہمیں ہاتھ لگ چکے ہیں ایک بار ۱۹۷۴ میں تحریک ختم نبوت میں
گرفتار کر کے چوکی گھنٹہ گھر گجرانوالہ لے گئے جاتے ہی دھنائی شروع کر
دی۔ساتھ ہی جیب میں ہاتھ ڈالا کوئی دو روپے ملے میں نے بتایا کہ با با نہ
مارو عاشق رسولﷺ ہوں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں تقریر کی ہے کوئی ڈاکہ تو
نہیں مارا۔موصوف نے دوبارہ پٹائی شروع کی اور کہا کہ ہو عاشق رسولﷺ اور جیب
خالی کم از کم دس بیس روپے تو رکھنے تھے کہیں میلاد ہی کرانی پڑ جاتی
ہے۔صدقے جاؤں اس پنجاب پولیس پے یہ اپنے لوگوں کا بھی لحاظ نہیں کرتی کہتے
ہیں پولیس پیٹی بند بھائیوں کا خیال رکھتی ہے مجھے پورا یقین ہے کہ محمد
دین کو سات ماہ کی تنخواہ مانگنے کے جرم میں انہوں نے بھائی صاحب پر ہاتھ
ہولا رکھا ہو گا۔ورنہ اس میں اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ پرچے درج کرائے
پھرتا۔پنجاب پولیس کی دہشت گردی کی داستانیں تو شورش کاشمیری نے اپنی کتاب
پس دیوار زنداں میں بھرپور کی ہے۔ہمیں اس کے اوصاف حمیدہ سے آگہی تو اپنے
زمانہ ء طالب علمی میں ہو گئی تھی لاہور پولی ٹیکنیک میں پنجاب پولیس ے
ہاتھا پائی تو ہوتی رہی لیکن اﷲ کا کرم ہوا بچت ہی ہوتی رہی کہ میرا ایک
دوست باقاعدہ چائے بسکٹ تھانے بھیجتا رہتا تھا جس کی معلومات کا فائدہ ہو
جاتا تھا ایک بار طلباء نے بس کو آگ لگا دی تو دہشت گردی کا پرچہ درج ہوا
جس میں بسکٹ اور چائے کی وجہ سے جان بچی۔کوٹ لکھپت میں دیگر دوستوں کی
لترول کی کہانیاں سن کر کلیجہ جی کو آگیا۔
محمد دین کا یہ جرم تھا کہ اس نے ہندوستانی سپاہی جس نے دال اور روٹی کی
تصویر میڈیا پر جاری کر کے فوج کی حالت زار سے پردہ اٹھا دیا تھا کی نقل کی
اس کی دھلائی کی خبر محمد دین کو نہ ہوئی ورنہ وہ کبھی ایسا نہ کرتا
کانسٹیبل کو یہ علم ہی نہ تھا کہ سامراج کی تربیت یافتہ پولیس چاہے اس پار
ہو یا اس پار سامراجی روئیے رکھتی ہے۔ویسے اس کے خلاف تو ڈیفینس آف پاکستان
رولز کے تحت پرچہ درج ہونا چاہئے تھا کہ اس نے پاکستان کی عزت تار تار کر
دی۔محمد دین قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں یقینا یہ شہرہ ء آفاق نوازی نعرہ
اس نے لگایا ہو گا جس کے نتائج میاں صاحب نے بھی بھگتے اور اب محمد دین کو
بھی بھگتنے پڑ رہے ہیں۔آج میں پرویز خٹک صاحب کا انٹرویو دیکھ رہا تھا جس
میں انہوں نے کہا میں شہباز شریف کو چیلینج کرتا ہوں میں نے پولیس کو آزاد
کیا ہے تم اس میدان میں میرے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتے تم آزاد کرا کے
دکھاؤ۔پنجاب کے محمد دینو!کبھی تنخوا نہ مانگنا۔ میں چیلینج کرتا ہوں کہ
کوئی ایک محمد دین مجھے کے پی کے پولیس میں بتا دیجئے جس کی تنخواہ سات ماہ
تک ادا نہ کی گئی ہو۔شرم آنی چاہئے پنجاب کے اکاؤنٹس ڈیپارٹمینٹ میں بیٹھی
کالی بھیڑوں کو۔جو چھوٹے چھوٹے بہانوں سے ملازمین کی تنخواہیں دبا کے بیٹھے
ہوئے ہیں۔محمد دین میرے نزدیک ایک مجاہد ہے جس نے ان حرام خوروں کے چہرے سے
نقاب الٹا ہے۔یقین کیجئے سرکاری ملازمین کی زندگیا اجیرن بنا دی ہیں۔یہ لوگ
بے رحمانہ ماحول میں رہ کر خود بھی بے رحم ہو چکے ہیں ہر ناکے پر نوٹ بناتے
یہ پولسئیے آپ اور مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اگر ہم سے ایسا وحشیانہ سلوک ہو
گا تو ہم اسے عوام تک کیوں نہیں منتقل کریں گے۔کیا وجہ ہے کہ جب ہم کے پی
کے میں داخل ہوتے ہیں تو ہمیں وحشی پولیس کی بجائے انسان دوست پولیس ملتی
ہے۔یہ تبدیلی سختی سے نہیں تربیت سے آتی ہے۔جو شہباز شریف کی سمجھ سے بالا
تر ہے۔ڈرا سہما ہوا پنجاب کا ادارتی منظر نامہ محمد دین ہی پید اکرے گا۔
سچا ہے تو پرویز خٹک |