اصول و ضوابط سے عاری کسی بھی قسم کی طاقت ایک
انسان کو درندہ بنا دیتی ہے ۔ تاریخ ِ عالم ایسے انسان نما درندوں کی
درندگی سے خون آلود ہے۔اسی درندگی کی کوکھ سے قدیم مطلق العنان ظالم
حکمرانوں نے جنم لیا ہے جدید استعماریت بھی اسی گود میں پلی بڑھی ہے۔اور آج
پورے جوبن پر پہنچ کر عالمی امن و سکون کو غارت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔نشۂ
قوت ہی ہے کہ جس نے برطانوی سامراج کے حواسِ خمسہ کو ایک مدت تک معطل کر کے
رکھ دیا تھا۔اور اس کاسورج غروب ہوتے ہی امریکی طاغوت اس کی زد میں آگیا۔جب
سے امریکی سامراج کا سورج طلوع ہوا ہے ا س نے اپنی بے پناہ تمازت سے پورے
عالم علی الخصوص عالمِ اسلام کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشہ ٔ قوت ہے خطرناک،
اس سیل سبک سیر و زمیں گیر کے آگے
عقل و نظر و علم و ہنر ہیں خس و خاشاک
لگتا ہے کہ امریکی استعمار کا یہ سورج آج کل عروج پر ہے۔ اور اسی لحاظ سے
اپنے زوال کے بہت قریب بھی۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ’’ ہر کمالے را زوالے و
ہر فرعونے را موسیٰ۔‘‘اس زوال آمادگی کے آثار اسی وقت نمایاں ہوگئے جب سے
ڈولنڈ ٹرمپ جیسا پست فکر انسا ن امریکہ کے سیاسی افق پر چھا گیا۔انتخابی
مہم کے دوران ڈولند ٹرمپ نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ سراسر نسل پرستی اور
سوفسطائی نطریات پر مبنی ہیں۔اور اقتدار پر براجمان ہوتے ہی اس شخص نے اپنی
پست سوچ کو عملی جامہ پہنایا۔ظاہر سی بات ہے ایک اعلیٰ عہدے پر پست سوچ
انسان کا قابض ہوناکسی المیہ سے کم نہیں ہوتا۔ اس لحاظ ٹرمپ کا اس اعلیٰ
منصب پر براجما ن ہونا عالمی سیاست کے لئے ایک ناقابل ِ تلافی المیہ ہے ۔
گو کہ امریکہ کے سابق حکمران بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔نیز امریکہ کا
گزشتہ ایک صدی سے سیاسی ریکاڑ بھی ظلم و بربریت سے بھرا پڑا ہے ۔ لیکن
موجودہ صدر اور گزشتہ حکمرانوں میں ایک واضع فرق یہ ہے کہ وہ اپنی تسلط
پسندانہ پالیسوں کو ایک خوبصورت لبادہ اوڑھ کر پیش کرتے تھے اور اپنے خبث
باطن کو عیاری کے پردوں میں ڈھانپ کر پیش کرتے تھے اسطرح عالمی رائے عامہ
کے ساتھ ساتھ امریکی عوام کو بھی ورغلانے میں کسی حد تک کامیاب ہوتے تھے۔
عکس العمل اس کے مسٹر ٹرمپ نے اپنی باطنی کدورت کا یکبارگی اور برملا اظہار
کیا۔ اس نے وائٹ ہاوس میں داخل ہوتے ہی سات اسلامی ملکوں کے باشندوں کو
امریکہ میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ سات اسلامی ممالک
ایران ،عراق ،لیبیا ،سوڈان ،صومالیا ،شام ،اور یمن ہیں ۔واضع رہے مذکورہ
تمام ممالک کسی نہ کسی طور امریکی جارحیت کاخمیازبھگت چکے ہیں بلکہ اب بھی
بھگت رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ امریکہ کی ان ملکوں کے تئیں بے جا
مداخلت اور تسلط پسندی پر روک لگ جاتی ۔لیکن یہاں تو گنگا الٹی بہائی جا
رہی ہے۔
ٹرمپ نے میکسکوکو الگ تھلگ کرنے کے لئے ایک بڑی فصیل میکسکو کی سرحد پر
کھڑی کرنے کے ارادے کو ظاہر کیا ۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ اس کا
تمام تر خرچہ میکسکو ہی کو برداشت کرنا پڑے گا۔جس کے رد عمل میں پورے
میکسکو میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ احتجاج ریلیوں میں شامل ہوئے۔میکسکو کے
عوام کا ٹرمپ کے نام واضع پیغام تھاکہ انہیں ’’دیوار ِ بد اعتمادی ‘‘کے
بجائے آپسی ’’اعتمادسازی کے پلوں‘‘ کی ضرورت ہے ۔امریکی صدر نے شامی پناہ
گزینوں کی امریکہ میں داخلے پر بھی خصوصی طور پر پابندی لگا دی۔دوسری جانب
مسلم انتہاء پسندی کو ختم کرنے کا راگ الاپنے میں ڈولنڈ ٹرمپ اپنی انتخابی
مہم سے ہی کافی پر جوش دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حلف برداری کے بعد
اولین فرصت میں یمن کے نہتھے عوام پر میزائل حملہ کر کے چند بچوں اور
خواتین سمیت سولہ بے گناہ شہریوں کو ہلاک کیا۔
بلاشبہ امریکی صدر کے نسل پرستانہ اور معتصبانہ پالیسی کا بنیادی ہدف ایران
ہے۔ نیز ایران دشمنی میں موجودہ صدر سابقہ صدروں سے بھی دو قدم آگے دکھائی
دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ابتدا سے ہی ایران کے خلاف ڈرانے
دھمکانے کا محاذ کھو ل رکھا ہے۔ اور بارہا اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایران
کو سبق سکھائیں گے۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کا معاہدہ بھی انہیں ایک آنکھ
نہیں بھاتاہے ۔اس معاہدے کی ساکھ کو خراب کرنے پر مسٹر ٹرمپ اپنا سارا
زورلگا رہے ہیں۔وہ مسلسل منافرت آمیز زبان اپنے تمام حریفوں علی الخصوص
ایران کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔اپنے ایک بیان میں مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ
ایران کے خلاف تمام تر آپشن بشمول جنگ میز پر موجود ہے۔ڈونلڈ ترمپ کامزید
کہنا ہے کہ ایران آگ سے کھیل رہا ہے اور ایران کو سمجھ لینا چاہے کہ سابق
سدر مسٹر اوباما نے ان کے ساتھ نرم گوشہ اختیار کر رکھا تھا ۔اب جبکہ
اوباما چلے گئے اور ایک نئے صدر آگئے ہیں ایران کو نہایت ہی محطاط رہنا
ہوگا۔مگر دوسری جانب ایران نے بھی خم ٹھوک کر حسبِ سابق امریکی دھونس اور
دباؤ کو خاطر ہی میں نہیں لایا۔ چنانچہ سپریم لیڈر امام خامنائی نے واضع
الفاظ میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی قوم اور لیڈر شب کو ڈرانا چاہتے ہیں
لیکن ہم ان سے خوف زدہ ہونے والے نہیں ہے۔اور دشمن کی ہر جارحیت اور تجاوز
کا دندان شکن جواب دینے کے لئے ہم تیا ر ہیں۔ درایں اثنا ایران نے بیلسٹک
میزائل کا کامیاب تجربہ کر کے اپنے عسکر ی اور دفاعی عزائم کا اظہار کیا
ہے۔جوابی کاروائی کے طور امریکی شہریوں پر ایران میں داخلے پر پابندی کا
اعلان کردیا۔ مزید بر آں ایران نے امریکی ڈالر کو چلینج کر کے متبادل کرنسی
میں عالمی سطح پر دیگر ممالک کے ساتھ کاروکرنے کا اعادہ کر دیا ہے ۔جسے
امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی نے ایک خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے ۔
الغرض جب سے ٹرمپ امریکہ کے سیاسی منظر نامے پر نمودار ہوا ہے اس کے منہ سے
خیرکا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔اس نے ہمیشہ جارحانہ اور نسل پرستانہ زبان کا
استعمال کیا۔اس کی احمقانہ حرکتوں کا اندازہ اس رد عمل سے بھی ہو سکتا ہے
جو امریکہ اور بیرون امریکہ اس کے خلاف سامنے آرہا ہے چنانچہ عہدہ صدارت
سنبھالنے کے بعد جتنے بھی حکم نامے اس نے جاری کئے ہیں ان میں بیشتر حکم
نامے عالمی انصاف و قانون کے برعکس ہیں ۔یہی وجہ دنیا بھر میں اس شخص کو
لائقِ مذمت و ملات گردانا گیا۔ امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے
احتجاج کیا۔ان احتجاجوں میں ہر طبقے سے وابسطہ افراد شامل تھے ۔حتیٰ کہ
اپنے ہی صدرکا نا معقول رویہ دیکھ کر کہ حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز
افراد کا بھی پیمانۂ صبر لبریز ہوا ۔چناچہ امریکہ کے تیس شہروں سے وابسطہ
مئیر بھی اس احتجاجی مہم میں شامل ہوگئے۔قانونی ماہرین،فنکار،دانشور ،سیاست
دان،ماہرین تعلیم،صحافی اور وکلاء بھی کافی مشتعل دکھائی دے رہے ہیں۔لندن
میں قریباً ایک لاکھ سے زائد افراد نے امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج
کیا۔اور پانچ لاکھ افراد نے ایک دستخطی مہم پر دستخط کئے ۔دستخط کنندگان کا
مطالبہ ہے کہ صدر ٹرمپ کا دورہ ٔ برطانیہ منسوخ کیا جائے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سات اسلامی ملکوں کے باشندوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی
کے متعلق ٹرمپ نے یہ کہہ کر نہایت ہی بودی توجیہ پیش کی تھی کہ ایکزیکیٹو
حکم نامے کا مقصد امریکی قوم کو غیر ملکی دہشت گردوں کی گھس بیٹھ سے تحفظ
فراہم کرنا ہے۔مگر امریکہ کی ایک فیڈریل عدالت نے اس توجیہ کو ناقابل اعتنا
گردانا۔ اور اس حکم نامے کو معطل کر دیا۔
تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو ٹرمپ نے ایک ہی جست میں عدمِ برداشت،نسل
پرستانہ ذہنیت،غیر معقولیت،جنگ طلبی،من مانی،عدمِ رواداری، کی سرحدوں کو
عبور کیا۔بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ شخض اسی چال ڈھال سے آگے
کی جانب گامزن رہا تو عالمی امن و سکون کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔اس
خدشہ کا اظہار حالیہ صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کی مضبوط حریف ہیلری کلنٹن نے
بھی کیا ۔ اپنی ایک تقریرمیں ہیلری نے ٹرمپ کے متعلق کہا ’’ اس کے خیالات
اور بیانات ذہنی انتشار پر مبنی ہوتے ہیں اور خطرناک حد تک غیر مربوط بھی۔
ایسے شخص کے ہاتھ ہرگز ہرگز خفیہ نیوکلیر کوڈ نہیں لگنے چاہیئے ۔کیونکہ اس
کا عدمِ برداشت ہمیں ایک خطرناک جنگ کی طرف لے جا رہا ہے‘‘ڈیلی انڈیپنڈنٹ
کے مطابق یہ بیان محض ایک سیاسی حریف کا دوسرے سیاسی حریف کے رویہ پر تیکھا
وار نہیں بلکہ چند ایک امریکی ماہرینِ نفسیات نے بھی اس بات کی تصدیق کی
ہے۔ سحر عالمی نیٹ ورک کے مطابق نہ صرف امریکی عوام میں ٹرمپ کے ذہنی توازن
کے متعلق چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہے بلکہ ریاست کیلیفورنیا سے ایوان ِ
نمائندگان کے رکن ڈیدلیو نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہے
انہوں نے صدرٹرمپ کے غیر منصفانہ اور نسل پرستانہ اقدامات منجملہ سات
اسلامی ممالک کے شہریوں پر پاندیوں کے فیصلے پر کہا ہے کہ ٹرمپ کے ذہنی
توازن کا چیک اپ ہونا چاہئیے۔
عالمی میڈیا کو صرف ِ نظر کر کے فقط یورپی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا
پر ہی نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ بالا خبروں اور تجزیہ کے علاوہ بھی اس
حوالے سے مواد مل سکتا ہے۔ قریباً تمام موقر اور کثیرالاشاعت اخبارات میں
موجودہ صدر کی پالیسیوں کے خلاف کوئی نہ کوئی خبر، رپورٹ،تجزیہ ،تبصرہ یا
آرٹیکل مسلسل پڑھنے کو مل رہا ہے۔ان اخبارات و رسائل میں گاڑین،ڈیلی
مرر،ڈیلی اندیپنڈنٹ،واشنگٹن پوسٹ،وغیرہ قابل ذکر ہے۔ مغرب کے بیشتر سیاسی
رہنماووں نے بھی ٹرمپ کی ابلہی کے متعلق اپنے تشویش کا کھل کر اظہار کیا۔
چنانچہ اسپین کے وزیرِ اعظم ماریا نورخوی اور میکسکو کے صدر آنریکا ینپیا
نیتو موجودہ صدر امریکہ کی حارہانہ پالسیوں کے خلاف مشترکہ محاذ کھولنے پر
متفق ہو گئے۔فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند نے بھی مسٹر ٹرمپ کی جانب سے
یورپی یونین پر بے جا دباؤ کو ناقابل ِ قبول قرار دیا ہے۔کنیڈا کے وزیرِ
اعظم نے امریکی صدر کے انسانیت سوز اقدامات کا جواب نہایت ہی مدبرانہ انداز
میں دیا ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ ایسے نا معقول اور مفسد شخص کا حکومت ِ امریکہ کے سب سے
اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونا پوری دنیا کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔وہ بھی ایک
ایسی حکومت کہ جسے دنیا کی چودھراہٹ کا خبط لگا ہے۔ اور اسی لحاظ سے عالمی
تنازعات اور معاملات میں اسے ایک اہم اور بنیادی فاصلہ ساز کی حیثیت حاصل
ہے۔لھٰذا اس کا خبثِ باطن مشرق و مغرب میں نہ جانے کیا کیا گھل کھلائے
گا۔المیہ در المیہ یہ ہے کہ چنگیز خان کا یہ چیلہ جمہوری راہ و روش کے
ذریعے اس اونچے مقام تک اپنی پوری پست ذہنیت کے ساتھ آ دھمکا ہے۔ اوربقولِ
امام سید علی خامنائی ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی غیر انسانی حرکتوں کے ذریعے
امریکی سامراج کا جمہوری پردے کے پیچھے حقیقی چہرہ مہرہ دنیا کو دکھا
دیا۔باالفاظ دیگر آج مغربی جمہوریت کا چنگیزی جوہر ٹرمپ کی صورت میں تمام
تر پردوں کو چاک کر کے باہر آگیا ہے۔جسے حکیم الامت نے بہت پہلے اس کے پیکر
میں دیکھا تھا
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
یہ سوال بجائے خود مغربی جمہوریت کی آبرو اور اعتباریت کے ماتھے پر کالا
کلنک ہے کہ کیا واقعی اس جمہوریت کے بطن سے ایسا آمر بھی پیدا ہو سکتا
ہے؟بات جمہوری رتھ پر سوار اس راون تک ہی محدود ہوتی تو معاملہ اس قدر
سنگین نوعیت کا نہ ہوتا۔ لیکن اس راون نے جمہوریت کی لنکاکی بنیادوں کو بھی
ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس دیوِ استبدادنے جمہوری اصولوں کواس انداز میں مسلا
کچلا ہے کہ آمرانہ طرز حکومت میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے والوں کو بھی
جمہوری لباس میں مزین آزادی کی نیلم پری سے گن محسوس ہوجائے تو غیر متوقع
نہیں ہوگا
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
جمہوریت کے جس بنیادی نقص کو کسی فرنگی دانشور کے حوالے سے علامہ اقبال نے
بیان کیا ہے آج پھر ایک بار وہ نقص جمہوریت پسندوں کا منہ چڑا رہا ہے۔اور
انہیں اس تصور پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر رہاہے کہ بس اور بس جمہوریت
ہی واحدنظام حکومت ہے کہ جو بے عیب ہے۔ٹرمپ کا منتخب ہونا اور پھر اس کے
طرزِ فکر پر ان ہی کا واویلا کرنا جنہوں نے انہیں ووٹ دے کر منتخب کرنا اس
بات کی غمازی کرتا ہے کہ جمہوری عمل میں سروں کو دیکھا جاتا ہے سروں میں
چھپا سودا نہیں۔ورنہ بے عیب طرزِ حکومت میں عیوب سے اٹا ہوا شخص منصہ شہود
پر کیوں کر آسکتا تھا۔ جو بہت سارے سر کسی ایک سر کو اپنا سردار مقرر کرتے
ہیں ۔ ان کے سروں کو تولنے مولنے کا اھتمام دور کی بات یہاں تو اس سر کو
دیکھنے بھالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے کہ جس پر حکمرانی کا تاج سجھایا جاتا
ہے۔یہی وجہ ہے امریکی جمہوریت میں منتخب صدر کی سبک سری اپنی مثال آپ
ہے۔بجا کہا ہے علامہ نے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے |