اسپین میں مہاجرین کے حق میں مظاہرے
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
یورپی حکومتیں اور عوام آمنے سانے |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
قرآن مجید نے گمراہ لوگوں کے لیے ایک بڑا چھبتاہواتبصرہ کیاہے کہ ’’علیھم
دآ ئرۃ السوء و غضب اﷲ علیھم ولعنھم(سورۃ فتح48،آیت6)‘‘ترجمہ:’’برائی کے
پھیرمیں وہ خود ہی آگئے ہیں،اﷲتعالی کاغضب ان پرہوااوراس نے ان پر لعنت
کی‘‘۔سیکولرازم اور اس کے ماننے والوں پر یہ تبصرہ بالکل ثابت آتاہے۔مخلوق
کے معاملات جب خالق کی مرضی کے برخلاف گمراہ عقل کی روشنی میں چلانے کی
کوشش کی جائے تو مسائل حل ہونے کی بجائے مزیدگھمبیرہوتے چلے جاتے ہیں اور
بقول قرآن مجید کے گویا وہ برائی کے ایسے گھیرے میں پھنس جاتے ہیں کہ ایک
مسئلہ کو حل کرنے لگتے ہیں تووہ مسئلہ حل ہونے کونہیں دیتااور کئی مزید
مسائل جنم لے لیتے ہیں،اور اس طرح مسائل کی دلدل میں مزید نیچے سے نیچے
تراترتے چلے جاتے ہیں اور نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔جب سے اقوام
متحدہ بنی ہے مہاجرین کا مسئلہ مشرق سے مغرب تک پوری دنیامیں ایک نہ ختم
ہونے والا مسئلہ بن گیاہے۔اقوام متحدہ کی تاسیس سے ہی،دوسری جنگ عظیم کے
مہاجرین، تقسیم ہند کے مہاجرین،فلسطین کے مہاجرین،سقوط ڈھاکہ کے بعد کے
مہاجرین،افغان مہاجرین،یوگوسلاویہ کے مہاجرین اور اب شامی مہاجرین سمیت کرہ
ارض کے کم وبیش تمام کونوں کھدروں سے تھوڑی یازیادہ تعداد کے مہاجرین وقت
دنیابھر کے اخباروں کے صفحہ اول کی شہہ سرخیوں کے موضوعات ہیں۔مہاجرین کا
وجود پہلے دن سے اگرچہ انسانیت کے ساتھ ملحق رہاہے اور پہلے نبی ؑسے آخری
نبیﷺتک کل انبیاء علیھم السلام نے ہجرت کی اور اجتماعی ہجرت کی لیکن فرق یہ
ہے کہ انبیاء علیھم السلام نے مہاجرین کے مسائل کو وحی کی تعلیمات کے مطابق
حل کیااور مسئلہ اس خوبصورتی سے حل ہوا کہ پھر اس کی باقیات میں سے ایک ذرہ
بھی پیچیدگی کاشکارنہ ہوسکا۔اس کے مقابلے میں سیکولرازم نے مہاجرین کے
مسائل کو عقل کی بالادستی کے فارمولے سے حل کرنے کی کوشش کی اور یہ مسئلہ
اب پوری دنیاکواپنی لپیٹ میں لے چکاہے اور انسانیت کی چینخیں نکل گئیں لیکن
مہاجرین کاکوئی ایک مسئلہ بھی حل ہونے کانام نہیں لے پارہا۔اب صورتحال یہاں
تک پہنچی ہے اقوام متحدہ کے مہاجرین کے اتنے بڑے ذیلی ادارے اوراس پر اٹھنے
والے بھاری بھرکم ترین اخراجات کے باوجودمہاجرین کا مسئلہ پوری عالمی قیادت
کے لیے دردسر بن چکاہے ،جس کاسراایک طرف سے پکڑنے کی کوشش میں دس اورجگہوں
پرالجھ جاتاہے۔
خبروں کے مطابق یورپ کے ملک اسپین(اندلس)کی ایک ریاست
’’کاتالونیا(ہسپانیہ)‘‘کے دارالحکومت ’’برشلونا(بارسیلونیہ)میں
ہفتہ18فروری2017کو ایک لاکھ ساٹھ ہزارسے تین لاکھ تک کی انسانی تعدادمیں
ایک بہت بڑامظاہرہ کیاگیا۔یہ مظاہرہ یورپ کی سرحدوں پر شدیدترین ٹھنڈاور یخ
بستہ ٹھٹھرتی برفانی ہواؤں میں رکے ہوئے مہاجرین کے حق میں اور مظاہرین
مطالبہ کررہے تھے کہ ان مظاہرین کوانسانی بنیادوں پر شہروں کے اندر آنے
دیادیاجائے اور انہیں باقائدہ سے انسانی تحفظ فراہم کیاجائے۔اس مظاہرے میں
شامل مرودوخواتین نے کتبے اٹھارکھے تھے جن پر اسپینی حکومت کی بے اعتنائی
کے شکوے درج تھے کہ اسپین کے ذمہ دار حکمران طبقے نے اس گھمبیرترین انسانی
المیے سے آنکھیں موند رکھی ہیں اور انتہائی غیرذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے
مجرمانہ غفلت کاشکارہے۔مظاہرین نے بڑے پرزورانداز سے مطالبے درج کیے رکھے
تھے کہ مہاجرین کے لیے ملک کے دروازے کھولے جائیں اور انہیں شہروں کے اندر
پناہ فراہم کی جائے۔مظاہرین نے حکومتی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ
2015میں حکومت نے طے کیاتھاکہ دوسالوں کے اندر سترہ ہزارسے زائد مہاجرین کو
پناہ دی جائے گی لیکن اس دورانیے میں محض گیارہ سو سے کچھ زائد تارکین وطن
کو ملک میں جگہ فراہم کی گئی ہے۔مقامی انتظامیہ کے مطابق وہاں کی ایک
تنظیم’’Our Home is Your Home‘‘(ہماراگھرتمہاراگھرہے)نے اس مظاہرے کااہتمام
کیاتھا۔یہ مظاہرہ بارسیلونیہ کے شہری مرکزسے ساحل سمندر تک کیاگیاتھا ،ساحل
سمندر کو مظاہرے میں شامل کرنے کامقصد ایک علامتی اظہارتھا کیونکہ 2015ء
میں انسانیت کش سیکولرازم کے ساحلوں پر پانچ ہزارسے زائد تارکین وطن
کوسمندر کی بے رحم موجوں نے نگل لیاتھااور انسانیت کے عالمی ٹھیکیدارانسانی
بستیوں پربمباری کے ذریعے دنیاکی بندربانٹ میں مشغول تھے۔مظاہرین پرعزم تھے
کہ وہ حکومت کواس کے وعدوں سے انحراف نہیں کرنے دیں گے۔مظاہرین کے مطابق
ملک کے اندر وعدہ کی گئی تعداد کی آمدکے انتظامات مکمل ہیں اور ہم انہیں
خوش آمدید کہنے کے لیے بھی تیارہیں۔مظاہرین نے اس طرح کے جذباتی نعرے بھی
لگائے کہ سمندرمیں ڈوبنے والے بچوں کی روحیں آج بھی اسپین میں پناہ تلاش
تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔باسلوانیہ کی رئیس بلدیہ ’’اداکالؤ(Ada
Colau)‘‘بھی اس مظاہرے میں شریک تھیں،وہ مقتدرطبقوں کی بالائی سطح پر بھی
اس تحریک کے ہراول دستے میں شامل رہی تھیں۔
بدقسمتی سے اسپین یورپی ملکوں میں سب سے کم ترین مہاجرین کوپناہ دینے والا
ملک ثابت ہواہے جس کے نتیجے میں یہ شدیدترین عوامی ردعمل سامنے آیاہے۔لیکن
یہ تصویرکاایک رخ ہے،دوسرے رخ کاتعلق اسپین کے شاندارماضی کی اس جہت سے ہے
جواسلام سے تعلق رکھتاہے۔اس وقت جن مہاجرین کے لیے مظاہرہ کیاگیاہے وہ
مسلمان تارکین وطن ہیں اوراسپین میں فرڈیننڈکے بعدسے آج تک اسلام اور
مسلمانوں پر بدترین پابندیاں عائد ہیں لیکن اب وہاں کے مسلمان یامسلمانوں
کی نسل نے گزشتہ صدی کے اواخرسے جمہوری آزادیوں کی آڑمیں اپنے ماضی کے ورثے
کے طورپرمسلمانوں کے سنہری دورکواپنانا شروع کیاہے ۔اسپین کے مقامی
نمائندوں میں کچھ مسلمان کامیاب ہوکربلدیاتی اداروں تک پہنچنے میں بھی
کامیاب ہوئے ہیں اور ماضی قریب میں ’’ابن رشدانٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی
قرطبہ‘‘کی بنیادبھی رکھی گئی ہے اور ڈاکٹرعلی کتانی اسکے پہلے صدرمدرس
تھے،جن سے راقم الحروف کاقلمی رابطہ بھی رہا۔اسپین کے باسیوں میں ماضی کی
اس روح نے بھی اس مذکورہ مظاہرے میں اپنا کردارضروراداکیاہوگا۔حیرانی کی
بات ہے کہ صدیوں قبل یورپ میں دیس نکالاکیے ہوئے اسلام کی کرنٹ ہنوزباقی ہے
لیکن آج کے مسلمان ممالک میں یہ حرارت کیوں ناپید ہے؟؟؟کیاملک شام سے نکلنے
والے مہاجرین کو پناہ دینایورپی ملکوں کی ذمہ داری ہے؟؟؟کیایورپ میں بسنے
والے والے شامی مسلمانوں کے ہم عقیدہ ہیں؟؟؟یا یورپیوں کے دل میں اسلام اور
مسلمانوں کی محبت بہت زیادہ موجزن ہے جس کے باعث مہاجرین وہاں
کوسدھارگئے؟؟؟ملک شام کے پڑوس میں بسنے والے ممالک شامی مسلمانوں پر بمباری
کرنے والی یہودی ونصرانی و الحادی(سیکولر)افواج کوتوپناہ دے سکتے ہیں اوران
پر اپنے خزانوں کے منہ توکھول سکتے ہیں لیکن کیاوجہ ہے کہ شامی مسلمانوں کے
لیے ان کی وسیع و عریض سرحدیں تنگ پڑ گئی ہیں؟؟؟آخرمشرق وسطی کے ان ممالک
میں کس چیزکی کمی ہے کہ ان کاظرف لٹے پٹے شامی مسلمانوں کے لیے تنگ پڑنے
لگاہے؟؟؟کیاان کے ریگستان کم پڑ گئے ہیں؟؟؟یاان کے تیل کے کنویں خشک ہوگئے
ہیں؟؟؟یاان کے سونے کے پہاڑ پیتل زدہ ہوگئے ہیں؟؟؟اور یاان میں دینی حمیت
وغیرت کی جگہ کفرونفاق در آیاہے؟؟؟خداکی اورخداکے فرشتوں کی اور مخلوق
خداکی لعنت ہوان حکمرانوں پر جو خود تو پیٹ بھرکے سوئیں اور ان کے پڑوس میں
لاکھوں کلمہ گومسلمان موت و حیات کی کشمکش میں اپنا وطن چھوڑنے پر
مجبورہوجائیں۔
دنیابھرمیں سیکولرازم کا یہ پھیلایاہواخون آشام کھیل اب اپنی انتہاؤں کو
پہنچ رہاہے،اور دنیابھرمیں لگائی گئی یہ آگ اب سیکولریورپی ممالک تک بھی جا
پہنچی ہے۔اب یورپی ممالک بھی دھماکوں کی زدمیں آنے لگے ہیں۔شامی مسلمانوں
کے بچے ماؤں سے بچھڑکربے رحم موجوں کے سپرد ہوئے اور ان موجوں نے ان بچوں
کی لاشوں کوانسانیت کے عالمی اٹھائی گیروں کے منہ پر طمانچوں کے طرح ساحلوں
پر دے مارااور دنیاان شیرخواربچوں کی معصوم لاشیں دیکھ کر تڑپ اٹھی لیکن
یورپ کے حکمران شدید ترین جان لیوااوریخ بستہ برفانی ہواؤں میں گھرے ہوئے
مسلمان شامی مہاجرین کی قسمت کے فیصلوں کے لیے کانفرنسیں،مزاکرات اور ’’بجٹ
ایلوکیشن‘‘میں ہی مصروف رہے اوردوسری طرف قیامت گزرگئی،’’ہائے اس زود
پریشاں کاپریشاں ہونا‘‘۔ظلم کی چکی سیکولرازم کی بالادستی سے جاری ہے اور
مہاجرین کے نام پربوریاں بھربھرکے دولت کی بارش کرنے والے عالمی ادارے بھی
اس مسئلہ کے طرف کسی بھی طرح کی پیش رفت سے عاری ہیں۔دنیامیں ظلم کی حکومت
رہے گی تو ظلم سے نالاں لوگ امن کی تلاش میں ملک ملک پھرتے رہیں گے۔انسان
کاخمیر امن و سلامتی سے مستعار ہے اور یہ امن و سلامتی صرف دین اسلام کی
تعلیمات سے ہی میسر ہے۔سیکولرازم،لبرل ازم،ہپی ازم،سوشل ازم،کیمونزم،فاش
ازم ،نیشل ازم اورسیکولرمغربی جمہوریت سمیت تمام کتنے ہی تجربات حضرت انسان
نے کر کے دیکھ لیے لیکن سوائے تباہی و بربادی کے کچھ بھی ہاتھ نہ آیااور ہر
تجربہ انسانیت کیے جان لیوا دکھ درد اور تکلیف کے سوا کچھ بھی نہ دے
سکا۔صرف محمدعربی ﷺکافراہم کردہ نسخہ کیمیا ہی اس انسانیت کے تمام مسائل
کاواحد حل ہے۔عالم انسانیت کوچاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بہرصورت اسی نظام
مصطفی کی طرف پلٹناہوگاتب ہی خیر کی کوئی صورت بن پائے گی،انشااﷲتعالی۔ |
|