کسی کے معاملے میں یوں ہی ٹانگ اڑانا بلا طلب مشورہ دینا
یا ذاتی معاملات میں دخل اندازی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہاں کسی برائی سے
روکنا مجھے کبھی برا نہیں لگا۔ کوئی غصہ کرتا ہے تو کرتا رہے‘ میں نےکبھی
اس کی پرواہ نہیں کی۔ اچھائی کے زمرے میں‘ میں کسی کمپرومائز کا قائل نہیں۔
برائی کو ہر حال میں برائی ہی کہا جانا چاہیے۔ برائی کی تائید یا خاموشی
بہت بڑے سماجی نقصان کا موجب ہو سکتی ہے۔
میں کسی کے کیا اپنی اولاد کے ذاتی گھریلو معاملات میں دخل اندازی کا قائل
نہیں۔ ہاں البتہ مشورہ طلب کرنے کی صورت میں بڑی دیانت داری سے دو ٹوک اور
بلا لگی لپٹی اپنی رائے کا اظہار کر دیتا ہوں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے
ڈرتے ڈرتے اور جھجکتے ہوئے اس سے پوچھ ہی لیا کہ وہ گھر میں صرف دو لوگ
رہتے ہیں تو پھر اتنا گوشت کیوں لے کر جاتے ہو۔ مہمان بھی کوئی خاص آتے
جاتے نہیں دیکھے۔ میری سن کر وہ کھل کھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگا۔ میری
بیگم صرف گوشت کھانا پسند کرتی ہے۔ گوشت کی مختلف نوعیت کی ڈیشیں بنانے میں
مہارت رکھتی ہے۔ وہ سبزی سے چڑتی ہے لیکن میں گوشت پسند نہیں کرتا۔ لیگ پیس
تو اس کی من بھاتی کھا جا ہے۔ رات کو آخر سونا بھی ہوتا ہے۔
ابے لیگ پیس اور رات کو سونا بھی ہوتا ہے کوئی میل کھاتی بات نہیں۔ بالکل
بےسری سی کہہ گئے ہو
جناب بےسری نہیں حقیقت اور میل کھاتی ہوئی بات کی ہے۔
وہ کیسے‘ میں سجھا نہیں
جناب مرغ کی ٹانگیں نہیں لا کر دوں گا تو ہو سکتا ہے کہ رات کو اس کا موڈ
بن جائے اور اٹھ کر میری ایک یا زیادہ ضرورت کی صورت میں دونوں ہڑپ جائے
اور مجھے صبح اٹھ کر پتا چلے۔ ایک ٹانگوں سے جاؤں اوپر سے یہ معنا سنوں‘ تم
جیب کے بڑے پکے ہو‘ یہ الگ بات ہے کہ میری کوئی جیب ہی نہیں جیب تو اسی کی
ہے۔
میں اس کی بات پر ہنسا بھی اور مجھے اس کی کمال کی مبالغہ آرائی نے لطف بھی
دیا،
اس نے بتایا کہ اس کی زوجہ سرکار نے فقط چار شوق پالے ہیں۔ کھانا‘ لڑنا‘
سونا اور چوتھا ڈیش ڈیش ڈیش۔ ان چاروں میں سے کسی ایک پر کمپرومائز نہیں ہو
سکتا۔ لڑائی میں چاردیواری میں مقفل آواز کی قائل نہیں۔
اس کی آواز صور اسرافیل سے مماثل ہوتی ہے۔ گھر کے در و دیوار پر لرزہ طاری
ہوجاتا ہے۔ لفظوں کے پھوٹتے انگارے میرے وجود اور روح کو چھلنی کر رہے ہوتے
ہیں جب کہ محلہ لفظوں کی ادائیگی اسلوب اور نشت و برخواست سے لظف اندوز ہو
رہا ہوتا ہے۔ وہ ان لمحات میں غلط اور صحیح کو ایک آنکھ سے دیکھ رہی ہوتی
ہے۔ اس کے منہ سے نکلتے زہر آلود لفظ‘ لفظ کم حاویہ کے دہکتے انگارے زیادہ
ہوتے ہیں جو انا اور ہونے کی حسوں کو تنور کی راکھ میں بدل رہے ہوتے ہیں۔
ان خوف ناک لمحوں میں کانوں میں شائیں شائیں ہوتی ہے اور آنکھوں میں
اندھیرا چھا رہا ہوتا ہے۔ اپنی خیر مناتے کوئی بچ بچا کے لیے راہ میں نہیں
آتا۔
دسمبر کی قلفی بنا دینے والی سردی میں پنکھا فل اسپیڈ پر چلا کر استراحت
فرماتی ہے۔ سوچتا ہوں جہنم میں گئی تو جہنم کی آگ کا اس پر کیا اثر انداز
ہو سکے گی ہاں البتہ اس میں تیزی ضرور آ جائے گی۔ بےچارے جہنمیوں پر مزید
قیامت توڑے گی۔
ایک مرتبہ غلطی سے میں سگریٹ ایش ٹرے کی بجائے نیچے پھینک بیٹھا۔ یہ ننگے
پاؤں تھی اس کا پاؤں سگریٹ پر آ گیا۔ یوں پٹ پٹ پئی جیسے تنور میں گر گئی
ہو۔ میرے ساتھ جو ہوا اس کو چھوڑیے مجھ پر یہ انکشاف ضرور ہوا کہ آگ‘ آگ کو
بھی جلاتی ہے اور کم زور آگ ازیت کا شکار ہوتی ہے۔
پھر خیال گزرا اگر خدا نخواستہ جنت میں داخل ہو گئی تو وہاں کا ماحول حبسی
ہو جائے گا۔ اس بات کو چھوڑیے میرا کیا بنے گا۔ ہر وقت میری بہتر حوروں کو
اسٹینڈ ٹو رکھے گی۔ میری ہر چھوٹی موٹی غلطی پر یلغار کا کاشن جاری کرتی
رہے گی۔
میں اٹھنا چاہتا تھا کہ یہ حضرت چل سو چل ہو گئے تھے۔ ان کی رام کہانی ختم
ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میری کیفیت نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن کی سی
تھی۔ اٹھتا ہوں تو بد اخلاقی بیٹھا رہتا ہوں تو دماغ میں سوراخ ہو رہے تھے۔
پہلے تو میں مداخلت کو غیراخلاقی کام سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ
مداخلت وقت اور دماغ کے زیاں سے زیادہ چیز نہیں۔ میں نے دل ہی دل میں توبہ
کی کہ اس کے بعد ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ دو حرفی بات کو انہوں نے شیطان کی
آنت بنا دیا۔ |