پٹرولیم اور احسان

 وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے قوم پر احسانِ عظیم کردیا ہے، نہ جانے قوم اس کا بدلہ اتار بھی سکے گی یا یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھو ں پرتادیر اٹھائے پھرے گی؟ بدلہ اتارنا چاہے تو ایک سال بعد موقع مل جائے گا، اگلے برس قومی الیکشن ہونے کو ہیں، اس میں میاں صاحب کو ووٹ دے کر ثابت کردیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا ۔ پٹرولیم وغیرہ کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے اوگرا نے گزشتہ دنوں وزیراعظم کو ایک سمری ارسال کی تھی، جس میں پٹرولیم کی قیمتوں میں زیادہ اضافے کا کہا گیا تھا، وزیراعظم نے کسی حد تک تجویز پر برہمی کا اظہار کیا اور پٹرول کی قیمت میں صرف 1.71روپے، ڈیزل کی قیمت میں 1.52روپے اور مٹی کے تیل کی قیمت میں 75پیسے اضافہ کی منظوری دی۔ اگر وہ اوگرا کی بات مانتے تو یہ اضافہ اس سے دُگنے کے قریب ہو سکتا تھا۔ وزیرخزانہ نے اس عظیم کمی کا کریڈٹ وزیراعظم کو دیا ہے۔ قوم پر یہ احسان پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ایسا آئے روز ہوتا رہتا ہے، کسی چیز کی قیمت میں اضافے کی خبر آتی ہے، لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، وہ ہمت ہار جاتے ہیں، اتنا بھی یاد نہیں رکھتے کہ انہیں کوئی غم کھانے کی ضرورت نہیں، ان کے سر پر مہربان حکمران موجود ہیں، جو ہر مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ سمری کے اعلان کے جلد ہی بعد قیمت میں اضافہ تو ہو جاتا ہے، مگر وہ اضافہ نہیں ہوتا جس کا اعلان کیا جاتا ہے، یوں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ دی جاتی ہے، اور اضافہ قوم کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس اضافے کا اعجاز یہی ہوتا ہے کہ حکومت کا کام بھی ہو جاتا ہے، اور عوام بھی خوش ہو جاتے ہیں۔

پھر اس اضافے کا دوسرا اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے کوئی بھی ’’متاثر‘‘ نہیں ہوتا، یعنی ’عام آدمی‘کے بارے میں تو ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا، جب قیمتیں ہی (وزیراعظم کی مہربانی سے) اتنی تھوڑی بڑھیں گی، تو کسی نے متاثر کیا ہونا ہے؟ جس کسی نے اپنے بائیک میں سو روپے کا پٹرول ڈلوانا ہے، اس میں دو روپے اضافی لگ جائیں گے تو کون سی آفت آجائے گی، دو روپے کی تو سیگریٹ بھی نہیں آتی، ایک ٹافی بھی کم از کم پانچ روپے میں ملتی ہے۔ اس قدر تھوڑے اضافے کے بارے میں بات کرنا، اس پر احتجاج کرنا کسی غریب آدمی کو بھی زیب نہیں دیتا، ویسے غریب کو پٹرول کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، پٹرول کا استعمال تو امیروں کے نخروں میں شامل ہے ، اور امیروں کا کیا ہے، وہ اتنے چھوٹے موٹے معاملات پر سر نہیں کھپاتے، اپنی توانائیاں ضائع نہیں کرتے۔ پٹرولیم مصنوعات کا شمار اُن نقد آور اجناس میں ہوتا ہے، جس میں چند پیسوں کے اضافے کے ساتھ ہی حکومت کو کروڑوں روپے کا منافع ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور جب بات روپوں تک ہوگی، تو منافع کی شرح بھی اسی قدر زیادہ ہوگی۔

پٹرولیم کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کے موقع پر احتجاج اور تنقید کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ حکومتیں صرف باتوں سے نہیں چلتیں، اس کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، وسائل درکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے شب وروز گزارنے ہوتے ہیں، ملک کے اندر دورے کرنے ہوتے ہیں، بہتر معیشت کو بہترین کرنے کے لئے بیرونِ ملک جانا ہوتا ہے، ان کے مہمان بھی آتے ہیں، حکمرانوں کو سکیورٹی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، غرض یہ کہ ان کے ہزاروں مسائل ہیں جو صرف وسائل سے ہی حل ہو سکتے ہیں۔ کامیاب اور عقلمند حکمران آمدنی کے مواقع اور ذرائع پیدا کرتے ہیں، اس کے لئے ان کے سب سے بڑے معاون او رمشیر خزانے سے وابستہ لوگ ہوتے ہیں۔ کامیاب حکمران ٹیکس لگانے پر توجہ دیتے ہیں، یہ کام اس ہنر مندی اور صفائی سے کرنا ہوتا ہے کہ اپنے خاص لوگ ٹیکس کے جال سے ایسے نکل جائیں جیسے مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے، اور کمی اُن لوگوں سے پوری کی جائے جو ایک دفعہ ٹیکس نیٹ کا حصہ بن کر الجھ اور پھنس چکے ہیں۔ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے، اور اپنے حکمران وہ مچھلیاں ہیں جو دریا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ پلے سے خرچ کرکے کوئی حکومت نہیں کرتا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ قوم نے اپنا خون نچوڑنے والے حکمرانوں کو بچت، قناعت یا اعتدال اختیار کرتے کبھی نہیں دیکھا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430170 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.