یہ اندر سے مزاحمت کون کرتا ہے؟
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
آجکل الحاد و بے دینی کی باتیں سوشل میڈیا
پر عام ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کا انکار اور اسکی موجودگی کے بارہ
میں ثبوت طلب کرنا اور بحث و مبا حثہ کرنا ، اسی طرح مذہب کی ضرورت و
اہمیّت کو فضول قرار دینا اور دین پر چلنے والوں کا مذاق اڑانا عام سی بات
ہے۔ ان لوگون نے مختلف قسم کی ویب سائٹس اور فیس بک پر پیج بنا رکھے ہیں
جہاں وہ اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔
پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وجود یا مذہب کے بارہ میں کسی
شرعی دلیل کو قبول نہیں کریں گے بلکہ اس بارہ صرف عقلی دلائل سے ہی بحث کی
جائے گی۔
پیش نظر مضمون میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر عقل کو صحیح معنوں میں استعمال
کیا جائے تو سارے مسئلے ہی حل ہو جاتے ہیں اورہر چیز سمجھ میںآجاتی ہے،
اسلئے کہ عقل انسانی خود حجّت ہے صاحب علم لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر اللہ
تبارک و تعالیٰ لوگوں کی رہنمائی کیلئے انبیأء علیہم الصلوٰۃ و السّلام کو
نہ بھی بھیجتا تو عقل انسانی کی بنیاد پر ہی روز حشر قائم ہو جاتا اور
انسانوں کے اچھے یا برے اعمال کا حساب لے لیا جاتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر معرفت الہٰی کیلئے
کائنات میں جا بجا پھیلی نشانیوں پر غور فکر کیلئے انسان کو عقل و تدبّر سے
کام لینے کی دعوت دی ہے چنانچہ فرمایا’’ افلا تعقلون ‘‘ کیا انہیں عقل
نہیں؟اور فرمایا’’ یہ لوگ قرآن میں تدبّر کیوں نہیں کرتے کیا انکے دلوں پر
تالے لگ گئے ہیں‘‘۔
مقصد یہ ہے کہ اگر انسان اپنی عقل کو صحیح معنوں میں استعمال کرے تو اسے
پتہ چل سکتا ہے کہ اس کائنات کو بنانے والا اور اسکے نظام کو چلانے والا
کوئی ہے اور اسکی پہچان کی نشانیاں روز روشن کی طرح واضح ہیں۔ یہ نشانیاں
دو طرح کی ہیں یعنی آفاقی نشانیاں اور انفسی نشانیاں۔
آفاقی نشانیاں یعنی کائنات کی بناوٹ ، آسمان و زمین کی پیدائش اور ستاروں
سیاّروں میں غور فکر کرنا کہ کروڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے
سے ٹکراتے نہیں اوراپنے اپنے دائرے میں
حرکت کرتے ہیں جو انکے لئے مقرر کر دیا گیا ہے، اسی طرح سورج ہمیشہ اپنے
وقت پر مشرق سے نکلتا ہے اورمغرب میں غروب ہوتا ہے شمال یا جنو ب سے نہیں
نکلتا ، موسم وقت پر آتے جاتے ہیں وغیرہم۔
اور انفسی نشانیاں یہ کہ انسان اپنی پیدائش میں غور وفکر کرے کہ میں پہلے
کیا تھا، کیسے پیدا ہوا(مثلاًانسان کے نطفہ سے پیدا ہوا اور بندروں کی
اولاد نہیں تھا)، پھر دنیا میںآیا، بچہ تھا پھر جوان ہوا اور پھر بوڑھا
ہوگیا۔
سب سے اہم چیز جو اس سلسلے قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن پاک میں نفس اور
شیطان کا ذکر کیا گیا ہے یہ دونوں بدی کی طاقتیں ہیں جو انسان کو سیدہی راہ
(اسلام) کی طرف جانے سے روکتی ہیں اورمزاحمت کرتی ہیں انکی پہچان بہت ضروری
ہے۔
اسے چند مثالوں سے واضح کیا جاتا ہے مثلاً عقائد و اعمال کا مسئلہ قابل غور
ہے کوئی شخص نہ تو کسی نئے مذھب یا عقیدہ کو اتنی آسانی سے اختیار کرتا ہے
اور نہ ہی پہلے سے قائم کسی عقیدہ کو جلدی سے چھوڑتا ہے چاہے اسے لاکھ
دلائل دیئے جائیں۔ آپ کسی ہندو، سکھ، بدھ مت یا کسی اور مذھب سے تعلق رکھنے
والے کسی شخص سے یہ کہیں کہ بھائی! آپ اپنے مذھب کو چھوڑ کر اسلام قبول
کرلیں کہ یہ قدیمی مذھب ہے اور انبیآء کرام ؑ کا دین ہے اور اس میں دنیا و
آخرت کی کامیابی ہے؟ تووہ جواب میں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ ’’ٹھیک ہے جی!
یہ کونسی بڑی بات ہے میں آج سے بلکہ ابھی سے اپنے آبائی مذھب کو چھوڑتا ہوں
اور اسلام قبول کرلیتا ہوں ، اب تک تو میں مندر جایا کرتا تھا اور گیتا اور
رامائن پڑھا کرتا تھا اور اب میں مسجد میں آجایا کروں گا اور قرآن پاک کی
تلاوت کیا کروں گا، یا پہلے میرا تعلق سکھ مت سے تھا اور میں گوردوارہ جا
کر ’’ گرنتھ صاحب‘‘ پڑھتا کرتا تھا اب میں قرآن پاک کی تلاوت کیا کروں گا
اور اسلامی تعلیمات پر عمل کروں گابھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ مگر ایسا
نہیں ہوتا اور اس کے اندر سے فو راً مزاہمت شروع ہو تی ہے کہ خبردار اس کی
بات نہیں ماننا تم جس عقیدہ و مذھب پر قائم ہو وہی صحیح ہے اگر یہ غلط ہوتا
تو تمھارے آباء و اجداد اسے اختیار نہ کرتے!! آپ صدیوں کی تاریخ ملاحظ کر
لیں ایساہی ہوتا
چلاآیا ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اللہ تعالی کی طرف سے کوئی نبی ؑ یا
پیغمبر ؑ بھیجا گیا اور اس نے لوگوں کو توحید و رسالت کی دعوت دی تو اکثر
لوگوں نے انہیں جھٹلایا ، انکی تعلیمات سے انکار کیا اور کہا کہ ہمارے لیے
ہما رے باپ دادا کادین ہی کافی ہے ۔
یہ عقائد کامسئلہ تھا اور اعمال کے لحاظ سے اسکی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ
جو لوگ مسلمان ہیں انکی اسلامی تعلیمات پر عمل کی کیا کیفیت ہے؟ توعام
مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو پانچ وقت کی پوری نماز ادا
کرتے ہیں؟ کچھ لوگ صرف عید کی نماز ادا کرتے ہیں اور کچھ لوگ جمعہ کے روز
ہی مسجد جا یا کرتے ہیں جبکہ کچھ مسلمان صرف فجر کی ایک نماز پڑھنے کو ہی
کافی سمجھتے ہیں ،اسی طرح حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ زنا کاری کے قریب بھی نہ
جاؤ، نظروں کو نیچا رکھو، رشوت نہ لو، ملاوٹ نہ کرو ، کم نہ تولو، دھوکہ
دہی نہ کرو، قتل و غارت گری سے باز آجاؤ وغیرھم،مگر کسی ایسے معاشرے کی
مثال نہیں دی جاسکتی جہاں زنا کاری یا قتل و غارت گری نہ ہوتی ہو یا لوگ
رشوت نہ لیتے ہوں یا کسی پر ظلم نہ ہوتا ہو یا کسی کا حق نہ دبایا جاتا
ہو؟یہ سب کام ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ حق تعالی
کے احکامات پر عمل کرنے میں انسان کا نفس امّارہ اور شیطان مزاحمت کرتے ہیں
اور انسان کو اس طرف آنے نہیں دیتے۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ جب بھی انسان اس راستہ پر چلنے کی کوشش کرتاہے جو
حق ہے تو اسکے اندر سے فوراً مزاحمت شروع ہو جاتی ہے اب جو شخص یہ سمجھتا
ہے کہ حق کا وجود نہیں یا مذہب کی ضرورت و اہمیّت سے انکار کرتا ہے تو اگر
وہ کسی ایسی سرکاری پوسٹ پر ہے جہاں اسکے ساتھی رشوت لیتے ہیں تو اسے چاہیے
کہ وہ اس حقیقت سے آگاہی کیلئے یا آزمائش کے طور پر رشوت لینے سے انکار
کردے یا اگر وہ کاروبار کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اجناس میں ملاوٹ نہ
کرے، کم نہ تولے اور دھوکہ دہی نہ کرے یا کسی خاتون سے ناجائز تعلقات قائم
کرنے یا اسے جنسی طور پر ہراساں کرنے سے باز آجائے، اسے پتہ چل جائے گا کہ
یہ کام اتنا آسان نہیں اور اسکے ا ندرسے فوراً مزاحمت ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر
یہ اتنا آسان ہوتا تو ہر معاشرے میں تمام لوگ نیک اور نمازی بن جاتے گویا
وہ فرشتے ہیں اوربرائیوں کا وجود مٹ جاتا
اور شیطان ابلیس کسی کونے میں منہ چھپا کر رو رہا ہوتا کہ یہ کیا ہو گیا
میرا تو سارا منصوبہ ہی ناکام ہو گیا۔
ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ اگر کوئی شخص آزمانا چاہتا ہے تو آزما کر دیکھ لے۔
اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ دنیا میں نیک لوگ نہیں اور سارے گناہگار ہی ہیں
بلکہ اللہ تعا لیٰ کے نیک بندے ہمیشہ موجود رہے ہیں جو محض اللہ کے فضل
وکرم سے نفس و شیطان کی پیروی نہیں کرتے اور اللہ کے احکامات پر عمل کرتے
ہیں، یہ مثال صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے وجود یا مذہب
کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں۔
بہرحال اس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ انسان خواب غفلت سے جاگے اور ان دو
دشمنوں سے خبردار رہے جو اسکی زندگی کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
|
|