سسی کلا : جمہوری سیاست میں نشانِ عبرت

تمل ناڈو کی سیاست میں ایک نامعلوم پلانی بابا کا نام ۲۰ سال قبل ا بھرا مگرپانی کے بلبلے کی مانند سطح آب کے پر آتے ہی جہاد کونسل کے رہنما کا قتل ہوگیا ۔ اس واقعہ کے ۲۰ سال بعد ایک اور گمنام پلانی سوامی اچانک سیاسی افق پر نمودار ہوکروزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ پلانی بابا اور پلانی سوامی کو سطح آب پر آنے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا ۔ سیاست کا تالاب اس قدر گندہ ہے کہ اس کے گدلے پن کے سبب اندر کی کوئی شئے نظر نہیں آتی۔ اس کاکمل باہرآکر کھلتا ہے یا پتے باہرآنے کے بعدنکلتے ہیں اور ہاتھ ابھرنےپرہی نظر آتا ہے۔ تمل ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ پنیر سیلوم نے جب ایک ہفتہ قبل سسی کلا کے کہنے پراستعفیٰ دیا تو سوشیل میڈیا میں ایک لطیفہ خوب چلا۔ کارٹون میں ایک بس کے اندر پنیر سیلوم خواتین کی نشستوں کے درمیان کھڑے ہیں اور نیچے لکھا ہے آخر یہ شخص بار بار خواتین کیلئے مختص سیٹ پر کیوں بیٹھ جاتا ہے؟ مشیت کی کارفرمائی نے کارٹونسٹ کی قیاس آرائی کو غلط ثابت کردیا۔ کاش کہ پنیر سیلوم کی پیشانی پر یہ شعر لکھا ہوتا؎
موقوف کچھ کمال پہ یاں کامِ دل نہیں
مجھ کو ہی دیکھ لینا کہ ناکام رہ گیا

تمل ناڈو غالباً وہ پہلی ریاست ہےجہاں خواتین کیلئے بسوں نشست مختص کرنے کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کے بعد دوسری ریاستوں نے بھی بادلِ ناخواستہ اس کی پیروی کی لیکن عملدرآمد کم ہی ہوا۔ مرد بڑی ڈھٹائی سےان سیٹوں پر بیٹھتے رہتے جبکہ خواتین کھڑی رہتیں۔ اس کےبرعکس چنائی میں یہ حال تھا کر خواتین کی غیرموجودگی میں اگر دو مرد بیٹھ بھی جاتے تو ایک خاتون کے آنے پران میں سے ایک کو نہیں بلکہ دونوں کو اٹھنا پڑتا۔یعنی ایک سیٹ خالی رہتی مگر کسی مرد کی مجال نہ ہوتی کہ وہ بیٹھنے کی جرأت کرے یہ آنکھوں دیکھی بات ہے۔ اے آئی ڈیم کے کی سیاست میں بھی مردوں نے اماّں کےبعدکمال سعادتمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چنماّ کا دامن تھام لیا ۔ ان درویش صفت ارکان سمبلی کا تو یہ حال ہے کہ ؎
دل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا

تیس سال قبل ۱۹۷۸؁ میں ایم جی آر کی موت کے بعد بھی اے آئی ڈی ایم کے دودھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی اور اتفاق سے دونوں کی سربراہ خواتین تھیں۔ ایک کی سربراہ جانکی اور دوسرے کی جئے للیتاکے ہاتھوں میں تھی ۔ اس طرح پہلی مرتبہ ایوان میں یہ جاننے کی نوبت آئی تھی کہ کس کے ساتھ زیادہ ارکان اسمبلی ہیں۔ کانگریس کی مرکزی حکومت چاہتی تھی ان میں سے کمزورجانکی کے ہاتھ میں کمان رہے تاکہ انتخاب میں ان کو شکست دینا آسان ہو۔ اس نے اپنےنامزد کردہ گورنرپانڈین کی مدد سے جئے للیتا کے کئی حامیوں کو معطل کردیا۔ اس کے بعد حزب اختلاف نے اجلاس کا مقاطعہ کیا اور ایم جی آر کی دھرم پتنی جانکی وزیراعلیٰ بن گئیں۔ کانگریس کا سپنا ساکار ہوگیا۔ اس نے صدر راج لگا کر اقتدار کی باگ ڈور مرکز کےغلام گورنر کو سونپ دی لیکن عوام نے کانگریس کا خواب چکنا چور کرکے جئے للیتا کو وزیراعلیٰ بنوا دیا ۔ جانکی نے پارٹی میں کوئی کام نہیں کیا تھا بلکہ صرف ایم جی آر سے اپنے رشتے کی بنیاد پر سیاسی وراثت کی دعویدار تھیں جبکہ جئے للیتا پارٹی میں ایم جی آر کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں اس لئے بجاطور عوام نے انہیں ترجیح دی۔ لیکن اندر والی اور باہر والی کےاس جھگڑے میں کانگریس کا کام اس شعر کی مصداق تمام ہوگیا ؎
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ!
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا

تمل ناڈور کے اندرانتخابات کا سلسلہ آزادی سے قبل ۱۹۲۰؁ سے شروع ہوا اور ۱۹۳۷؁ تک ۳۴ سال ڈاکٹر امبیڈکرکی جسٹس پارٹی برسرِ اقتدار رہی ۔ اس کے بعد ۳۰ سالوں تک کانگریس نے بلاشرکت غیرے حکومت کی لیکن ۱۹۷۶؁ میں ڈی ایم کے پارٹی کےعالمِ وجود میں آنے کے بعد نصف صدی سے اقتدار نہیں حاصل کرسکی ۔ابتداء میں وہ ایک بڑی حزب اختلاف ضرور تھی لیکن جانکی کی حمایت کے بعد کانگریس کا نام ونشان مٹتاچلا گیا۔ بی جے پی نے اس سےسبق نہیں سیکھا۔ اس نے بھی مرکزی حکومت کے زعم میں سسی کلا کے مقابلے کمزور پنیروسیلوم کے کندھے پر چڑھ کر تمل ناڈو میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر منہ کے بل زمین پرآگئی۔اس ا ٹھا پٹخ میں ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کی مصداق پنیر سیلوم کا کباڑہ ہوگیا۔ پنیر سیلوم کا نام پہلی مرتبہ ۲۰۰۱؁ میں سننے کو ملا جب جئے للیتا کو بدعنوانی کے سبب استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ اتفاق سے اس وقت مرکز میں اٹل جی کی حکومت تھی جسے جئے للیتا نے ۱۳ ماہ بعد گرادیا تھا۔ پنیر سیلوم کو کل تین مرتبہ وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی اورسسی کلا کے جیل جانے پر وہ چوتھی وزیراعلیٰ بن جاتے لیکن بی جے پی کی صحبت کے سبب ان کا یہ حال کیا کہ ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

پنیر سیلوم کی حالت فی الحال دھوبی کے کتے کی سی ہے جو نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا یعنی نہ تمل ناڈو میں کوئی ان کو پوچھتا ہے اور نہ دہلی میں۔ سسی کلا کو جب یہ محسوس ہوا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف آسکتا ہے تو اس نے سوچا وزیراعلیٰ بن کر مرکزی حکومت کو رام کرلینا چاہئے لیکن بی جے پی کے ارادےخطرناک تھے اس نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو اس کےغلام سے حلال کروانے کی سازش نہایت پھوہڑ انداز میںرچی۔ سب سے پہلے پنیر سیولم نے دعویٰ کیا کہ ارکان اسمبلی کی اکثریت ان کے ساتھ ہےاور استعفیٰ زبردستی لیا گیا ہے۔ کاش کہ انہیں احساس ہوتا کہ وہ کیا کہہ ر ہے ہیں ۔ کیا کسی وزیراعلیٰ کو ارکان اسمبلی کی اکثریت اور مرکزکی حکومت کے آشیروادکے باوجود اقتدار سے بے دخل کیا جاسکتا ہے؟ اگر ہاں تو ایسے کمزور مرد کو جو ایک عورت سےاس قدر ڈرتاہو اول تو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جانا چاہئے اور بنا ہی دیا گیا ہےتو ہٹا دیا جانا چاہئے۔ اس بیان سے پنیر سیلوم نے خود کو رسوا کیا اور یرقاؤں کی بھی مٹی پلید کی بقول قائم چاندپوری دونوں دوست بدنام ہوگئے؎
قائم گئے سب اُس کی زباں سے جو تھے رفیق
اِک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا

عام طور پر بدمعاش لوگ بے وقوف نہیں ہوتے اس لئے اگر کسی کو ان دونوں صفات کے حامل رفیق درکار ہوں تو دو افراد سے دوستی کرنی پڑتی ہے لیکن پنیر سیلوم کو بی جے پی کے اندر دونوں مل گئے۔ اس لئے وہ بیچارہ ایک کے سبب ذلیل ہوا اور دوسرے کی وجہ سے خسارے میں رہا۔ اِ دھر سسی کالا نے اپنا دعویٰ پیش کیا اُدھر گورنر ودیاساگر راو گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہوگئے۔ خبر یہ آئی کہ وہ دہلی بھاگ گئے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلا کہ ممبئی میں ماہرین دستورسے مشورہ کررہے ہیں۔ اس کے بعد عدالت عالیہ میں گہار لگائی گئی کہ بدعنوانی کا فیصلہ ہونے تک سسی کلا کی حلف برداری روک دی جائے۔ یہ ایک ناجائز مطالبہ تھا ۔ ہائی کورٹ سے وہ بری ہوچکی تھیں اس لئے ان کےراستے میں روڑا اٹکانا غیر دستوری عمل تھا۔ اس کے بعد الزام لگایا گیا کہ سسی کلا نے ارکان اسمبلی کو اغواء کرلیا ہے۔ یہ بھی احمقانہ بہتان تراشی تھی اس لئےکہ اگر ۱۰۰ سے زیادہ ارکان اسمبلی کو یرغمال بنا لیاجائے تو سرکار کو عدالت کے دروازے پر دستک دینے کے بجائے بزور قوت انہیں رہا کرانا چاہئے لیکن جو مرکزی حکومت عقل سے پیدل ہو اس سے حماقت کے علاوہ کوئی اور توقع کرنا حماقت ہے۔

اس موقع پر بی جے پی رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی جن کا تعلق تمل ناڈو سے ہے اور جو دس سال سے اس مقدمہ کو لڑ رہے ہیں نے بیان دیا کہ سسی کلا کو حلف برداری سے روکنا غلط ہے ۔ وہ جانتے ہیں تمل ناڈو کی عوام میں دہلی والوں کے خلاف نفرت و عناد کے جذبات ہیں اور سسی کلا کی مخالفت کرکے دہلی کی حکومت صوبے کی عوام کو اپنا دشمن بنا رہی ہے لیکن بی جے پی ہائی کمان نے اپنے آدمی کی بھی ان سنی کردی اور ٹال مٹول کرکے سسی کلا کے خلاف فیصلہ کروادیا۔ یہ فیصلہ اس معنیٰ میں حیرت انگیز ہے کہ عام طور پر ہائی کورٹ کی سزا کو سپریم کورٹ میں رد ہوجاتی ہے لیکن یہاں ہائی کورٹ کی رہائی کو منسوخ کرکے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا گیا تھا یعنی سپریم کورٹ کے نزدیک ٹرائل کورٹ کی فہم و فراست ہائی کورٹ سے زیادہ ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے سسی کلا کو ساڑھے تین سال کے لئے جیل بھیج دیا اور پھر مزید ۶ سالوں تک وہ وزارت اعلیٰ کے عہدہ نہیں سنبھال سکتیں اس طرح ان کی سیاسی زندگی روند دی گئی ۔ سسی کلانےاس لئےجلد بازی دکھائی کہ ممکن ہےوزیراعلیٰ بن جانے کے بعد سپریم کورٹ کا فیصلہ موافق آئیگا۔وہ پارٹی سربراہ کے طور پروہ سودے بازی کرسکتی تھیں مگرعجلت پسندی انہیں مہنگی پڑی بقول شاعر؎
ناپختگی کا اپنی سبب اُس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی جو وہ خام رہ گیا

اس معاملے میں سسی کلا کی مانند بی جے پی نے بھی ناپختگی کا ثبوت دیتے ہوئے خام پھل توڑنے کی کوشش کی۔ بی جے پی کی ریاستی شاخ کے ایک سینئر رہنما نےبتایا کہ ہمیں امید تھی سسی کلا کے مجرم قرار پاتے ہی حالات بدل جائیں گے۔ ہم اے آئی ڈی ایم کے میں عمودی پھوٹ کی توقع کررہے تھے۔ ہم نے سوچا تھا کہ بالآخر ۵۰ فیصد ارکان اسمبلی پنیر سیلوم کے ساتھ آجائیں گے۔ وہ نہیں ہوا ۔ اس کا خیمہ ناکام ہوگیا اور سارا حساب کتاب چوپٹ ہوگیا۔ پنیر سیلوم کے ساتھ یہ بی جے پی کی بھی ناکامی تھی۔ اگر وہ ان کے ورغلانے میں آکر علمِ بغاوت بلند نہیں کرتا تو سسی کلا اسی کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنا کر جیل جاتیں لیکن سسی کلا کی تقدیر اچھی تھی جو وہ پہلے ہی کھل گیا ورنہ جیل کے اندر پنیر سیلکی دھوکہ دہی سے وہ بے موت ماری جاتیں ۔ اس معاملے میں سب سے کم رسوائی سسی کلا کی ہوئی اس لئے کہ آج بھی ریموٹ کنٹرول انہیں کے ہاتھ میں ہے ۔ پنیر سیلوم کے ہاتھ سے اقتدار گیا تو بی جے پی نے بھی اسےدھتکار دیا اورابآخرِ شب کا بسمل پنیر سیلوم اپنے صیاد بی جے پی سے فریاد کررہاہے ؎
صیّاد تو تو جا ،ہے پر اُس کی بھی کچھ خبر
جو مرغِ ناتواں کہ تہِ دام رہ گیا

اس خلفشار کا سیاسی فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام ہونےوالی بی جے پی کو صدارتی انتخاب کا غم ستا رہا ہے جس میںدونوں ایوانوں کے اندر موجود اے آئی ڈی ایم کے کے۵۰ ارکان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان میں سے ۱۲ نے وزارت کی لالچ میں پنیر سیلوم سے اپنا ناطہ جوڑا اور ۳۸ نےسسی کلا کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ جیل کے اندر چنماّ کی موم بتی بناتے ہوئے ایک تصویر باغیوں کا مستقبل خاکستر کرنے کیلئے کافی ہے اس لئےتوقع ہے کہ ان ۱۲ باغیوںمیں سے بیشتر چنّما کی پناہ میں واپس چلےجائیں گے۔ جذباتیت میں تملوں کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ جولوگ اپنے رہنما کی موت پر خود سوزی کیلئے آمادہ ہوجاتے ہوں ان کیلئے ووٹ کا استعمال کون سی بڑی بات ہے؟ اب دیکھنا یہ ہے اپنی اس بڑی حماقت کے بعد بی جے پی والے پلانی سوامی کو اپنے ساتھ لینے کیلئے کون سا دام ڈالتے ہیں؟ ویسے بی جے پی کے جنرل سیکریٹری ایج راجہ نے فی الحال ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پنیرسیلوم کو ہم اس لئے پسند کرتے تھے کہ ان کے اوپر بدعنوانی کا الزام نہیں ہےلیکنہم صوبائی حکومت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ بی جےپی آنجہانی جئے للیتا کو بد اور ان کے خزانچی پنیر سیلوم کو نیک کہہ کر کمال منافقت کا مظاہرہ کر رہی ہے؎
نے تجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل
کہنے کو نیک و بد کے اِک الزام رہ گیا

تمل ناڈو میں واضح اکثریت پلانی سوامی کے ساتھ ہے۔ انہیںاعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے دوہفتوں کا وقت دیا گیا لیکن دو دن کے اندر اپنا دعویٰ ثابت کرکے انہوں نےبی جے پی سے خریدو فروخت کی منڈی لگانے کا موقع چھین لیا۔ ایوان میں حزب اختلاف نے اسپیکر سے یہ مطالبہ کیا کہ خفیہ ووٹنگ کرائی جائے جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس سے قبل تمل ناڈو میں ۱۱ مرتبہ اعتماد کا ووٹ ہاتھ اٹھا کر لیا جاچکا ہے مختلف ریاستوں میں یہی روایت ہے لیکن اس کے باوجودبار بارتعطل ، توڑ پھوڑ اور مارپیٹ نے اعتماد کے ووٹ کوداغدار کردیا۔ کانگریس نے مقاطعہ کیا اور دو سو مارشلس کی مدد سے ڈی ایم کے پارٹی کے ۸۸ ارکان کو اٹھوا کر ایوان سے باہر پھینکوایاگیا۔ اس کے بعد صرف اے آئی ڈی ایم کے دوگروہ اندر رہ گئے ۔ اعتماد کی مخالفت میں صرف گیارہ اورحمایت میں ۱۲۲ ووٹ پڑے ۔کیا یہ کام مہذب طریقہ سے نہیں ہوسکتا تھا ۔ کیا اس کیلئے صدر اجلاس سمیت چار لوگوں کی قمیض پھاڑنے کی اور پیریا سوامی کو دھوتی سے محروم کرنے کی ضرورت تھی؟ لیکن دنیا کے سب سے مہذب نظام سیاست میں اب یہ عام بات ہے یہاں تو خواتین کے بھی کپڑے پھاڑے جاتے ہیں اور انہیں زدوکوب کرنے سے پس و پیش نہیں کیا جاتا۔

تمل ناڈو کی سیاسی اتھل پتھل نہایت دلچسپ ہے۔ کروناندھی کانگریس کی یوپی اے حکومت میں شامل تھے اس لئے جئے للیتا کا نرم گوشہ این ڈی اے کی جانب تھا لیکن انہوں نے مودی سے فاصلہ رکھا اس لئے کہ وہ فائدے کانہیں گھاٹے کا سودہ تھا۔ اس کے باوجود جئے للیتا یو پی اے سرکار کے دور اقتدار میں بنگلورو ہائی کورٹ سے رہا ہوگئیں جبکہ کرناٹک میں صوبائی حکومت بھی کانگریس کی تھی۔ کانگریس نے اپنے حلیف ڈی ایم کے وزیر راجہ اور کرناندھی کی بیٹی کنی موزو کو ٹوجی کے طوفان پر قابو پانے کیلئے جیل بھجوا دیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے این ڈی اے کے اقتدار میں آجانے کے بعد ان دونوں کی رہائی کا راستہ کھل رہا ہے اور سسی کلا جسے مقدمہ میں چھوٹ جانا چاہئے تھا جیل بھیج دی گئی ہیں ۔ پنیر سیلوم جسے سسی کلا کے بعد وزیراعلیٰ بنے رہنا چاہئے تھا اکیلا پڑ گیا ہے اور ایک گمنام آدمی پلانی سوامی وزیراعلیٰ بن گیا ہے۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جمہوریت میں اقتدار کی ساری تبدیلیاں عوام کی مرضی کے مطابق ہوتی ہیں ۔ اب کوئی بڑا سے بڑاسیاسی مبصر یہ بتادے کہ تمل ناڈو کی حالیہ تبدیلیوں میں عوام کا کیا کردار ہے؟ جئے للیتا کا انتقال ہوگیا اس میں عوام کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ پنیرسیلوم وزیراعلیٰ بنے، استعفیٰ دیا، بغاوت کی یہ بھی عوام سے پوچھ کر نہیں کیا۔ پلانی سوامی کو بھی عوام نے نہیں بلکہ سسی کلا نے وزارت اعلیٰ کیلئے منتخب کیا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ جن ۱۲۲ عوامی نمائندوں کی حمایت سے پلانی سوامی وزیراعلیٰ بنے ہیں تو اسے جان لینا چاہئے کہ اگر سسی کلا نامزد کرتیں وہ ۱۲۲ ارکان پلانی بابا کی بھی حمایت کردیتے۔اس کا کیا کیا جائے کہ تمام سیاہ سفید کی مالک سسی کلا کوتمل ناڈو کی عوام نے سرے سے منتخب ہی نہیں کیا۔
سسی کلا پر آج کل سوشیل میڈیا میں ایک لطیفہ گردش کررہا ہے جس میں ان کے شوہر نامدار جناب نٹراجن کو دنیا کاسب سے خوش قسمت خاوندقرار دیا گیا ہے۔اس لئے کہ وہ ۱۰۸ کمپنیوں کے مالک ہیں ۔ ان کے پاس بے شمار زمین جائیداد اور کروڈوں روپئے ہیں ۔ ۱۲۲ ارکان اسمبلی ان کے بندۂ بے دام ہیں ۔ ان کے ہاتھوں میں صوبائی حکومت کی بلا واسطہ زمامِ کارہے اور سب سے اہم یہ کہ بیگم جیل میں ہے۔ اس کے علاوہ نٹراجن کی خوش بختی دیکھیں کہ اس سبکدوش سرکاری افسر نے کوئی انتخاب نہیں لڑا۔ عوام سے جھوٹے وعدے نہیں کئے ۔ عملاً کسی بدعنوانی ، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارتگری میں حصہ نہیں لیا اس کے باوجود دوسرے نمبر کی سب سے امیرریاست کا بے تاج بادشاہ بن گیا ۔ کیا جمہوریت میں یہ سب بھی ہوتا ہے؟ اور بیچاری سسی کلا جس نے لاکھ پاپڑ بیلے وہ جیل میں چکی پیس رہی ہے۔ ان کی حالت زار پر یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا *
 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449483 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.