بدعنوانی کا بھوت

توقیرسلہریا

جھوٹ کی یلغاراورالزامات کی بوچھاڑ کے بل پر سچائی کااٹھاہواسرکچلنا خارج ازامکان ہے۔طاقتوراشرافیہ کاجھوٹ کمزورمگرعام آدمی کی سچائی کومغلوب نہیں کرسکتا،پاناماپیپرز کی سچائی اورملزمان کی دہائی روزروشن کی طرح عیاں ہے۔ مقروض پاکستان کاپیسہ بیرون ملک منتقل کرنا بذات خود ایک سنگین جرم ہے۔اگرپاکستان کاحکمران خاندان اپنے وطن میں سرمایہ کاری نہیں کرے گاتوباہر سے سرمایہ کار ہمارے ملک میں انوسٹمنٹ کیوں کریں گے۔ میں نہ مانوں کی گردان سے لٹیروں کی گردن احتساب کے شکنجے سے نہیں بچے گی ۔کوئی ملزم کرپشن کے زورپر کرپشن نہیں چھپاسکتا،انصاف اوراحتساب کاکٹہراہرچورکامقدر ہے۔ حکومت کے حق میں حالیہ اشتہاری مہم کے نام پر سرکاری وسائل کا ضیاع بذات خود بدعنوانی اوربدانتظامی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگراس بار بدعنوانی کابھوت بھاگ گیا توپھردوبارہ کبھی قابو نہیں آئے گا،بدعنوانی کے بھوت کوبوتل میں بندکرنے کاوقت آگیاہے۔پاکستان کے محب وطن لوگ مایوس ،ناامیداورپریشان نہ ہوں کیونکہ آف شورکمپنیاں رکھنے وا لے مٹھی بھرپوش افراد کی ڈھٹائی پاناماپیپرز کوکھٹائی میں نہیں ڈال سکتی ۔چوروں کوملک سے فرار کیلئے چورراستہ نہیں ملے گا۔ معاشرے کی طبقاتی تقسیم طبقاتی قوانین کاشاخسانہ ہے۔پاکستان میں چھوٹاجرم کرنیوالے کوبڑی سزا ملتی ہے جبکہ بڑے مجرم سے کوئی باز پرس تک نہیں کرتا۔1947ء سے احتساب کامطالبہ حقیقت پسندانہ نہیں ،جودنیا سے چلے گئے ان کااحتساب قدرت پرچھوڑدیا جائے ۔ منتشر اپوزیشن حکومت سے کوئی بات نہیں منواسکتی ،اب بھی وقت ہے اپوزیشن قیادت اپنی توانائیاں سمیٹ جبکہ سمت درست کرلے۔

جھوٹ اورلوٹ کھسوٹ کی سیاست نے ریاست کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کوکمزورکردیا ،حکومت اوراپوزیشن کے کیمپ سے بلندہونیوالی جھوٹ کی صداؤں کے نتیجہ میں عام لوگ سیاست سے متنفر جبکہ حکمران سیاسی پارٹیوں سے بیزارہورہے ہیں۔پاکستان میں کرپشن کاسورج سوانیزے پرآگیا ہے،بیچارے عوام جھلس رہے ہیں جبکہ حکمران اشرافیہ اپنے ٹھنڈے محلات میں مزے سے ہے۔اشرافیہ کے حقوق بلکہ استحقاق پرآنچ نہیں آسکتی جبکہ کمزورکااس ملک کے وسائل پر کوئی حق نہیں ۔ چوروں نے جمہوریت کا ثمر بھی چوری کرلیا ،ووٹرزاقتدار کے ایوانوں سے ہزاروں میل دور ہیں۔ووٹرز کے پاس دوچاربرس بعد ووٹ کی پرچی پرمہرلگانے کے سواہمارے ریاستی نظام میں کوئی اختیار نہیں۔ اسمبلیاں حکمران اشرافیہ کیلئے کلب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں ۔قانون کاشکنجہ صرف کمزورعوام کاکچومر نکالتا ہے جبکہ طاقتورقانون کی ناک توڑنے میں آزاد ہیں ۔جس ملک میں ایک ایم این اے کے دباؤپرڈی پی اوتبدیل ہوجائے وہاں عوام کوانصا ف کون دے گا۔ پاناماپیپرز کے معاملے کوسلجھایاجاسکتا تھا مگردونوں طرف سے مسلسل بلیم گیم نے الٹا اس ایشوکو مزید الجھادیا ۔ نام نہادمنتخب نمائندوں سے اسمبلیوں کی کاروائی کے نام پر قوم کے قیمتی وقت اوروسائل کے ضیاع کاحساب تک نہیں لیا جاتا،معاشرے کاعام آدمی مہنگائی کے سیلاب میں ڈوب کر بے موت مارا جاتا ہے مگرارکان اسمبلی کی مراعات ہرچھ ماہ بعدبڑھ جاتی ہیں۔ منتخب نمائندوں کواسمبلیوں میں بیٹھ کربس ایک دوسرے پرکیچڑاچھالنا آتا ہے ۔مقروض اورمعاشی طورپرمفلوج ملک کوپارلیمانی جمہوری نظام بہت مہنگاپڑتا ہے ، ملک میں صدارتی نظام رائج کرنے کاوقت آگیا ۔ اس نام نہادجمہوریت کے جبر مسلسل نے ریاست کوعوام کیلئے قبرمیں تبدیل کردیا ہے ۔اس نظام میں عام لوگ اشرافیہ کے انتقام کانشانہ بن رہے ہیں ۔

یوں تو ہمارے ملک اورعوام کو بے شمار مسائل گمبھیر کاسامنا ہے لیکن اس وقت ایک مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے جس کو دنیا کے مختلف ملکوں میں گھوس ، کر پشن ، رشوت اور بد عنوانی کے نام سے پکاراجاتا ہے۔ رشوت مادروطن کے وجودمیں بہت گہرائی میں سرایت کر گئی ہے یہ ایسی بیماری ہے جو ختم ہونے کے بجائے پنپ رہی ہے۔ اس مہلک بیماری کی روک تھا م کیلئے کئی ادویات دریافت ہوئیں ،کئی قسم کی چارہ جوئی کی گئی لیکن یہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی کیونکہ ایک چوردوسرے چورکااحتساب نہیں کرسکتا ۔کسی بھی قوم کی تباہی وبربادی کی بڑی وجہ کر پشن ہے۔مفلسی ،ظلم ،ناانصافی ،کرپشن اور جہالت کا تعلق بھی کر پشن سے ہے۔ اگر آپ اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو وہاں سے کر پشن کی جڑوں کو سرے سے اکھا ڑنا ہو گا توغربت ختم ہوگی۔ اقرباء پروری نے ہمارے معاشرے میں بڑی ناہمواری پیدا کر رکھی ہے جیسے لوگ کسی اعلی عہدے پر پہنچتے ہیں وہ اپنے عزیز،رشتہ داروں کو ان کی اہلیت اورقابلیت کو نظر انداز کرتے ہوئے مختلف عہدوں پر فائز کر کے اہل افراد کو محرومی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ جس سے قومی ترقی رک جاتی ہے اور قومی ترقی کے رکنے سے ملک کو نقصان ہوتا ہے ملازم سے کام لیناہو یاملک کے کسی بڑے سے آپ رشوت کے بغیر اس تک نہیں پہنچ سکتے رشوت جیسے ناسور نے ملک کو برباد کردیاہے۔

حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو شخص عامل مقرر ہوتاتھا اس کو ایک فرمان عطا ہوتا تھا ،جس میں اس کی تقرری اور اختیارات اورفرائض کا ذکر ہوتا تھا اس کے ساتھ بہت سے مہاجرین اور انصار کی گواہی ثبت ہوتی تھی عامل جس مقام پر جاتا تھا ،تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا جس کی وجہ سے لوگ اس کے اختیا رات اور فرائض سے واقف ہو جا تے تھے جب وہ ان اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھتا تھا تو لوگوں کو اس پر گر فت کا موقع ملتا تھا ۔آپٍٍٍـؓنے ایک خطبہ میں عاملوں کو مخاطب کر کے یہ الفاظ ادا فر مائے'' یاد رکھو میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا ہے بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ ہماری تقلید کریں آپؓ جب کسی کو سرکاری عہدوں پر فائز کرتے تھے تو ان کے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور اگر سرکاری عہدے کے دوران ان میں سے کسی کے اثاثوں میں اضافہ ہو جاتا تو آپؓ اس کاسخت احتساب کرتے تھے۔ آپؓ جب کسی کو گورنر بناتے تو اسے نصیحت فرماتے تھے کبھی ترکی گھوڑے پر نہ سوار ہونا،چھنا ہوا آٹانہ کھانا۔ آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمرانوں ،سرکاری عہدیداروں اور والیوں کیلئے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ۔آپؓ نے نا انصافی کرنے والوں کو سزادینے کا سلسلہ بھی شروع کیا اور آپؓ نے دنیا میں پہلی بار حکمران کلاس کااحتساب شروع فرمایا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں ۔

آپ ؓ کا فرمان تھاـــــــقوم کا سردار قوم کاسچا خادم ہوتا ہے آپؓ کی مہر پر لکھا تھا عمر! نصیحت کیلئے تو موت ہی کافی ہے امیر سے امیر بننے کی خواہش رشوت ستانی کی اہم وجہ ہے جب تک یہ ختم نہیں ہوگی رشوت کا لین دین جاری و ساری رہے گا دولت ضرورت ہے مگر ایمان نہیں۔ کرپشن کی دیمک نے ملک اورمعاشرے کی بنیادوں کو کھو کھلا کر دیا ہے۔ہمارے ملک عزیز کی ترقی و استحکام میں کر پشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک چین میں رشوت کا نام و نشان نہیں ملتا اور یہی چین کی ترقی کا راز ہے۔ چین کر پشن کے معاملے میں بہت سخت ہے آج سے 20سال پہلے چین نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیااگر کوئی چین میں رشوت لیتا ثابت ہو جائے تو اسے سزائے موت دی جا تی ہے۔ ہمارے ملک میں رشوت ستانی کے عام ہونے کی وجہ آج کے دورکا مسلمان وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مذہب سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اﷲ اور اس کے محبوب پیغمبر محمد صلی اﷲ وعلیہ وسلم کا خوف اس کے دل سے نکلتاجا رہا ہے۔ اس میں اچھے اور برے ،حلال اور حرام کی تمیز مٹ چکی ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے معاشرے کو ان برائیوں سے پاک کرنا ہو گا ۔رشوت ستانی میں ملوث عناصر کی سرکوبی کیلئے سخت سزائیں مقررکرناہوں گی۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا ۔وطن عزیز میں حقیقی جمہوریت کیلئے لازم ہے کہ اعلیٰ سرکاری ونیم سرکاری عہدیداران کو کرپشن کی غلاظت سے دوراورپاک رکھنے کیلئے احتساب کا خودکار، غیرجانبدار، خودمختاراوربااختیار ادارہ بناناہوگا۔ اسلام کی روسے کوئی احتساب سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ ان دنوں رشوت خوروں اوربدعنوانوں کیخلاف جاری آپریشن خوش آئند ہے۔سیاستدان ایک دوسرے کااحتساب نہیں کرسکتے ،نیب کوطاقتوربنایاجائے جوکسی دباؤمیں آئے بغیر بدعنوانوں کامحاسبہ کرے ۔

Madiha Hassan
About the Author: Madiha Hassan Read More Articles by Madiha Hassan: 2 Articles with 1123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.