سمجھوتہ ایکسپریس

1979 میں دونوں ملکوں کے بیچ دو ستی اور امن کے فروغ دینے کے لیئے ہندوستان اور پاکستان نے امرتسر سے لاہور کے بیچ سمجھوتہ ایکسپریکس کے نام سے ٹرین چلانے کا فیصلہ کیا ۔ 2002 میں انڈین پارلمینٹ پر حملہ کے اس ٹرین کو روک دیا گیا مگر 2004 میں اس ٹرین کو دوبارہ سے چلایا گیا۔یہ 18-02-2007کو 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے میں ہونے والے بدقسمت مسافرتھے جو کو سرحد پار تقسیم پاکستان کے وقت اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم بھلا کر اپنے پیاروں سے ملنے ہندوستان آئے تھے ۔وہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا غم لیئے رات 18-02-2007کو رات 10:45 پر سمجھوتہ ایکسپریس میں بوگی نمبر GS03431, GS14857 میں پاکستان کے لئے سوار ہوئے تھے ابھی ان کے سفر کو ایک گھنٹہ ہی گزرا تھا ،جب ٹرین رات 11:56 منٹ پر دہلی سے 80 کلو میٹر دور پانی پت کے مقام پر دیونہ اسٹیشن سے گزری ہی تھی کہ دیونہ اسٹیشن کے ریلوے اہلکارپیون کمار نے بتایا کہ اس نے ٹرین کو 100 کلومیٹر فی گھنٹے کی رقتار سے آتے دیکھا اورجیسے ہی ٹرین سگنل کے قریب سے گزری ٹرین کی دو بوگیوں میں دھماکوں کی آوازیں گونجی جس کے فوراٍ بعد ٹرین کی بوگیوں میں شدید آگ بھڑک اٹھی ریلوے اہلکارپیون کمار نے فوراٍ اسٹیشن انچارج ونود کمار گپتا کو اطلاع دی جس کے بعد اسٹیشن انچارج ونود کمار گپتا نے ٹرین کے ڈراہیور کو ٹرین میں آگ لگنے کی اطلاع دی اور ٹرین کو روکنے کو کہا، ٹرین کو ایمیرجینسی بریک لگا کر روکا گیا آخر کار ٹرین سیوا دھر روڈ ریلوے کراسنگ کے قریب جا کر روگ گئی ٹرین کی دو بوگیون میں شدید آگ لگی ہوئی تھی اور مسافروں کے چیخنے کی آوازیں اتنی شدید تھی کہ آس پاس کے گاؤں کے لوگوں کو مدد کے لئے بلانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ عینی شاہدین کے مطابق ٹرین کی جن دو بوگیوں میں آگ لگی تھی ان کے دروازے بند تھے بوگیوں کے اندر آگ اتنی شدید تھی کے مسافروں جن میں بوڑھے ، بچے ، عورتیں ، جوانوں، کے زندہ جلنے کا منظر بیان سے باہر ہے۔ ٹرین کی بوگیوں میں آگ کی شدت سے بوگیاں کسی بھتے کی طرح سرخ ہو رہی تھی بوگیوں کے باہر ہوا نیلا رنگ پانی کی طرح پگھل کر نیچھے ٹپک رہا تھا۔

عینی شاہدین نے مزید بتایا کہ ٹرین کا صرف ایک دروازہ کھلا ہوا تھا جن سے کچھ بچ جانے والے لوگوں نے چھلانگ لگائی جو زخمی بھی ہوئے۔ ضلعی انتظامیہ کو کنٹرول روم سے اطلاع دی گئی ڈپٹی کمشنر ایس ۔ پی ایس ۔ ڈی ۔ایم اور دوسرا عملہ جائے وقوع پر 35سے 30 میں پہنچا ۔رات 12:40 منٹ پر فائیر برگیڈ کی پہلی گاڑی موقع پر پھنچی ۔ فائیر برگیڈ کی پہلی گاڑی آنے سے پہلے آس پاس کے دیہات لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پانی کی بالٹیاں بھر بھر کے ڈالتے رہے، مگر آگ کسی طرح بھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی آخر رات 2:40 منٹ پر آگ پر قابو پا لیا جاتا ہے۔ جس میں فائیر برگیڈ کے علاوہ انڈین آئل ریفانری کی فائیر برگیڈ اور تھرمل پاور پلانٹ، نیشنل فرٹیلائزر کی گاڑیوں نے بھی حصہ لیا۔ جن کو نزدیک کے علاقون گھروندا، کرنال، سملکا، سے طلب کیا گیا تھا۔ آگ پر قابو پانے کے بعد بیچ جانے والے کچھ مسافروں کو نزدیکی سول ہسپتال میں شفٹ کیا گیا جس ہسپتال میں زخمیوں کو شفٹ کیا گیا وہاں پر آگ سے لگے ہوئے مریضوں کے لئے کوئی بھی وارڑ موجود نہیں تھا جہاں پر آگ سے جلے ہوئے مریضوں کو طبی امداد ی دی جا سکتی۔سول ہسپتال انتظامیہ نے ڈاکٹروں کی کمی کے باعث جان سیوا دل نامی ایک پرائیوٹ این ۔جی۔ او سے ڈاکٹر اور دؤاو ں کی درخواست کی جس نے 40 سے 50 ڈاکٹروں کو فلیڈ سے بلا کر سول ہسپتال روانہ کیا گیا ۔

ضلعی انتظامیہ کے لیئے ٹھنڈی اندھیری رات میں ٹرین کے مسافروں کو ٹرین کی بوگیوں سے باہر نکالنا ایک بہت مشکل کام تھا اندھیرے کی وجہ مشکلات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ روشنی کا بندوبست کرنے کے لیئے نے SOMA نامی کمپنی جو پاس ہی ایک اورہیڈ بریج بنا رہی ہوتی ہے ان کے جنریٹرز کو روشنی کے لیئے استمعال کیا گیا ساتھ ہی دوسری مشنیری بھی استعمال کے لیئے مانگی گئی جس سے ٹرین کے دروازوں کو گیس کٹر سے کاٹاگیا اس کے ساتھ ہی گاؤں کے دیہاتیوں نے ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ملکر جل کر مر جانے والوں کو باہر نکالنے میں بہت مدد کی۔ جن میں کیلاش گرور ، کرن سنگھ سوا گاؤں کے سرپنچاتھ، شری پروین ممبر پنچاتھ اورسوریندھر سنگھ، جو ایک لیکچیر تھے کی خدمات قابل زکررہی ۔سخت محنت کے بعد50 زخمیوں اور 67 لاشوں کو باہر نکالا گیا ۔مرنے والوں میں ہندوستان ریلوئے کے 4پولیس اہلکار بھی شامل تھے ساتھ ہی 67 لاشوں میں سے 43 مرنے والے افراد پاکستانی تھے۔ جن میں 14 افراد ایسے تھے جن کی عمر 18 سے1 سال کے بیچ تھی۔ دھماکے اورآگ کی شدت اتنی زیادہ تھی کے بعد میں بیچ جانے والے 50 زخمیوں میں سے بھی زیادہ تر افراد جو کہ پاکستانی ہی تھے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں۔سول ہسپتال پانی پت میں مرے والوں اور زخمیوں کو ہسپتال تک لے جانے کے لیئے پولیس وین، اخبار سپلائی کرنے والی گاڑیاں، اور پرایؤٹ گاڑیاں استعمال کی گئی۔ ساتھ ہی آپریشن تھیٹر کو ٹھنڈا رکھنے کے لیئے دو عدد اے۔ سی کا بندوبست بھی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہسپتال میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ساتھ ہی واقع ای۔ایس۔آئی ہسپتال سے بجلی لے کر سول ہسپتال کی بجلی کی فراہمی کو روان کیاگیا اس کے علاوہ 55 ڈاکٹر 65 پیرامیڈیکل اسٹاف اور 50 کلاس فور اسٹاف کے عملہ کی مدد بھی ای۔ایس۔آئی ہسپتال سے لی گئی اور ساتھ ہی مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم اور ڈیتھ سرٹیفیکٹ کے علاوہ DNA ٹیسٹ کے انتظامات بھی مکمل کیئے گئے ۔ بابو لعل مٹھل نامی ایک شخص نے میتوں کے لئے برف کا انتظام کیا گیاٹرین میں سوار دوسرے مسلمان مسافروں کے اسرار پر نزدیک موجود درگاہ باہو علی قلندر اور وقف بورڈ سے تقریباٍ 35 مسلمان نوجوانوں کو بلایا گیا تاکہ مرنے والوں کی میتوں کو کفن دے کر تابوتوں میں رکھا جا سکے ۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے مرنے والوں اور زخمیوں کی معلومات کے لیئے ایک ہلیپ لائن بنائی گئی جس کے نمبر018-2001000, 2697101, 2649007 تھے ۔

یہ آپریشن ساری رات جاری رہتا ہے جس کے بعد ٹرین کو دو بوگیاں جو دھماکے اور آگ سے متاثر ہوتی ہیں ان کو کاٹ کر دیونہ اسٹیشن پر دیگر تفتیش کے لیئے کھڑا کر دیا جاتا ہے تقریباٍ 3:30 پر بقایا ٹرین کو کو لاہور کے لیئے روانہ کر دیا جاتا ہے صبح5:20 منٹ پر ٹرین امبالہ کینٹ پر پہنچتی ہے جہاں پر تمام مسافروں کو دوبارہ گنا جاتا ہے اور ان کے پاسپورٹ نمبر نوٹ کیے جاتے ہیں جن میں تقریباٍ 14 مسافروں کے پاس کی قسم کا کوئی بھی پاسپورٹ نہیں ہوتا۔

اگلی صبح یونین ریلوئے ہوم منیسٹر، ریلوئے منیسٹر ، منیسٹر آف اسٹیٹ ریلوئے، چیف منیسٹر آف ہریانہ، چیف سیکرٹری آف ہریانہ ، اور چیرمین ریلوئے بورڈ سانحہ کی جگہ کا معانۂ کرتے ہیں ساتھ ہی ریلوئے منسٹر لالو پرساد یادو مرنے والوں کے ورثاء کے لیئے دس لاکھ اور زخمیوں کے لیئے پچاس ہزار روپے فی کس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔اس سانحہ کے بعد بھارتی گورنمینٹ اور بھارتی میڈیا اپنے ملک میں ہونے والی دہشتگردی کا الزام حسب عادت پاکستان پر لگا دیتا ہے اور ساتھ ہی تفتیش کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔

دکیش نارائن رائے سابقہ DGP کو تفتیشی ٹیم کا سربراہ بنا کر 8 رکنی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔ تفتیشی ٹیم سب سے پہلے جکہ کا معائنہ کرتی اور تمام ثبوت اپنے قصبہ میں لے لیتی ہے۔ تفتیشی ٹیم کے مطابق ٹرین میں لگنے والی آگ کا سبب نچلے درجے کا آر۔ ڈی ۔ایکس ہوتا ہے جس کو چار عدد سوٹ کیسوں میں بموں اور خطرناک کیمیکلز کی اور پیٹرول کی بوتلوں کے ساتھ نصب کیا جاتا ہے جن میں سے دو سوٹ کیس پھٹتے ہیں اور دو سوٹ کیس محفوظ رہ جاتے ہیں یہ سوٹ کیس ضلع اندور ، کے بازار رگونندن اٹیچی اسٹور سے خریدئے گئے تھے دوکان کا مالک بوہری مسلمان تھا اور اس کے پاس دو ہندو لڑکے کام کرتے تھے ۔ تفتیشی ٹیم کی حیرت میں اس وقت اضافہ ہوا جب رگونندن اٹیچی اسٹور سے آگے بازار میں دھماکے میں استمعال ہونے والی بوتلیں اور کیمیکل جن میں کیروسین ، پیٹرول ، ڈیزل عام بکتا ہوا دیکھائی دیا اس آتش گیر مادوں کو خطرناک کیمیکل کے ساتھ سبز رنگ کی بوتلوں میں بھرکر بموں کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ دکیش نارائن رائے کے مطابق وہ اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ 22 مارچ 2007 کو اس دقت کے وزیر خارجہ خورشید شاہ قصوری نے امن تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیئے ہندوستان کا دورہ بھی کرنا تھا اس لیئے دکیش نارائن رائے اور ان کی ٹیم کے لیئے ان عناصر کے لیئے کا پتا لگانا بے حد ضروری تھا۔ ۔

جیسے جیسے تفتیش آگے بڑھتی گئی دکیش نارائن رائے نے اس بات کا اعتراف کیا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہندو دہثت گردوں کاہاتھ تھا دہثت گردوں کا تعلق ہندو دہشت گرد تنظیم آر ۔ ایس ۔ایس سے تھا اس حملہ میں مرکزی کردار سنیل جوشی تھا جس کو2007 کے آخر میں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ۔ ایس ۔ایس نے بے رحمی سے قتل کروا دیا تھا۔ حملہ میں شامل مزید دو افراد جن میں سے ایک کا نام کل سانگرے تھا آج تک لاپتہ ہیں اور ہندوستان کی سیکورٹی ایجنسیاں ان دونون کو آج تک تلاش نہیں کر سکی ۔

وکیش نارائن رائے کے مطابق دہستتگروں کی عمرین 27 سے 36 سال کے درمیان تھی جو دھماکے سے دس منٹ پہلے ٹرین سے اتر گئے تھے 2008 تک ہونے والی تفتیش میں ہندو دہشت گرد تنظیم آر ۔ ایس ۔ایس کے ایک اور دہشت گرد جسکا نا م سوامی سیمانند تھا کی گرفتاری کے لیئے کئی بار چھاپے بھی مارے گئے ۔ اکتوبر 2008 میں سمجھوتہ ایکسپریس کی تفتیش میں ایک نیا مو ڑ آیا جب مالے گاؤں میں مسلمانوں پر ہندو دہشت گرد تنظیم آر ۔ ایس ۔ایس اور اس کے مزید دہشت گردوں کے نام سامنے آئے جن میں حملہ میں استمعال ہونے والے دہشتگرد پرگیاں سنگھ ٹاکر کی موٹرسائیکل اور دیگر ثبوت ہمنت کرکرنے جو ممبی حملوں میں اپنے چھ ساتھیوں سمیت مارا جاتا ہے کے ہاتھ آ جاتے ہیں

دکیش نارائن رائے کے مطابق مکہ مسجد، درگاہ اجمیر شریف، مالے گاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کے تمام حملوں میں ایک ہی نوعیت کی منصوبہ بندی کی گئی تھی نومبر 2008 میں اس انکشاف میں ایک اور موڑ آیا جب سمجھوتہ ایکسپریس مسلمانوں پراور دیگر کئے گے حملوں میں ہندوستان آرمی کے حاضرلیفٹینٹ کرنل پرساد شری کانت جسکا تعلق ابھینیو بھارت نامی دہشتگرد تنظیم جو ہندو دہشت دہستگرد تنظیم آر ۔ ایس ۔ایس کے ساتھ مل کر ان حملوں میں شامل تھی سامنے آیا۔ تفتیش کے بعد لیفٹینٹ کرنل پرساد شری کانت نے بتایا کہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔2010 میں وزیر داخلہ رحمان ملک نے ہندوستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ پر سنجیدگی سے تفتیش کرے اور ملزموں کو سامنے لے کر آئے ۔

وکیش نارائن رائے کے مطابق تمام تفتیش مکمل کر کے2010 میں نیشنل انویسٹی گیشن کے حوالے کر دی گئی تھی دسمبر 2010 میں یا دعوہ کیا کہ ان کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہے کہ دہستگرد حملوں کے پیچھے سوامامی سمانند کا ہاتھ ہے جس کے ساتھ اس کے ساتھی سندیپ دیگے انجینیر گریجویٹ ، رام جی کلسانگرے الیکٹریشن جس نے سوٹ کیس بنانے میں اہم کردار ادا کیاتاہم 8 جنوری2011 کو آر۔ایس۔ایس کی طرف سے ایک لیگل نوٹس سی۔بی۔آئی کو بھجوایا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ ان ہمارے ساتھیوں پر یہ الزام بے بنیاد ہے اور ان پر تشدد کر کے ان سے یہ بیان لیئے گئے ہیں مارچ 2011 کو سوامامی سمانند باہر آتا ہے اور یہ بیان دیتا ہے کہ مجھ سے حملوں کا اعتراف زبردستی لیا گیا تھا ساتھ ہی نومبر 2011 میں انڈین ہائی کورٹ نے نیشنل انویسٹی گیشن اتھارٹی کو نوٹس دیا کہ سوامامی سمانند پر تشدد کر جبرٍ ان سے یہ دہستگرد حملوں میں ملوث ہونے کا بیان لیا گیا ہے۔ 2012 کے شروع میں ان تمام تر دہستگرد حملوں کی توجہ ہندوں اور ہندوں کی دہستگرد تنظیموں سے ہٹا کر اس کو مسلمانوں سے جوڑنا شروی کیا گیااور ان تمام حملوں کا الزام آر۔ایس ۔ایس اور ابھنیو بھارت نامی دہستگرد تنظیموں سے ہٹا کر لشکر طیبہ اور جیش محمد سے جوڑا گیا۔

مگر 12 فروری 2012 نیشنل انویسٹی گیشن اتھارٹی نے دوبارہ سے سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں ملوث کمال چوہان نامی شیخص کو گرفتار کیا گیا جس کی شناخت آرْ۔ایس۔ایس کے ضلع اندور کی ریاست مدیاپردیس کے کارکن کے طور پر گئی، پوچھ تاچھ کے دوران وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ بموں کو ترتیب دینے میں اس کا اور اس کے ساتھیوں رام جی کاسانگرے اور سندیب ڈیگے کا ہاتھ تھا جن کی گرفتاری پر انعام بھی رکھا گیا تھامگر ہندوستان نے اپنے ملک کی بدنامی چھپاتے ہوئے تفتیش کو روک دیتی ہے۔

اپریل 2016 میں ڈاریکٹر جنرل نیشنل انویسٹی گیشن اتھارٹی امریکی گورنمنٹ سے درخواست کرتی ہے کہ عارف قسمانی نامی شیخص اس حملے میں کروانے میں رقم فراہم کر رہا تھا ساتھ ہی ڈاریکٹر جنرل نیشنل انویسٹی گیشن اتھارٹی امریکہ کی گورنمنٹ عارف قسمانی کے سفر اور اس کے اساسے منجمند کرنے کی درخواست بھی کرتی ہے۔

آج دس سال گزرنے جانے کے بعد بھی پاکستانی گورنمنٹ اور سمجھوتہ ایکسپریس کے سانحہ میں زندہ جل جانے والوں کے لواحقین حملوں کے مجرموں کو عبرتناک سزا نہ ملنے پر سراپا احتجاج کرتے دیکھائی دیتے ہیں مگر ہندوستان سرکاراپنے ملک میں چھپے دہستگروں کی پشت پناہی کرنے میں جس دیدادلیری کا مظاہرہ پچھلے دس سالوں سے کرتی آئی ہے وہ قابل احتجاج تھا اور رہے گا۔

Muhammad Raaza Malik
About the Author: Muhammad Raaza Malik Read More Articles by Muhammad Raaza Malik: 2 Articles with 1334 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.