خلائی میدان میں ہندوستان 10عالمی ممالک کی دوڑ میں رواں دواں

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISRO)نے پولار سٹیلائٹ لانچ وہیکل (PSLV)-C37کے ذریعہ 15؍فبروری 2017کو ایک تاریخ ساز کامیابی حاصل کرتے ہوئے عالمی سطح پر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ہندوستانی خلائی ادارے اسرو نے 104سیٹلائٹس کو ہندوستانی ریاست آندھراپردیش کے سری ہری کوٹہ میں واقع ستیش دھون اسپیس اسٹیشن سے خلا میں بھیجا ہے اس سے قبل وقتِ واحد میں خلائی مہم کے دوران ایک ساتھ اتنے سیٹلائٹس نہیں بھیجے گئے تھے۔ سال گذشتہ یعنی22؍ جون 2016کو بھی ہندوستان نے ایک ہی وقت میں 20مصنوعی سیارے کامیابی کے ساتھ خلا میں روانہ کئے تھے۔ہندوستان کے اس عالمی ریکارڈ سے عالمی سطح پر اب تک کسی ایک خلائی مشن میں سب سے زیادہ سیٹلائٹس بھیجنے کا ریکارڈ روس کا تھا جس نے 2014میں ایک وقت میں 37مصنوعی سیارے کامیابی کے ساتھ خلا میں روانہ کئے تھے۔اس مہم میں بھیجے جانے والے 104مصنوعی سیٹلائٹس میں سے تین ہندوستان کے ہیں جب کہ باقی 101سیٹلائٹس جن میں امریکہ کے 96،متحدہ عرب امارات، اسرائیل، قزاقستان، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ کا ایک ایک سیارہ شامل ہے۔ اسرو کے چیرمین ایس ایس کرن کمار نے اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ہندوستان کامنصوعی سیارہ کارٹوسیٹ ۔2سیریزکا وزن 714کلو گرام ہے ان کے علاوہ ہمارے پاس 664کلو گرام مزید وزن خلا میں بھیجنے کی صلاحیت تھی، اس لئے ہم نے 101دوسرے سیٹلائٹس کو بھی لانچ کرنے کا فیصلہ کیاجسے خلاء میں چھوڑا گیا۔ چیرمین نے اخراجات کی تفصیلات تو نہیں بتائی لیکن انہوں نے یہ واضح کیا کہ مشن کا نصف خرچ غیر ملکی سیٹلائٹس کو بھیجنے سے آرہا ہے۔ تاہم اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسرو کو غیر ملکی مصنوعی سیاروں سے 100کروڑ روپیے سے زائد آمدنی ہوئی ہے۔ہندوستان جس تیزی سے عالمی سطح پر مختلف میدانوں خصوصاً سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں بین الاقوامی سطح پر لوہا منوارہا ہے اور یہاں کے بہترین ، ذہین نوجوان اور تجربہ کار عصری علوم سے آراستہ افراد ملک و بیرون ملک خدمات انجام دے کر خود اپنی معیشت ہی نہیں بلکہ ملک کی ترقی و خوشحالی اور عالمی سطح پر ان ممالک کی جہاں وہ خدمات انجام دے رہے وہاں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ہندوستانی خلائی ادارے اسرو نے بھی اس ملک کی حفاظت اور دفاع کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے سٹیلائٹس کو خلا میں بھیج کراپنے ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کررہا ہے۔جس طرح ماضی میں بعض حلقوں و شخصیات کی جانب سے کہا اور سمجھا جارہا تھا کہ ہندوستان جوہری ہتھیار وں کی تیاری اور خلائی سٹیلائٹس روانہ کرکے معیشت کو کمزور کررہے ہیں لیکن آج ہندوستانی خلائی ادارے نے جس طرح ملک کی معیشت کو منفعت بخش رہا ہے اس سے ان افراد یا حلقوں کی زبانوں پر تالے لگ گئے ہیں۔ چیرمین اسرو نے ذرائع ابلاغ کے نمائندے کو بتایا کہ یہ محض ریکارڈ بنانے کے لئے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اس میں انڈین خلائی مشن کے ساتھ اسرو کا کمرشل پہلو بھی شامل ہے۔ یہ ایک مشکل کام ہے اس لئے دنیا بھر کی نظر اس پر ٹکی ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران ہندوستان نے دنیا کے 21ممالک کیلئے 79 سیٹلائٹس خلامیں لانچ کئے، جس میں گوگل جیسی بڑی کمپنیوں کے سیٹلائٹس بھی شامل تھے۔ہندوستان کا پہلا مصنوعی سیارہ آریا بھٹ تھا جس کا وزن 360کلو گرام تھا۔ ہندوستان میں بنایا گیا پہلا راکٹ روہنی 75تھای جسے 20؍ نومبر1967ء کو لانچ کیا گیا تھا۔ جبکہ ہندوستان نے پہلا راکٹ 21؍ نومبر 1963ء کو لانچ کیا تھا یہ ایک اپاچی راکٹ تھا جسے امریکہ سے خریدا گیا تھا۔ ہندوستان کا خلائی پروگرام 1960 کی دہائی سے شروع ہوا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپل سٹیلائٹ 1981ء میں تجربے کے لئے بیل گاڑی میں لے جائی گئی تھی۔ اس طرح ہندوستان سٹیلائٹ کے ذریعہ خود اپنی ترقی و خوشحالی ہی ہیں بلکہ دوسرے ممالک کی ترقی و معلومات کے لئے خدمات انجام دے رہا ہے۔ ہندوستان کا شمار ان دس بہترین خلائی پروگرام کے ممالک ہے جن کے نام یہاں دیئے جارہے ہیں ۔ یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ، چین، ریشیاء ، جاپان، یونائیٹڈ کنگ ڈم(برطانیہ)، ہندوستان، کینیڈا، جرمنی، فرانس اور لکسمبرگ ہیں۔ ہندوستان کو مایہ سپوت ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جیسے ملے ہیں جنہوں نے ملک کے دفاع وسلامتی اور زرعی و ٹکنالوجی کے شعبے میں ترقی اور تحقیق کے لئے انمول نقوش چھوڑے ہیں ۔ اس کامیاب لانچنگ کے بعد ہندوستان کے وقارمیں اضافہ ہوا اور عالمی سطح پر مزید دوسرے ممالک بھی اپنے سیٹلائٹس کی لانچنگ کیلئے ہندوستان کا رخ کرسکتے ہیں۔
ٌٌٌ***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209685 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.