چوہدری اعتزاز احسن کا مطالبہ ذرا مختلف ہے، رینجرز
کو پنجاب میں کام کرنے کی اجازت کی بات تو ایک عرصے سے چل رہی ہے۔ عمران
خان بھی یہی مطالبہ بارہا کر چکے ہیں۔ اب پاکستان بھر میں دہشت گردی کی ایک
لہر اٹھی ہے، تو اس کا پہلا نشانہ پنجاب بنا ہے۔ اس دھماکے میں دو پولیس
افسران کی شہادت سے اس کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ اب پنجاب میں
رینجرز کو بلانے کا مطالبہ خود ہی رو بہ عمل ہو رہا ہے۔ حکومت نے یہاں
رینجرز کو لانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے، ساٹھ سے نوے روز کے لئے رینجرز
یہاں قیام کریں گے اور ضرورت ہوئی تو اس قیام کو مزید طول بھی دیا جاسکے گا۔
رینجرز کے آنے کے مطالبے کے پور ا ہوتے ہی اختیارات کا معاملہ زیر بحث آرہا
ہے، کیونکہ اگر اختیارات کے بغیر کوئی بھی کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگرچہ
حکومت نے خود بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ رینجرز کو بھر پور اختیارات دیئے
جائیں گے، اصولی طور پر بھی ایسے ہی ہونا چاہیے، کیونکہ کراچی میں رینجرز
کو جو اختیارات میسر ہیں، پنجاب میں بھی کم از کم اتنے تو ہونے ہی چاہیئں۔
مگر چوہدری اعتزاز احسن نے کراچی کی مثال کے ساتھ مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب
میں بھی وزیراعلیٰ کی اجازت کے بغیر کسی بھی صوبائی وزیرکو گرفتار کرنے کا
رینجرز کو اختیار ہونا چاہیے ۔
بہت سے دیگر لوگوں کی طرح اعتزاز احسن کو بھی خدشہ ہے کہ پنجا ب میں رینجرز
آتو جائیں گے، مگر عملی طور پر ان کی پوزیشن کمزور ہوگی۔ یا یوں کہیے کہ وہ
صرف کاروائی کے طور پر چند مخصوص لوگوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ کوئی خدمت
سرانجام نہیں دیں گے۔ چوہدری صاحب نہ جانے کن وزراء کو گرفتار دیکھنا چاہتے
ہیں، جو رینجرز کے آنے سے قبل ہی ماحول بنا رہے ہیں۔ رینجرز نے تو اُن
لوگوں کو پکڑنا ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں، یا سہولت کار بن رہے ہیں۔
مگر وزراء کا اس قسم کی کسی رینج میں آنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں، کسی
وزیر کی ایسی سرگرمی دیکھنے میں تو نہیں آئی جس سے دہشت گردی کو فروغ ملنے
کے خدشات پیدا ہوئے ہوں۔ ہاں اگر اِ ن اختیارات میں کرپشن وغیرہ کے معاملات
بھی شامل ہیں تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ اپنے معزز وزراء میں عام لوگوں
کو بھی بعض اوقات کچھ کرپشن نظر آرہی ہوتی ہے، مگر ان کے پاس کوئی ثبوت
نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے انہیں خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے اور اپنے جذبات
نجی محفلوں میں گفتگو کے ذریعے ہی ٹھنڈے کرتے ہیں۔ مگر جب کوئی تحقیقاتی
ادارہ کرپشن تلاش کرتا ہے، تو عوام بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ ان کی
قیادت کرپشن کے کس مقام پر فائز ہو چکی تھی۔
اگر رینجرز کسی وزیر کی کرپشن پکڑیں گے تو یہ معاملہ اس لئے بھی ہر کسی کے
لئے حیرت کا موجب ہوگا کہ اپنے خادمِ پنجاب کا ببانگِ دہل یہ دعویٰ ہے کہ
ان کی حکومت پر ایک دھیلے کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو ․․․․․․․ (بہرحال اس
ضمن میں اُن کے بہت سے اعلانات ہیں، ہر کوئی اپنی مرضی کی سزا دے سکتا ہے،
ان میں ایک آپشن نام تبدیل کرنے کی بھی ہوتی ہے)۔ وزیراعلیٰ کے دعووں وغیرہ
کے باوجود ملک میں نیب بھی کام کررہی ہے، اینٹی کرپشن کا ادارہ بھی اس قدر
مصروف ہے کہ اس کے اہلکاروں کو سر کھجانے کی فرصت نہیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہر
محکمے کی نگرانی کے لئے کمیٹیاں اور بورڈز بنے ہوئے ہیں۔ فوڈ کنٹرول
اتھارٹی کو دیکھ لیں، انسانی جان بچانے والی ادویات پر نظر ڈال لیں، دیگر
اشیائے خوردونوش کا جائزہ لے لیں، زخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا
حساب لگا لیں۔ سرکاری محکموں اور اداروں میں معاملات بے قابو ہیں۔ گویا
جدھر بھی دیکھیں کرپشن کا بازار گرم ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود وزیراعلیٰ کا
دعویٰ بھی کرپشن کی طرح موجود ہے، کہ اگر دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو
․․․۔ اب رینجرز آرہے ہیں، صوبے میں بڑھتی بدامنی، لوٹ مار، جرائم وغیرہ پر
قابو پانے کی کوشش ہوگی، اگر بہتری ہوگئی تو لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔
دیکھیں رینجرز کی کاروائیوں کے بعد وزیراعلیٰ کے موقف میں کہاں تک تبدیلی
آتی ہے، اور عوام کہاں تک مطمئن ہوتے ہیں؟ مگر سندھ میں بھی یہی دیکھنے میں
آیا ہے کہ اگر کسی وزیر یا ممبر اسمبلی کو گرفتار کر بھی لیا گیا ہے تو اس
کی رہائی میں زیادہ تاخیر نہیں ہوئی۔ قوم کو تو عمل چاہیے، دہشت گردوں کا
بھی خاتمہ ہو، کرپشن کا بھی قلع قمع ہو، جرائم بھی اپنی موت آپ مرجائیں۔
|